کوئٹہ کے شودر کا آنسو – ظفر اللہ خان
دستور کے مطابق مذمتی بیانات ہر طرف سے آچکے ہیں۔ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ ہو چکا ہے۔ علی الصبح جب دھماکے کی نوعیت طے نہیں ہوئی تھی تو ہمارے وزیراعلی صاحب نے ذمہ داروں کا تعین بھی کر دیا۔ انہوں نے بتا دیا کہ اس میں را ملوث ہے۔ جب را ملوث ہے تو پھر کون سے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے یہ ابھی اعلی سطح کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔ میں گزشتہ چار گھنٹے سے اسلام آباد ائرپورٹ پر انتظار کر رہا ہوں کہ کوئٹہ کی کوئی فلائیٹ دستیاب ہو سکے۔ اس بیچ ٹی وی دیکھتا رہا۔ دل جلاتا رہا۔ آنسو بہاتا رہا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کڑھتا رہا۔
خیال آیا کہ جب انور کاسی کی میت ایمرجنسی پہنچائی گئی تو بہت سے وکلاء کو گیٹ کے باہر سیکورٹی خدشات کے باعث روک لیا گیا۔ سوال کیا کہ دہشت گرد کیسے اندر پہنچ گیا؟ اہل وطن نے بتایا ، ’آپ بدگمانی پھیلا رہے ہیں۔ ممکن ہے منصوبہ ساز پہلے سے وہاں موجود ہوں۔ یہ واویلا اس وقت کیوں نہ مچایا جب نادرا کے ملازمین اچکزئی پر زبردستی افغانوں کے شناختی کارڈ بنوانے کے لئے دباؤ ڈالنے کا الزام لگا رہے تھے‘۔ اہل وطن کی بات درست ہے۔ میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہو گی۔ ممکن ہے دہشت گردوں نے وہاں رات بسر کی ہو۔ ممکن ہے جب گیٹ پر موجود سیکیورٹی اہلکار ناشتہ کرنے سامنے والے ہوٹل میں گئے ہوں تو دہشت گرد اندر آ گیا ہو۔
میں ٹی وی پر ٹکر چلتا دیکھتا رہا۔ خیال آیا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین، لر او بر (سرحد کے ادھر اور ادھر) افغانوں کے غم خوار محمود خان اچکزئی کیوں خاموش ہیں۔ قوم پرست دوستوں نے پیغام بھیجا ، ’ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے گماشتے ،خان کا بیان آ چکا ہے‘۔ عرض کیا خان کو خود آنا چاہیے تھا۔ فرمایا، ’ ایک لیڈر بھی تم لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا اس کو بھی مروانا چاہتے ہو‘۔ قوم پرستوں کی بات درست ہے۔ لیڈر زندہ رہنے کے لئے ہوتے ہیں تاکہ قوم کو حقوق دلا سکیں۔ مرنے مارنے کے لئے تو عوام کافی ہیں۔ فون بجا، ایک اطلاع آئی کہ بھابھی کا بھائی نور اللہ ایڈوکیٹ شہید ہو چکا ہے۔ میں کاؤنٹر پر گیا۔ ٹکٹ کے لئے منت کی۔ تسلی دی گئی۔
میں پھر ٹکر دیکھنے میں مگن ہو گیا۔ سوچا ایک مسیحا صفت لیڈر موجود ہے۔ عمران خان کو تو آنا چاہیے تھا۔ کشمیر کی الیکشن کمپیئن کے لئے جہانگیر ترین کا جہاز استعمال کر سکتا ہے تو کوئٹہ بھی تو آ سکتا ہے۔ سیاست کے انقلابی جوانوں نے بتایا کہ خان تعزیت کر چکا ہے۔ آپ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے خان کا نام کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ کچھ دانشوروں کے ٹویٹس دیکھے جن میں لکھا تھا کہ جونہی احتساب کا نعرہ بلند ہوتا ہے ملک میں دھماکے شروع ہو جاتے۔ معلوم نہ ہو سکا کہ اس سے کیا مراد تھی ۔ ایک اور فون آیا کہ بھانجی کا شوہر ناصر خان جس کی شادی کو صرف تین سال ہوئے تھے، شہید ہو چکا ہے۔ ادھر ادھر فون کئے تو معلوم ہوا کہ لاش سول ہسپتال میں پڑی ہے اور چیف صاحب کے آنے کی وجہ سے سڑکیں بند ہیں۔ عرض چیف صاحب کے شکرگزار ہیں لیکن اگر یہ دورہ جلدی ختم کریں تو ہم کفن دفن کا بندوبست کر لیں گے۔ اہل وطن نے میری جہالت کا ماتم کیا اور بتایا کہ جب عمران خان نہیں جاتا تب بھی آپ رونا روتے ہیں اور جب چیف جاتا ہے تب بھی آپ رونا روتے ہیں۔ اہل وطن بات درست ہے اگر عمران خان ایسے پروٹوکول میں آتے تو ہمیں اور دشواریاں ہوتیں۔ فون آیا کہ ماموں زاد بشیر کاکڑ ایڈوکیٹ نہیں رہے۔
باز محمد کاکڑ، ان کے بھائی علی کاکڑ اور عطا کاکڑ، ڈاکٹرلعل محمد کاکڑ چاروں سے دیرینہ تعلق ہے۔ صبح علی نے بتایا کہ باز محمد کاکڑ زخمی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد علم ہوا کہ وہ بھی نہیں رہے۔ عسکر اچکزئی بھی نہیں رہے۔ محمود خان بھی نہیں رہے۔ کم از کم بیس ایسے بندوں کی تفصیل آ چکی ہے جن سے ذاتی تعلق تھا۔ فون بجتا ہے تو دل دہلنا شروع کر دیتا ہے۔ کوئٹہ کے لئے آج کی کوئی مزید فلائیٹ نہیں ہے۔ کل کی کسی فلائیٹ میں چانس پر بھی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام آباد سے کوئٹہ جاتے ہوئے سڑک سے سولہ گھنٹے لگیں گے۔ رات تین بجے کسی وقت نکلنا ہو گا تاکہ مغل کوٹ سے ژوب تک 150کلومیٹر کا سفر چار گھنٹے میں اور روشنی میں طے ہو سکے کیونکہ رات میں وہاں سے گاڑی سمیت گزرنا ممکن نہیں بلکہ شاید گزرنا ہی ممکن نہ ہو۔ میں کسی سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ صاحب یہ 150کلومیٹر جو دو صوبوں کو ملاتا ہے اور بلوچستان کے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے کیا کسی میٹرو سے بھی غیر اہم ہے؟ ایسا کہوں گا تو احباب کہیں گے کہ میں لسانیت کا شکار ہوں لہذا میں خاموش ہوں۔
دیکھیے بلوچستان کا نوحہ لکھنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ وہاں موت کی دیوی عرصے سے ناچ رہی ہے۔ خون کا ایک دریا پار ہوتا ہے تو ایک اور دریا سامنے ہوتا ہے۔ کبھی ڈاکٹر مرتے ہیں۔ کبھی پروفیسر مرتے ہیں۔ کبھی وکیل مرتے ہیں۔ ایک ایک سیٹ والے مسلط وزرائے اعلی بمبو بمبو کھیلتے ہیں اور عوام کے نمائندے اکثر غدار کہلاتے ہیں۔ سیاست کے لگے بندھے ڈھب پر سوالوں کے پہلے سے مرتب جواب وصول ہوتے ہیں۔ بتایا جائے گا کہ یہ را کے ایجنٹ افغان مہاجرین نے کارستانی تھی۔ ہم یہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ یہ افغان مہاجرین کس کا تحفہ ہیں؟ یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ جب یہاں سے وہاں بارود جائے گا تو وہاں سے پھولوں کی توقع کیوں جاتی ہے؟ ایسا پوچھنے پرتزویراتی گہرائی خطرے میں پڑے گی۔ حب الوطنی پر سوال اٹھیں گے۔ ہم یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ دہشت گرد کی شناخت تو تلاش کی جا رہی ہے لیکن حفاظت کا ذمہ دار تو معلوم ہے۔
میرا نوحہ البتہ یہ ہے ابھی تک گھر فون کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سولہ گھنٹے کا سفر درپیش ہے۔ راستے میں آنے والے بائیس چیک پوسٹوں پر تلاشی ہو گی۔ ہر چیک پوسٹ پر ہتک آمیز سلوک ہو گا۔ ہر بار ہوتا ہے ۔ شناختی کارڈ میں پتہ پشین کا لکھا ہوا ہے۔ گلہ کیا کرنا کہ یہ تو میری پیدائش کا جبر ہے۔ کسی اور صوبے سے گزرتے ہوئے مجھے یہ ذلت اٹھانی پڑے گی۔ اپنے صوبے والے فرماتے ہیں کہ پیجابی اسٹیبلشمنٹ کے گماشتے ہو۔ آمریت کے آرزو مند فرماتے ہیں کہ غدار وطن ہو۔ اچھے طالبان کے حامی ایمان پر سوال اٹھاتے ہیں۔
یہی دھماکہ کابل کے کسی ہسپتال میں ہوتا اور طالبان ذمہ داری قبول کرتے تو یہاں سکوت ہوتا۔ سیاست کے نئے انقلابی مسیحائی کے سحر میں گرفتار ہیں اور ہر دور کے سیاسی کارکن کو ناقص العقل اور سٹیٹس کو کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ دست بدستہ عرض ہے کہ میں جاتنا ہوں ہم ایک عظیم قوم ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانان ہند نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں جنت کا یہ ٹکڑا لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ مجھے قومی ترانہ یاد ہے۔ میں نے سکول میں اقبال کی دعا لب پہ آتی ہے بھی یاد رکھی ہے۔ بخدا کسی سے عقیدے یا مذہب کے نا پر نفرت نہیں۔ رنگ، نسل، زبان، علاقہ، قومیت کی بنیاد پر تفریق کو قابل مذمت سمجھتا ہوں۔ سینہ چاکان چمن کی پہلی آس انسانیت سے وابسطہ ہے۔ سب اچھے ہیں۔ سب سچے ہیں۔
ضبط کا بندھن مگر ٹوٹ ٹوٹ سا جاتا ہے۔ کسی پر کوئی الزام نہیں۔ میں لفافہ صحافی ہوں۔ ایمان فروش ہوں۔ میرا ضمیر گروی ہے۔ میں غدار وطن ہوں۔ میں شودر ہوں ۔ وہ شودر جسے بس جینے کی آس درکار ہے۔ شودر کو سپھل ہونے کی راہ تو کوئی پجاری بھی نہیں بتاتا۔ شودر کل کس کس سے تعزیت کرے گا؟ کس کس کے آنسو پونچھے گا؟ کس کس کو تسلی دے گا؟ کس کس کو امید دلائے گا؟ مگر یار ! درد میں شودر کی آنکھ سے آنسو بہہ کر جب منہ میں گرتا ہے تو اس کا ذائقہ بھی نمکین ہوتا ہے۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/23129/zafarullah-khan-42/