بشار الاسد آمر ہے اور عرب بادشاہ الٰہی نمائندے؟ – حیدر جاوید سید
لاریب بشارالاسد ایک آمر ہے لیکن اگر مگر کے گورکھ دھندے میں پھنسے بغیر یہ تو بتائیے کہ اردن، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور مصر میں کیا جمہوریت ہے؟ خود ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 2013ء کے انتخابات ’’صوبے بانٹ‘‘ پروگرام کے تحت نہیں کروائے گئے؟ بشار الاسد کو مجرم قرار دینے سے قبل ہمیں اس سوال کا جواب لازمی تلاش کرنا چاہیے کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ بنیادہ پر النصرہ فرنٹ بنوانے کی ضرورت کس نے اور کیوں محسوس کی؟ معاف کیجئیے گا ہم سب ایسے ہی ہیں۔
عقیدوں کے طوق گلے میں ڈالے شاہراہِ حیات پر دندناتے پھر تے ہیں۔ اپنا کج نہیں دیکھتے دوسرے کو کوسنا شرعی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ لیبیا میں قذافی کو ہٹانے کے لئے برطانیہ، فرانس، اٹلی، سعودی عرب اور کویت کے ساتھ القاعدہ باقاعدہ اتحادی تھی۔ یحییٰ الہدیٰ القاعدہ کے لیبیا میں سربراہ اتحادیوں کی پریس کانفرنسوں میں باقاعدہ جلوہ افروز ہوا کرتے تھے؟ یاد نہ ہو تو عرب لیگ کے اس اجلاس کو ڈھونڈ کر دماغ میں لائیے جس اجلاس میں لیبیا، تیونس اور مراکش کے ساتھ الجزائرنے سعودی عرب کی اس قرارداد کو آڑے ہاتھوں لیا تھاجس میں 2006ء کی اسرائیل حزب اللہ جنگ میں فاتح بننے والی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
رائے شماری کے وقت عراق ، لبنان، شام وغیرہ نے سعودی قرارداد کے خلاف ووٹ دیئے تھے۔ یمن نے اپنا وزن حزب اللہ کے پلڑے میں ڈالا۔ قرارداد مسترد ہو گئی۔ جانتے ہیں پھر کیا ہوا؟ چند برس پیچھے جائیے اور ذہن کو تازہ کیجیئے۔ جس جس ملک نے سعودی قراردار کی مخالفت کی تھی وہاں حکومتوں کے خلاف مسلح دہشت گردی شروع ہو گئی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ہم سب اس بنیادی سوال سے آنکھیں چراتے ہیں کہ شروعات کس نے کیں۔ مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کا دروازہ کس نے کھولا۔ لبنانی حزب اللہ نے اسرائیل سے جنوبی لبنان کو آزاد کروایا۔ اسرائیل کے قبضہ گیری کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اسے مقبوضہ علاقے سے رسوا ہو کر نکلنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ شکست چند عرب ممالک کو پسند کیوں نہ آئی؟ کیا ہم اس خلیجی ملک کو بھول جائیں جس کے غزہ میں کام کرنے والے فری میڈیکل کیمپ کے عملے نے تفصیل کے ساتھ غزہ کے نقشے بنا کر اسرائیل کو فراہم کیے اور پھر جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی تو تاک تاک کر ان مقامات کو نشانہ بنایا جو حماس کے لئے فوجی اہمیت رکھتے تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور دوسرے کافروں کو کوستے رہنے کی بجائے مشرق وسطیٰ کے بعض رہنماؤں کی کج ادائیوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیسے بھلا دیا جائے اس بات کو کہ داعش کے درندوں کے عسکری اخراجات سعودی عرب، کویت، قطر اور بحرین نے برداشت کیے۔ اور اسرائیل نے انہیں عسکری تربیت دی۔ کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ سعودی وزیرِ خارجہ نے چند ماہ قبل یہ فرمایا تھا کہ اسرائیل اور ایران کی جنگ ہوئی تو ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ مسلمان بھائی پر تاریخ کے چچا زاد بھائی کے اس تقدم کو کیا نام دیا جائے؟
جس بات کو ہم سب نظر انداز کرتے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی چودراہٹ کے تین بڑے کھلاڑی ہیں۔ اسرائیل، سعودی عرب اور ایران۔ لیکن غور اس بات پر کرنا ہو گا کہ اگر سعودی عرب اپنی مسلکی بادشاہت کے بڑھاوے کے لئے اسرائیل کے تعاون سے جنگجوؤں کو منظم کر کے غیر وہابی ممالک میں اتارے گا تو کیا دوسرے خاموش رہیں گے؟ ان لوگو ں پر کوئی حیرانی نہیں ہوتی جو حضرت محمد ﷺ کی نواسی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے مزار پر داعش کے 8 حملوں پر مذمت کا ایک لفظ نہیں بولتے جوشام اور عراق میں انبیائے کرام اور صحابہ عظامؓ کے مزارات کی شہادتوں پر خاموش رہے بلکہ سانپ سونگھ گیا۔ لیکن جونہی حزب اللہ مزارات مقدسہ کی حفاظت کے لئے شام پہنچی تو فرقہ واریت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مزارات کے تحفظ کے لئے حزب اللہ کا کردار فرقہ واریت ہے تو دل بڑا کر کے کہہ دیجیئے مزارات کی شہادت عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟
ہم واپس شام چلتے ہیں۔ ابتدائی سطور میں عرض کیا گیا تھا کہ ’’بشارالاسدواقعتاََ ایک آمر ہیں ‘‘لیکن کیا بشار کی آمریت خطے کے بادشاہوں اور ترکی کے اردگان کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ خانہ جنگی کا دروازہ کھولیں؟ معاف کیجئیے گا بشارالاسد کو اس کی آمریت کی نہیں ایران کا اتحادی اور حزب اللہ کا مدد گار ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ بشارالاسد کے والد حافظ الاسد مرحوم نے عراق ایران جنگ میں امریکہ اور سعودی عرب کے شدید دباؤ کے باوجود عراق کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔
سو 1980ء کی دہائی کی عراق ایران جنگ نے ،جو عرب عجم کی نفرت پر لڑی گئی لیکن نام شیعہ سنی جنگ کا دیا گیا، میں شام کو غیر جانبداری کی سزاد دینے کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ مسلکی آنکھ سے معاملات کو دیکھنے والے تجزئیہ کار بھول جاتے ہیں کہ القاعدہ، جہاد الاسلامی اور داعش یا النصرہ فرنٹ ساری تنظیمیں بنوانے والا سعودی عرب ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہابی اسلام کے جنگجوؤں کی درندگی کے جواب میں دوسرے خاموش رہیں گے؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔ بہت ادب سے عرض ہے ساری مسلم تاریخ فرقہ واریت سے عبارت ہے۔
ایک دور فقط ایک دور ایسا بتا دیجیئے جو مکتبِ خلافت اور مکتبِ امامت کی چپقلش سے محفوظ رہا ہو۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ماضی میں کچھ مجرموں کو خطائے اجتہادی کی فضیلت سے جس طرح بچاتے رہے وہی ہتھکنڈہ اب بھی آزمانا چاہتے ہیں۔ کیوں ضروری ہے کہ سعودی عرب کے قیام سے اب تک کے سو سال کے اس فرقہ وارانہ جرائم کی تاریخ لکھتے وقت لازماََ ایران کو رگیدنا ہو گا؟ بشارالاسد کا اقتدار وہابی ازم کے علمبرداروں کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے۔ یہاں ایک سادہ سا سوال ہے۔ داعش کے درندے جب عراق اور شام پر حملہ آور ہوئے تو کس اسلامی ملک کی سرحد سے عراق اور شام میں داخل ہوئے؟ عراق اور شام پر داعش کے حملے پر مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اسلام اس وقت یاد آیا جب ایران اور عالمی برادری کا تنازعہ طے پا گیا۔ معاف کیجیئے گا یہ تو بتلائیے کہ سعودی امریکی تعلقات شریعت کی کس شق سے حلال اور ایران و عالمی برادری کے درمیان معاہدہ کس شق کی روشنی میں حرام ہے؟
فرقہ واریت کا شور مچانے والے پاکستانی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں سعودی اسلام کے ہم خیالوں کے ہاتھوں پچھلے بیس پچیس برسوں کے دوران 80ہزار سے زیادہ معصوم شہری اور سیکیوریٹی فورسز کے لوگ شہید ہوئے۔ان کی منطق عجیب ہے۔ حملہ سعودی عرب نے یمن پر کیااور یہاں دفاع حرمین کی ریلیاں نکالنے لگے۔ عقل کے اندھوں نے جغرافیہ تک بدل کے رکھ دیا۔ داعش گلے کاٹے تو خاموش اور اگر شام کی حکومت جوابی کاروائی کرے تو ’’حلب جل رہا ہے‘‘۔
ان منافقوں سے کوئی پوچھے امریکیوں نے ایک لاکھ بچے مارے عراق میں (اور یہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بھی تسلیم کیا کہ پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی غذائی قلت سے ایک لاکھ معصوم بچے جاں بحق ہوئے) تو یہ خاموش رہے۔ سعودی عرب کے یمن پر حملے کے آغاز سے اب تک تین ہزار بچے شہید ہوئے۔ ایک لفظ نہیں پھوٹے منہ سے یہ وہابی اسلام زادے۔ حضور دوسروں کو فرقہ پرستی کا طعنہ دینے سے قبل اپنے گریبانوں میں جھانک لیجئیے۔ کسی نے پوچھا خلیفہ اردگان سے کہ آپ کے بیٹے اور دامادنے داعش سے ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا چوری کا تیل کیوں خریدا؟
پاکستان میں ایک خاص مکتبۂ فکر کے علماء جہادی شادیوں کے لئے عورتیں شام بھجواتے رہے سب چپ رہے۔ ایک ٹی وی اینکر عمران خان کی بہن دو خواتین کو ساتھ لے کر جہادی شادیوں کے لئے شام چلی گئیں، وہ ہمیں غیرت نسواں پر لیکچر دیتا ہے۔ معاف کیجیئے گا دہشت گردی کے بانی آلِ سعود ہیں۔جنہوں نے حجاز کی قانونی حکومت کو برطانیہ کی مدد سے شکست دے کر سعودی عرب کے نام سے ملک قائم کیا اور پورے حجاز میں صحابہ کرامؓ اور اہلیبیت عظام ؑ کے مزارات شہید کیے۔ کس نے 1924ء میں روضہ امام حسینؑ پر حملہ کیا تھا؟ بشار واقعتاََ آمر ہے لیکن وہابی اسلام کے علمبردار بشار سے زیادہ سفاک درندے ہیں۔
وہابی اسلام کے جنگجو لوگوں کی عزتیں پامال کریں تو اسلام اور اگر مزاحمت ہو تو فرقہ واریت۔ رکھیئے اس دوغلے پن کو اپنے پاس سنبھال کر۔ اپنے ملک کے شہید فوجیوں کا جنازہ نہ پڑھانے کا فتویٰ دینے والے بے غیرتوں کو ڈوب مرنا چاہیے فرقہ واریت کارنڈی رونا روتے ہوئے۔ جہادی نکاح کے لئے تبلیغ میں مصروف پاکستانی مولوی اپنی بہو بیٹیوں، بہنوں اور بیگمات کو اس سعادت سے کیوں محروم کر رہے ہیں؟ عجیب منافق ہیں یہ جہادی بھی۔ دوسروں کے بچے مرواتے ہیں اور جہادی نکاح کے نام پر عزتیں بھی دوسروں کی بچیوں کی پامال کرواتے ہیں۔ حرف آخر وہی ابتدائی بات ہے ۔
بشارالاسد آمر ہے لیکن کیا عرب بادشاہ اللہ سے اقتدار کی سند لے کر آئے ہیں؟ معاف کیجیئے گا ان کی بادشاہتیں امریکہ و برطانوی سامراج کی عطا کردہ ہیں۔ عراق میں ماہِ صیام کے دوران فوج اور شیعہ سنی نے مل کر داعش کے گڑھ مقبوضہ فلوجہ کو آزاد کروایا۔ نیندیں حرام ہیں داعش کے ہم خیالوں کی۔ سو حضور! بالادستی کے کھیل کو فرقہ وارانہ رنگ دیں گے تو دوسرے بھی آرام سے بیٹھے نہیں رہیں گے۔ آگ سے کھیلنے والوں کے اپنے دامن اور گھر بھی جلیں گے۔
اسرائیل اور صرف اسرائیل کے تحفظ کے لئے وہابی اسلام زادوں کا کھیل سب پر عیاں ہو چکا۔ بلادِ عرب کا ہروہ ملک فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جو اسرائیل مخالف تھا۔ ان بربادیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سب بھگتیں گے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا۔ امریکہ سوویت جنگ کے جہادی پلٹے تھے تو انہوں نے پاکستان میں آگ لگادی تھی۔ یہی انجام سعودی عرب اور اس کے داعشی ہمنواؤں کا ہوگا۔ قرآن عظیم الشان نے تو 1400 سال پہلے کہہ دیا تھا ، ’’جس مظلوم کا بدلہ لینے والا کوئی نہ ہو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود لے گا‘‘۔ اللہ کا انصاف ہم سب دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم دیکھیں۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/assad-is-a-dictator-arabs-represent-divine/