لا تکفیر کانفرنس کے حوالے سے اے آر وائی نیوز کا تفصیلی آرٹیکل

Feature

کراچی: سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان میں تعصب کی کوئی گنجائش نہیں ، نعروں والا دین تعصب ہے اور پڑھے لکھے پاکستانی ہر قسم کے تعصب کی مذمت کرتے ہیں۔

یہ بات انہوں نے معروف سماجی کارکن خرم ذکی کے چہلم کے موقع پر سماجی تنظیموں کی جانب سے انچولی امروہہ گراونڈ میں’’ لاتکفیر کانفرنس ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔کانفرنس میں ملک کے مختلف مذہبی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اسکالرز کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اس موقع پر پنڈال کو پاکستانی پرچموں سے سجایا گیا تھا اور تین ہزار سے زائد کرسیاں رکھی گئیں تھی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے خرم ذکی سمیت دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کو خراج تحسین پیش کیا۔

تقریب میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سال سے 16 جولائی کو لاتکفیر کے دن کے طور پر منایا جائے گا جس کا مقصد ملک بھر میں جاری مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ہوگا۔ عوام کی بڑی تعداد نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ اور بقا کے لیے اس پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’’آج کا دن تاریخ کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوگا ، پاکستان کے پڑھے لکھے عوام کا ایک جگہ جمع ہوکر انتہا پسندی کے خلاف فیصلہ کرنا ایک اچھا اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین کا اخلاقی پہلو انسانیت ہے اور ہمیں اسے ہر سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

 سینیٹر تاج حیدر نے انکشاف کیا کہ امریکی محکمہ خارجہ ہیلری کلنٹن نے خود اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکا نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طالبان کی سرپرستی کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا بار بار یہی غلطی دوہراتا ہے، امریکی سامراج ہمیشہ سے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتا آیا ہے اور اس مقصد کے لیے اُس نے افغانستان، شام، عراق سمیت دیگر اسلامی ممالک میں لشکر بنا کر انہیں فنڈز مہیا کیے ‘‘۔

تاج حیدر نے معروف قوال امجد صابری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ایک ایسا شخص تھا جس کے بچھڑنے پر تمام مکاتب اور مذاہب کے لوگ افسردہ نظر آئے، امجد صابری کے جنازے میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور ایک پتہ تک نہیں ٹو ٹا، اس کا مطلب ہے ملک میں آج بھی پر امن لوگ موجود ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں، کسی بھی ریاست میں جب تک ایسے لوگ موجود ہیں تب تک ریاست کو کوئی خطرہ نہیں ہے ملک میں انشاء اللہ جلد امن آئے گا‘‘۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے ڈین ڈاکٹر شکیل اوج(مرحوم) کے بیٹے ڈاکٹر حسان اوج نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے والد کے قتل کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی جس کے بعد میں خود شواہد لے کر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس گیا مگر انہوں نے میری بات پر توجہ نہیں دی اور ڈاکٹر اوج کے قتل کا الزام لسانی بنیادوں پر ایک سیاسی جماعت پر عائد کردیا‘‘۔

ڈاکٹر حسان اوج نے مزید کہا کہ ’’میرے والد کے حوالے سے غلط باتیں پھیلائی گئیں آج میں ایک بار پھر بتانا چاہتا ہوں کہ میرے والد کا تعلق اہلسنت سے تھا اور میں بھی فقہ حنفیہ سے تعلق رکھتا ہوں، ڈاکٹر شکیل کا نظریہ تھا کہ دنیا میں صرف دو ہی قسم کے مسلک ہیں پہلا محبت والا اور دوسرا نفرت والا یہ کسی بھی انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کس فقے کو اپناتا ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ’’ اگر میرے سامنے والد کا قاتل موجود ہوگا تو بھی میں کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر میں بہت افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ریاست انتہا پسندوں کے ذہن سازی کرنے والے افراد کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لاتی‘‘۔

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کی خاتون ممبر برائے قومی اسمبلی ثمن جعفری نے کہا کہ ’’ہمیں اپنی قیادت پر زور دینا ہوگا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث جماعتوں کا نام لے کر مذمت کریں ، آخر ہم اتنے کمزور کیوں ہوگئے کہ دہشت گردوں کا نام تک نہیں لے سکتے، دنیا جانتی ہے کہ  طالبانائزیشن کے خلاف سب سے پہلے ایم کیو ایم نے آواز بلند کی اور عوام کو بروقت آگاہ کیا اگر اُس وقت اقدامات کرلیے جاتے تو کراچی میں امن و امان کی صورتحال قدرے مختلف ہوتی‘‘۔

سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا کسی سیاسی جماعت، فقے سے کوئی تعلق نہیں، اگر آپ کو میرا تعلق جوڑنا ہے تو قائد اعظم سے جوڑیں کیونکہ ہم اُن کے پیغام کو عام کرنے نکلے ہیں، ہمیں قائد اعظم کے روشن خیال پاکستان کی جدوجہد کررہے ہیں جو جناح سے پیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ موجود ہے‘‘۔

سابق سینیٹر نے سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر سیاسی جماعتوں کو فوجی عدالتیں قبول نہیں تو ہمیں یہ سیاسی جماعتیں کسی صورت قبول نہیں۔سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اندرون سندھ مذہبی انتہا پسندوں کے نیٹ ورکس دن بہ دن مضبوط ہوتے جارہے ہیں مگر حکومت کو اُن سے کوئی سروکار نہیں ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ 2017 مکافات عمل کا سال ہے، جن لوگوں نے ہمارے بے گناہ بچوں کو قتل کیا اور  معصوم لوگوں کو جنونیت کی بھینٹ چڑھایا وہ جلد کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور ہمارے بچوں کے مستقبل روشن ہوں گے، ہماری آج کی جدوجہد کے نتائج آنے والی نسلوں کے سامنے مثبت صورت میں ضرور سامنے آئیں گے۔

اس موقع پر سماجی رہنما خرم ذکی اور شہید قوال امجد صابری کے اہل خانہ کی آمد کے موقع پر شرکا نے کھڑے ہوکر استقبال کیا جبکہ امجد صابری کے بھائیوں طلحہ صابری، اجمل صابری اور اُن کے صاحبزادوں نے کلام پیش کر کے حاضرین سے داد وصول کی۔

دریں اثنا منظر الحق تھانوی، ناظر عباس تقوی، ثمر عباس ، خرم علی، شیر بانو سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن خرم ذکی سمیت دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کو خراج تحسین پیش کیا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی کاوشوں کا یقین دلایا۔

اس کانفرنس میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی، تحریک منہاج القرآن، مجلس وحدت مسلمین سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

Source:

http://www.arynews.tv/ud/clinton-admitted-that-the-us-was-helping-the-taliban/

Comments

comments