کابل میں ہزارہ شیعہ برادری کے احتجاجی مظاہرے میں داعش کے خود کش حملے میں ساٹھ افراد شہید اور متعدد زخمی

13754285_10154356362124561_8133550436523345603_n

لسانی تقسیم کے اعتبار سے افغانستان میں ہزارہ برادی آبادی کا تیسرا بڑا طبقہ ہے۔

اس سے پہلے کہ آپ داعش کے اس حملے کو ” کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا ” کی چھتری تلے چھپائیں، یہ بات بتا چلوں کے افغانستان میں ہی مزار شریف میں آٹھ ہزار ہزارہ شیعہ کو افغان طالبان نے بے رحمی سے قتل کیا تھا۔ طالبان کے ہی ہاتھوں دیگر شہروں میں بھی ہزارہ برادری کا قتل عام کیا گیا۔

پاکستان کی بات کریں تو یہاں یہ بیڑہ لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ نے سنبھالا اور کوئٹہ بلوچستان میں ہزارہ شیعہ کو بے دریغ قتل کیا۔بہت سے تجزیہ نگار اس نسل کشی کا پس منظر یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ شیعہ ہزارہ طالبان مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر برسر پیکار رہے لہذا اُسکی سزا انہیں اس منظم نسل کشی کی صورت میں دی گئی۔

اس قسم کی توجہیات کو آپ کچھ بھی نام دیں، میرے اساتذہ نے ایسی تشریحات کو جھوٹی بائینریز (False binaries) کا نام دے رکھا ہے جنکا مقصد قاتل کو کور اور مقتول کو تھوڑا بہت اپنے قتل کا ذمہ دار ثابت کرنا ہوتا ہے۔

مزار شریف میں طالبان کے ہاتھوں ۱۹۹۸ میں قتل ہونے والے آٹھ ہزار بچے ، عورتیں اور مرد ہوں اور یا آج کابل میں بجلی کے نئے منصوبے میں ہزارہ کمیونٹی کی آبادیوں کے حصے کے حصول کیئے مظاہرہ کرنے والے نہتے لوگ ہوں جنہیں داعش نے نشانہ بنایا، ان سب کو صرف ایک وجہ سے قتل کیا گیا، وہی وجہ جسکی وجہ سے پاکستانی ہزارہ شیعہ قتل ہوتے رہے۔

Comments

comments