پاک ترک سکول اور ترک سفارت خانہ – سید مجاہد علی
ترکی نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی تنظیم ہزمت کے زیر انتظام چلنے والے اسکول اور دیگر ادارے بند کئے جائیں۔ ترک حکومت گزشتہ ہفتے کے دوران ناکام بغاوت کے بعد باغی عناصر کی تطہیر کےلئے جو اقدامات کر رہی ہے ، ان میں بھی تیزی آئی ہے۔ مغربی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تنقید کے باوجود آج صدر طیب اردگان نے ملک کے ایک ہزار اسکول اور 1200 تنظیموں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ 19 ٹریڈ یونین اور 35 طبی ادارے بھی بند کئے گئے ہیں۔ جن اداروں کو بند کیا گیا ہے، ان میں 15 یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ حکومت کی طرف سے اب فتح اللہ گولن کے خلاف کھلا اعلان جنگ کیا جا چکا ہے اور ان پر ملک میں دہشتگرد نیٹ ورک چلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اسی حوالے سے پاکستان اور دیگر دوست ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ گولن کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کےخلاف کارروائی کریں۔ یہ معلومات موجود نہیں ہیں کہ کن دیگر ملکوں میں یہ بات کس طرح اور کن کن حکومتوں سے کہی گئی ہے یا فتح اللہ گولن کے زیر انتظام اسکول اور ادارے کون کون سے ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں ترکی کے سفیر صادق بابر گیرگن نے اخباری نمائندوں کو سفارتخانے مدعو کیا اور انہیں اس بارے میں ترک حکومت کی خواہش سے آگاہ کیا۔
یہ بات واضح ہے کہ ترک سفارتخانہ اس سے قبل پاکستانی حکام سے اس حوالے سے بات کر چکا ہو گا تاہم میڈیا کے ذریعے عوامی دباؤ میں اضافہ کےلئے براہ راست صحافیوں اور رپورٹروں سے رابطہ کرنا بھی ضروری سمجھا گیا ہے۔ یہ طریقہ کار اگر مکمل طور سے سفارتی آداب کے خلاف نہیں ہے تو بھی یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے کہ ایک میزبان حکومت سے کوئی بات منوانے کےلئے ملک کے میڈیا کو ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس قسم کے معاملات میں سفارتی نمائندے عام طور سے یا تو سرکاری بیان کو ہی کافی سمجھتے ہیں یا میزبان ملک کی وزارت خارجہ کو کسی معاملہ پر بات کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ سفارتخانے کی طرف سے ترکی کے اندرونی معاملات اور سیاسی کشمکش کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کو اعتماد میں لینے کی کوشش اس حد تک تو قابل قبول ہو سکتی ہے کہ سفارتخانہ متضاد خبروں اور افواہوں کے تدارک کےلئے میڈیا کو براہ راست حکومت کے سرکاری موقف سے آگاہ کرنے کی کوشش کرے۔ تاکہ اس کی حکومت حالات کی جو تصویر درست سمجھتی ہے، اسے سامنے لایا جا سکے۔ البتہ اگر یہ معاملہ ترکی کے اندرونی اختلاف میں پاکستان کو فریق بنانے سے متعلق ہے تو سفارتخانے کا رویہ ضرور قابل توجہ ہے اور حکومت کو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہو گی تاکہ آئندہ مختلف ملکوں کے سفارتی نمائندے سرکاری روابط کے علاوہ میڈیا کے ذریعے حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی حکمت عملی اختیار کرنے سے گریز کریں۔
فتح اللہ گولن کی تحریک کے زیر انتظام پاکستان میں 21 تعلیمی ادارے اور رومی فورم کے نام سے ثقافتی مباحث کا ایک ادارہ چلایا جا رہا ہے۔ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس تحریک کو پاکستان میں پاؤں جمانے کےلئے ترکی کی حکومت کے ذریعے ہی مواقع حاصل ہوئے ہوں گے۔ چند برس پہلے تک گولن اور ان کی تحریک صدر طیب اردگان اور ان کی عدل و ترقی پارٹی (AKP) کے قریبی حلیف رہے ہیں۔ اس دوران ان دونوں شخصیتوں کے درمیان ٹکراؤ کے نتیجے میں اب بغاوت کے بعد ترکی میں گولن کے حامیوں کو ختم کرنے، ان کے ادارے بند کرنے اور ان کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کےلئے اقدامات ہو رہے ہیں۔ ترکی کے اندر اور ترکی کے باہر بہت سے عام لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی کہ بغاوت فوجیوں کے ایک گروہ نے کی تھی لیکن حکومت ملک کے تمام شعبوں سے گولن تحریک سے متاثر یا منسلک لوگوں کو فارغ کرنے اور ان کے اداروں کو بند کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس طرح یہ بات بھی قابل فہم نہیں ہو سکتی کہ جو مذہبی لیڈر چند برس پہلے تک صدر اردگان کا قریبی حلیف، ساتھی ، سرپرست اور معاون تھا وہ یک بیک دہشتگرد تنظیم کا بانی اور محرک کیوں کر بن گیا۔ بہرحال یہ سیاسی معاملات ہیں اور ملکی سیاسی ضرورتوں کے تحت صدر اردگان انہیں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے صدر اردگان کے حامیوں کے علاوہ باقی لوگ اور ملک یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت بغاوت کو عذر بنا کر ملک سے مخالفانہ عناصر کو خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مغربی ممالک کے نزدیک ترکی میں جمہوریت کے حوالے سے یہ ناقابل قبول طریقہ ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت کے ہتھکنڈوں کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہیں۔ ان میں سب سے متنازعہ بات موت کی سزا بحال کرنے سے متعلق ہے۔ صدر اردگان یہ واضح کر چکے ہیں کہ عوام کے مطالبے کی روشنی میں اس سزا کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے موجودہ حالات میں صدر اردگان اور ان کی حکومت کے کانوں تک عوام کی وہی صدا پہنچ سکتی ہے جو ان کی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرتی ہو۔ اس دوران جرمنی اور دیگر یورپئین ملکوں نے واضح کیا ہے کہ اگر ترکی میں موت کی سزا بحال کی گئی تو ترکی کو یورپئین یونین کی رکنیت کا خواب دیکھنا بند کر دینا چاہئے۔ صدر اردگان کا جواب ہے کہ یورپ پوری دنیا نہیں ہے۔ امریکہ اور روس سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں موت کی سزا موجود ہے، اس لئے ترکی بھی اسے بحال کر سکتا ہے۔
ترکی کافی مدت سے یورپئین یونین کا رکن بننے کی تگ و دو کرتا رہا ہے۔ تاہم صدر اردگان نے متعدد مواقع پر یورپ کے خلاف سخت موقف بھی اختیار کیا ہے۔ یورپی یونین ترکی کے ساتھ رکنیت کےلئے مذاکرات شروع کرنے سے پہلے انسانی حقوق کی بہتری، جمہوری اداروں کے استحکام اور اقتصادی شعبہ میں متعدد اصلاحات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ صدر اردگان کے سخت گیر رویہ کے باوجود ترک حکومت یورپ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے اقدامات بھی کرتی رہی ہے۔ اس کی سب سے اہم اور تازہ ترین مثال یونان پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کی ترکی واپسی کے بارے میں معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ کے تحت یورپ نے ترکی کو متعدد سہولتیں اور امداد فراہم کی تھی جبکہ ترکی یورپ کو پناہ گزینوں کے اچانک سیلاب سے بچانے کےلئے سرحدیں بند کرنے اور سمندری راستے سے یونان پہنچنے والوں کو واپس لینے پر راضی ہو گیا تھا۔ اس معاہدے پر خوش اسلوبی سے عمل ہو رہا ہے۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر اردگان داخلی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے کس حد تک یورپ سے تصادم کا راستہ اختیار کریں گے۔ اگرچہ فی الوقت صدر بذات خود بغاوت میں غیر ملکی ہاتھ کا اشارہ دے رہے ہیں اور سرکاری نمائندے یورپ اور امریکہ کے دوہرے معیار کا پردہ فاش کر رہے ہیں کہ بغاوت شروع ہونے کے بعد فوری طور پر اس کی مذمت کرنے کی بجائے، اس بات کا انتظار کیا گیا کہ حکومت بغاوت کچلنے میں کامیاب ہو جئے تو بات کی جائے۔
اس تنازعہ سے قطع نظر پاکستان میں بیرونی تحریکوں اور ملکوں کے زیر اثر چلنے والے اداروں کے بارے میں حکومت کو ایک واضح حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان ترک حکومت کی حمایت میں ایک ایسی تنظیم کے اداروں کو بند کرنے کےلئے قدم اٹھاتا ہے جو قانونی طور پر قائم کئے گئے ہیں، تو یہ کوئی اچھی مثال نہیں ہو گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان ملک کے عوام کو ضرور جوابدہ ہے کہ مختلف ملکوں کی تحریکیں اور تنظیمیں کیوں کر پاکستان میں پاؤں جمانے اور اپنے مخصوص مشن کےلئے پاکستان کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ اس سے پہلے یہ خبریں عام ہیں کہ عرب ممالک مختلف مدارس اور مذہبی تنظیموں کے ذریعے خطیر رقوم پاکستان روانہ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے مسلک ، مخصوص نظریہ اور طریقہ کار کی قبولیت کےلئے ماحول تیار کرتے ہیں۔ اس کے اثرات سماج میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
پاکستان نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہر طرح کی مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر انتہا پسند گروہوں کے خلاف یکساں قوت سے کارروائی کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم اس کی مکمل کامیابی کی راہ میں یہ امر مانع رہا ہے کہ حکومت اس مقصد سے بنائے گئے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکام رہی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت ملک میں مذہبی تعلیمی ادارے ، بیرونی امداد سے چلنے والے اداروں اور غیر ملکی طالب علموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ ترکی کی طرف سے جو شکایت سامنے آئی ہے، مستقبل میں وہ دوسرے ملکوں کے بدلتے ہوئے داخلی حالات کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں سے بھی ایسی ہی درخواستیں سامنے آ سکتی ہیں۔ یوں بھی ملک کے تعلیمی نظام میں دیگر ملکوں کی مذہبی اور ثقافتی تحریکوں کی سرمایہ کاری بے معنی نہیں ہو سکتی۔ یہ معاملہ صرف ترکی کے فتح اللہ گولن کی تحریک سے متعلق نہیں ہے، نہ ہی حکومت کو غیر ملکی سرمائے سے چلنے والے تعلیمی و ثقافتی اداروں کے بارے میں پالیسی بناتے ہوئے صرف ایک ملک یا تحریک کے خلاف اقدام کرنا چاہئے۔ ملکی حالات اور ضرورتوں کے حوالے سے ایسی سب تنظیموں کے تحت چلنے والے اداروں کے بارے میں پالیسی بنا کر کارروائی کرنے کی ضرورت ہو گی، جو ایک خاص مقصد سے پاکستان کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔
اس طرح دوست ملکوں کو یہ شکایت نہیں ہو گی کہ پاکستان کو ان کی دشمن تحریکیں اور تنظیمیں اپنے مقاصد کےلئے استعمال کر رہی ہیں اور پاکستان میں بھی غیر ملکی اثرات کے خاتمہ کےلئے کسی اصولی حکمت عملی پر کام شروع ہو سکے گا۔ اس قسم کی پالیسی ہوشمندی سے بنانے کی ضرورت ہے اور کوئی بھی فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں ہونا چاہئے۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/21891/syed-mujahid-ali-252/