ترکی: بغاوت فوجیوں نے کی، گرفتار ہزاروں جج ہوئے – عدنان خان کاکڑ

adnan-khan-kakar-mukalima-3b4

ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد صدر ایردوان کی حکومت نے 2745 ججوں اور سرکاری وکلا کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ ان میں اعلی عدلیہ کے جج بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ آف اپیل کے 140 جج اب تک اس فہرست کا حصہ بن چکے ہیں،  جو اندازوں کے مطابق ترکی کے تقریباً پندرہ ہزار ججوں کا اٹھارہ فیصد بنتا ہے۔ ججوں کی تنظیم کے سربراہ مصطفیٰ کاراداگ کے مطابق جن ججوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ صرف ایسے قانون دان نہیں ہیں، جن پر بغاوت میں شرکت کا شبہ ہے بلکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصطفیٰ کے بقول ان افراد کا قصور یہ ہے کہ وہ صدر ایردوان کے مخالف اور ناقد ہیں۔

دوسری طرف 2839 باغی فوجیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں چار جرنیل اور اکیاسی کرنیل شامل ہیں۔

ججوں پر الزام ہے کہ وہ گولن تحریک کے پیروکار ہیں۔ ایردوان نے گولن تحریک پر اس بغاوت کا الزام لگایا ہے۔ شاید ہماری طرح ایردوان بھی اس بات کو مانتے ہیں ہیں کہ قلم کی طاقت تلوار کی طاقت سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے تلوار والے فوجیوں کے ساتھ ساتھ قلم والے ججوں کو بھی پکڑ لیا گیا ہے۔ سلیمان سوئلو نامی ایک وزیر صاحب نے یہ انکشاف کیا ہے یہ بغاوت امریکہ نے کروائی ہے۔ ہم جانتے ہی ہیں کہ امریکی صدا کے جھوٹے ہیں، اس لیے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی نے اس کی تردید کی ہے اور بلاوجہ دھمکی دے دی ہے کہ ترک حکام کی طرف سے ایسے بیانات سے ترک امریکہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

صدر ایردوان نے ایک عوامی تقریر کرتے ہوئے امریکہ سے کہا ہے کہ اگر ہم دوست اور اتحادی ہیں تو فتح اللہ گولن کو ہمارے حوالے کر دیا جائے جو کہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بغاوت زیادہ نہیں بلکہ چند فوجیوں نے کی ہے۔ حیرت ہو رہی ہے۔ ایردوان صاحب کے وزیر امریکہ پر دشمنی کا الزام لگا رہے ہیں اور ایردوان صاحب ان پر دوستی کی تہمت دھر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ فتح اللہ گولن کو امریکی حکومت نے رہائش کے لیے ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا تو انہوں نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروا کر امریکی حکومت کو ویزا دینے پر مجبور کیا تھا۔ امریکی حکومت نے ایسی کوئی کوشش کی تو امریکی عدالت دوبارہ اس کے آڑے آئے گی۔ قسمت کی بات ہے کہ امریکہ میں ابھی تک عدالت پر انقلاب نہیں لایا جا سکا ہے اور وہ آزادانہ فیصلے کر سکتی ہے جو کہ حکومت کو ماننے پڑتے ہیں۔ فتح اللہ گولن نے کسی بین الاقوامی ادارے سے اس الزام کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی جانب سے مجرم ثابت ہونے پر خود کو اس کا فیصلہ ماننے کا پابند کیا ہے۔  بہرحال گرفتاریاں دیکھ کر ہمیں تو یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ مسلح بغاوت اصل میں فوجیوں نے نہیں بلکہ عدلیہ نے کی ہے۔

گولن تحریک سے وابستہ افراد اس بغاوت کی خبر سن کر ہکے بکے رہ گئے تھے اور ان کے سوشل میڈیا اور ویب ذرائع خبریں سنتے ہی چیخ و پکار کرنے لگے تھے کہ اس بغاوت کے پیچھے ایردوان کا ہاتھ ہے۔

وہ کہتے تھے کہ کیا وجہ ہے کہ ساڑھے چھے لاکھ کی فوج میں سے صرف ایک رجمنٹ کے برابر افراد، یعنی پونے تین ہزار کے قریب فوجیوں پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبکہ سڑکوں پر اس سے بھی کم فوجی نظر آئے تھے۔ اور سینکڑوں جہازوں کی فضائیہ میں سے ایک ہیلی کاپٹر اور دو تین جہاز ہی باغیوں کے پاس تھے۔

جبکہ بغاوت کی بھی اس وقت گئی جبکہ صدر ایردوان انقرہ سے باہر ایک مقام پر چھٹیاں گزار رہے تھے، مگر اس مقام پر حملہ کر کے انہیں گرفتار کرنے کی بجائے خالی پارلیمان اور دیگر حکومتی عمارات پر حملہ کیا گیا اور اے کے پی پارٹی کے کسی نمایاں شخص کو باغیوں نے اپنی تحویل میں نہیں لیا۔

ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ دعوی تھا کہ نتائج دیکھیں کہ اس ننھی سی بغاوت کا بے تحاشا فائدہ کون اٹھانے لگا ہے، اسی سے پتہ چل جائے گا کہ بغاوت کس نے کرائی ہے۔

ہم گولن تحریک کے دعوے سن کر ان کی اس سازشی تھیوری پر مسکرا ہی رہے تھے کہ یہ پونے تین ہزار ججوں کی گرفتاری کی اطلاع آ گئی۔ یہ ایردوان کے عہد میں عدلیہ پر تیسرا بڑا کریک ڈاؤن ہے۔ پہلے کریک ڈاؤن میں عدلیہ کے قانونی اختیارت میں کمی کی گئی تھی۔ دوسرا کریک ڈاؤن اس وقت کیا گیا تھا جب رجب ایردوان، ان کے بیٹے اور چند وزیروں پر تیل کی غیر قانونی تجارت سے کئی ملین ڈالر کمانے کا الزام لگایا گیا تھا تو اسے گولن تحریک کی سازش قرار دیتے ہوئے عدلیہ اور پولیس سے سینکڑوں افراد کو فارغ کر دیا گیا تھا۔ اور تیسرا کریک ڈاؤن اب ہوا ہے۔

ایک چیز کا خیال رہے کہ ترکی کی فوج پاکستان سے کہیں بڑی ہے۔ لیکن اس کا احترام ترکوں کے دلوں میں ویسا نہیں ہے جیسا پاکستانی فوج کا پاکستانیوں کے دلوں میں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قانون کے تحت اکیس سال کا ہوتے ہی ہر ترک نوجوان کو چھے مہینے سے لے کر ایک سال تک فوج میں بھرتی ہونا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے پوری ترک قوم ہی فوجی ہے اور عام ترک فوج کا اتنا ہی احترام کرتے ہیں جتنا دوسرے ترک شہریوں اور اداروں کا۔

گزشتہ اپریل میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک خبر یاد آ رہی ہے۔ اس کی بڑی سی سرخی تھی کہ ’ترکی کی ایردوان حکومت فوجی بغاوت کی افواہ پھیلا کر اپنی طاقت بڑھا رہی ہے اور مخالفین کو خاموش کر رہی ہے‘۔

خبر کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ سال کے شروع سے ہی فوجی بغاوت کے امکانات کا اس تواتر سے ذکر کیا جا رہا تھا چیف آف سٹاف کو غیر معمولی قدم اٹھائے ہوئے ایک باقاعدہ عوامی بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ بغاوت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ترک دانشور اور سابق رکن پارلیمان ایکان اردمیر کا کہنا تھا کہ ان افواہوں کو بنیاد بنا کر ایردوان کے حامی میڈیا کو انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلانے کا موقع ملا اور اپوزیشن کے میڈیا کو خاموش کر دیا گیا جس کا اے کے پی کو الیکشن میں بھرپور فائدہ ہوا۔ عوام میں فوجی بغاوت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں شدید جذبات پیدا ہونے لگے۔

نوجوان نسل میں اے کے پی کی مقبولیت کم ہے، اور شاید اسی سبب سے ایردوان کہتے رہے ہیں کہ سوشل میڈیا ترکی کی تباہی کا باعث ہے۔ اسی وجہ سے ایردوان حکومت میں سوشل میڈیا کو بھی بلاک کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ ترکی کی تباہی کا باعث قرار پانے والے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اس فوجی بغاوت کی سازش کرنے کا الزام پانے والے امریکہ کے ملکیتی ایک نیوز چینل سی این این ترک پر ایردوان نے وہ تقریر کی جس میں انہوں نے عوام کو بغاوت ناکام بنانے کے لیے باہر نکلنے کا میسیج دیا تھا۔ ویسے مشکل ہے، مگر شاید وہ اب مان جائیں کہ جمہوریت میں فری پریس اور عوام کی آواز اہم ہوتے ہیں اور جمہوریت کی استقامت کا باعث بنتے ہیں۔

بہرحال، جو بھی معاملہ ہے، خواہ گولن تحریک والے درست کہتے ہیں کہ یہ بغاوت ایردوان کی سازش ہے یا پھر ایردوان ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ بغاوت گولن تحریک نے کرائی ہے اور ایک خالصتانی رجمنٹ جتنے اور خالصتانی دماغ رکھنے والے باغی فوجیوں نے گولن تحریک کے اشارے پر چھے لاکھ سرکاری فوج اور کئی کروڑ فوجی تربیت یافتہ عوام کے خلاف بغاوت کر دی، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہتھیار بند باغی فوجیوں جتنے ہی جج اور وکلا اندر ہو گئے ہیں۔

یعنی بغاوت بندوق والوں نے کی اور ہتھوڑا ججوں پر چل گیا۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/21339/adnan-khan-kakar-169/

Comments

comments