ہمیں ایک نئی جمالیات کی ضرورت ہے- ارن دھتی رائے – عامر حسینی
نوٹ: ٹائمز آف انڈیا پبلیکشنز ” ای ایل ایل ای ” کے نام سے انگریزی ميں ایک فیشن میگ شایع کرتا ہے-اس کے تازہ شمارے کے سرورق کی کوئین اس مرتبہ کوئی اور نہیں بلکہ گاڈ آف سمال تھنگز کی شہرہ آفاق ادیبہ ارون دھتی رائے ہیں-اس میگ ميں ان کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی شامل ہے جو اس میگ کی ایڈیٹر ایشورائے سبرامنیم نے کیا ہے –اس کی تہمید یا ابتدائیہ اتنا خوبصورت مگر بہت ہی ادق انگلش میں لکھا گیا ہے کہ مجھ جیسا آدمی جو انگریزی سے اردو میں چیزوں کو ڈھالنا کوئی بڑی بات نہيں گردانتا گڑبڑاگیا-تھوڑی سی رہنمائی محترم وجاہت مسعود سے ، کچھ رضوان عطاء سے ، کہيں جمیل خان سے ، عباس زیدی سے ، اسماء ملک سے لی –اس سے مری مشکل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے-پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوں-لیکن چاہتا ہوں کہ کم از کم قلمکار کا اردو خواں قاری اس کمال کے انٹرویو سے مستفید ہو اس لئے اپنی تسلی نہ ہونے کے باوجود اسے شایع کررہا ہوں-( عامر حسینی –انچارج ادراتی بورڈ )
کبھی کبھی میں حیران ہوکر سوچنے لگتی ہوں کہ آیا ہمیں ان ادیبوں سے کبھی نہیں ملنا چاہئیے جن کو ہم پسند کرتے ہیں – نہ تو ان کو کبھی لیکچر دیتے دیکھنا چاہئیے اور نہ ان کو پڑھتے ہوئے سننے کی خواہش کرنی چاہئیےاور کبھی ان سے بات نہیں کرنی چاہئیے سوائے ایک خاص قسم کنٹرول فضاء جہاں اکتشافی مکالمہ جاری نہیں رہ سکتا ہو اپنے نام کے ہجے بتائے جائیں تاکہ آٹو گراف لیا جاسکے-اگر ہم اپنے ہیروز کو ایک خاص فاصلے پہ رکھتے ہیں تو ہمیں وہ اپنے عام سے آدمی جیسے معاملات کرکے مایوس نہیں کرسکتے –
لیکن بلوغت کا حصّہ یہ مان لینا بھی ہے کہ ہر شخص عام آدمی کی طرح بھی ہوتا ہے –اور آدمی ہونے کو یہ بھی لازم ہے کہ وہ اکتادینے والا ، خود آگاہ ، غیر محفوظ اور شکستہ بھی ہوسکتا ہے اور اپنے غیر متحرک راستوں پہ وہ گڑبرا بھی سکتا ہے-ارون دھتی رائے ان سب باتوں سے جڑی ہوئی ہیں لیکن وہ حس مزاح بھی رکھتی ہیں اور مہربان بھی ہیں – نرم خو بھی ہیں اور گرم جوش بھی –اگرچہ ان کا دماغ بہت سے ہیجان بھی رکھتا ہے لیکن ایسی مسکراہٹ کی مالک بھی ہیں جس سے ان کی آنکھیں ہمیشہ چمکتی رہتی ہیں –وہ مجھے ” نفیس چھچھوندر ” کہتی ہیں-یہ لقب مجھے کھلکھلاہٹ پہ مجبور کردیتا ہے-
چوّن سال کی ہوگئی ارون دھتی رائے کے اندر کوئی چھوٹی سی بچی بھی چھپی ہے: سریلی گاتی ہوئی آواز کی مالک جس کے گھنگھریالے بال ایک خوبصورت لڑکی کی طرح ہیں اور جس طرح سے اس کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت ہاتھ اپنے چہرے کی طرف اٹھتے ہیں اور وہ اپنے بالوں سے جیسے کھیلتی ہے ، ایک لٹ کھینچتی ہے اور پھر دوسری اور ان کو دوسروں سے ملاتی ہے تو بہت اچھی لگتی ہے-میں اس ٹک کو جانتی ہوں کیونکہ خود میں بھی ایسے ہی کرتی رہتی ہوں ،جیسے کوئی طوفان مرے پیشانی کے اوپر بالوں نے برپا کیا ہو اور وہ مری توقعات کو بہت زیادہ حساسیت کے ساتھ دبانے کی کوشش کررہے ہوں-اس کی آنکھوں میں سرمہ کی گہری لکیریں ہوتی ہیں اور وہ مجھے بغور دیکھتی ہیں
اس مہینے تک رائے مجھے سے ٹھیک بیس سال بڑی ہیں اور جہاں تک دماغ کا تعلق ہے تو مجھ سے چند نوری سال آگے ہیں –جب وہ مری عمر کی تھیں تو انہوں نے بکر پرائز جیت لیا تھا-اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مجھے بہت تکلیف دیتی ہے-میں نے ابتک کی زندگی میں کون سا تیر مارا ہے ؟ ( اس قسم کی سوچ ہمیں کہیں لیکر نہیں جاتی لیکن کیا کروں میں اس معاملے میں معذور ہوں ) میں نے ” گاڈ آف سمال تھنگز ” اس وقت پڑھا جب میں ٹین ایجر تھی-اور اس نے مجھے ویسے ہی انسپائر کیا جیسے مری نسل کے اور لوگوں کو کیا تھا-خاص طور پہ اس نے ہمیں شدید جذباتی انداز میں لکھنے کی ترغیب دی جس کے بارے میں ميں نہیں جانتی تھی کہ آیا اس کی اجازت ہے بھی کہ نہیں-اور اسی نے مجھے کئی فقروں مين لفظ ” وومٹی –استعمال کرنے کی اجازت دی-
اگر آپ مجھے کبھی یہ کہتے کہ میں نے ایک دن ارون دھتی رائے کے ساتھ گزارانا ہے تو تو مری حالت کچھ ایسی ہوتی کہ مرے منہ سے بے ربط جملے نکلتے، اوہ مرے خدا / شٹ اپ / بکواس مت کرو -میں ان سے اتنا نہین ڈری جتنا مجھے اندیشہ تھا ، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ان کے گھر میں ہوں ، جو کہ آپ پہ ایک رعب سا طاری کردیتا ہے کیونکہ اس مین ہر جگہ ہيں –رائے اپنے گھر مين اکیلی رہتی ہیں-اور عام طور پہ وہ اپنے سارے کام خود ہی کرتی ہیں-ان کا فلیٹ روشنی ، ہوا ، کتابوں کا ڈھیر جو زمین سے چھت تک کو چھوتا ہے اور فرینچرز کے ایسے نمونے جو اپنے اندر کئی کہانیاں رکھتے ہیں سے بھرا ہوا ہے-ورزش ان کی زندگی کا ایک حصّہ ہے اور ساکت سائیکل پہ بغیر توازن کھوئے ہلتے جانا بذات خود ایک معجزے سے کم نہیں ہے-
اس کے دو آواراہ کتّے – کتیاں – وہ مری درستی کرتی ہے – بیگم فلتھی جان اور مٹی کے لال مرے اوپر اچھل کود کررہے ہين اور اپنے پیٹ مجھے پیش کررہے ہین اور سب سے زیادہ مضحکہ خیز ان کے کان ہیں
رائے نے چکن بریانی کا آڈر دیا ہے جبکہ مين وینگرز سے ” بن کباب ” لیکر آئی ہوں-ہم اس کی بھدی سی پرانی کھانے کی میز پہ بیٹھ جاتے ہیں-اور وہ اچار سے اپنے بے پناہ شغف کا اعتراف کرتی ہے-میں ہلکے پھلکے انداز میں کھاتی ہوں-ہم بس یونہی احمقانہ سی باتیں کرتیں جیسے اس کی نہ نظر آنے والی کمر-یہ اس کے دوستوں مين اس کے بارے میں چلنے والا ایک مذاق ہے کہ وہ منحنی سی ہے مگر خم دار ہے – ایک ایسا سخی ” بن ” جو کہ اپنے ہلکے سے فریم سے پھسلتا چلا آتا ہے-یہ ڈی فارمڈ ہونے کے ںزدیک ہے مگر یہ بہت حد تک پرکشش بھی ہے-
وہ اپنے پرکشش ہونے اور دل ربائی کو مانتی ہے-اپنے جسم کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ ہے-اور کپڑے کیسے اسے جکڑتے ہيں ، جن کو دیکھنے سے مسرت ملتی ہے اسے سب پتہ ہے-لیکن رائے شرمیلی بھی ہے-اور فوٹو شوٹ کے دوران وہ بیٹل سانگ گنگنا کر اپنے آپ کو سنبھالتی ہے-اور کوشش کرتی ہے کہ کیمرے کے سامنے اپنی گبھراہٹ کو طاہر نہ ہونے دے-مجھے حیرانی نہیں ہے-کیونکہ میں اسے جانتی ہوں اس سے زیادہ شناسائی نہ ہونے کے باوجود-کیونکہ میں نے اسے پڑھ رکھا اے-یہ ہے وہ پہلو ان لوگوں سے ملاقات کا جن کے کام سے آپ پیار کرتے ہیں-کیا ایسا نہیں ہے ؟ وہ اپنے آپ کا ایک گوشہ آپ کو دکھاتے ہیں-اور تب تک واپسی آنے مين بہت دیری ہوچکی ہوتی ہے-
میں رائے کی سیاست کو بھی جانتی ہوں ، بہرحال ہم سب کیا اس سے واقف نہیں ہیں ؟مین نے اس کے اکثر مضامین پڑھ رکھے ہیں-اور میں نے اس غصّے ، برہمی کو صفحات سے نکل کر اپنے خون کے اندر منتقل ہوتے اور گرم ردعمل مین بدلتے ہوئے محسوس کیا ہے-میں نے کئی مرتبہ چاہا کہ وہ وہ زیادہ معقول ہوجائے اور کم شدت اور جذباتی ہو –لیکن یہ اس سے ملنے کے بعد میں سمجھ سکی کہ وہ واقعی کوئی دوسرا راستہ نہین جانتی اور نہ ہی جاننا چاہتی ہے-اسے اس بات کی چاہ نہیں ہے کہ آپ اس کو پسند کریں-بات کرنے کو کسی کے لئے لڑنے کو اور کسی کے خلاف لڑنے کو وہاں اسے سے بھی بڑی چیزیں ہیں-
نہیں ، آپ اسے پسند کرکے اس کی مدد نہیں کرسکتے-نہ ہی اس وقت جب آپ کو وہ بتاتی ہے کہ وہ تو واقعی ایک ” کامن مین ( عام سی عورت ) ہے –نہ ہی اس وقت جب وہ آپ کو وہ بتاتی ہے جسے وہ جم میں بہت زیادہ ڈیل ڈول والے بندے کہتی ہے-نہ ہی تب جب ول بڑے صبر سکون کے ساتھ آپ کو ہر اس ؤئے کے بارے مين وضاحت کرتی ہے جو دنیا کے ساتھ غلط ہورہی ہے جسے آپ بھی جانتے ہو –
ان سب باتوں کے آخر مين اپنے منہ ميں اچار کے زبردست ٹیسٹ کے ساتھ میں اس بات کی تصدیق کرسکتی ہوں کہ ارون دھتی رائے ایک بشر ہی ہے لیکن مجھے شک ہے کہ وہ انسانوں کی سب سے بہترین قسم ہے
آپ اس (ایلی )فیشن میگزین کے سرورق پہ جلوہ نما کیوں ہیں ؟
رائے : گرے پرائڈ مین ! یہ وقت عورتوں کے سرورق پہ آنے کا ہے-سینڈریلا کی دکھی اولڈ سسٹرز کا وقت ہے کہ وہ بھی گلاس سلپیرز پہن کر پھریں اور سورج کے نیچے اپنا مقام پالیں-
ایلی ہی کیوں ؟
رائے: کیونکہ میں نے ایلی جیسے فیشن میگزین کے سرورق پہ کالی جلد والی عورتوں کو دیکھا تھا-میں اسے پسند کرتی ہوں-یہ آبسیشن – آسیب کہ عورتیں انڈیا میں وہی ہیں جن کی چمڑی سفید ہے اور بال ان کے سیدھے ہیں مجھے بیمار کردیتا ہے-ہمين ایک نئی جمالیات کی ضرورت ہے-اور ميں دیکھ چکی ہوں کہ ایلی ایسی جمالیات کو سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے-یہ بہت ہی زبردست ہے-ونڈر فل ہے –اور میں یہاں اسی کو بڑھاوا دینے کے لئے ہوں-
اس بات نے مجھے بہت خوشی دی ہے-لیکن کیا آپ اس بات سے پریشان نہیں ہیں کہ لوگ آپ کو یہآن کیسے دیکھیں گے؟کیا آپ کو بہت درشتی سے نہیں دیکھا جائے گا ، آپ کی ساکھ وغیرہ کو ؟
رائے: آہ! مری ساکھ وغیرہ وغیرہ – ہاں نا ، ہاں نا – لیکن میں نے ڈائس کو لیپٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے-میں دنیا کو دکھانا چاہتی ہوں کہ اس جمی جمائی ، گرے بالوں والی بوڑھی عورت میں سے دلکش ، خوب گھنے دل للچانے والے بالوں والی 22 سالہ خواہش کی پوٹلی باہر آنے کی جدوجہد کررہی ہے-
میں اسے جانتی ہوں ! آپ کی ايک کتاب بھی اگلے ماہ آنے والی ہے-” تھنگز دیٹ کین اینڈ کین ناٹ بی سیڈ ( جگرناٹ ) جو سنوڈن سے آپ کی ملاقات کے احوال پہ ہے-
رائے: یہ ایک کتابچہ ہے جو میں جان کیوزیک کے ساتھ ملکر لکھی ہے جو کہ ایکٹر ہین پیشے کے لحاظ سے-یہ وہی تھا جس نے مجھ سے کہا کہ ہمین روس مين جاکر سنوڈن سے ملنا چاہئیے-سنوڈن کئی پہلوؤں سے غیر معمولی شخص ہے-مین سوائے سنوڈن کے کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتی جو جو بغیر رکے مکمل فقروں کے ساتھ بول سکے-بش کے حامی ہونے سے لیکر یعنی ایک دائیں بازو کے ایسے جنگ کے حامی ہونے کے جس نے عراق پہ امریکی حملے کی حمایت کی دستخطی مہم مين حصّہ لیا ہو سنوڈن کا سفر حیران کردینے والا ہے-ہم نے دو دن اکٹھے گزارے-جان کیوزیک ۔ ڈینئل ایلس برگ جس نے پینٹاگان پیپرز لیک کئے جس”60ء کا سنوڈن ” کے طور پہ جانا جاتا ہے اور میں-یہ بہت ہی زبردست ، اچھوتی ، آزاد گفتگو تھی-
کیا آپ نے کوئی چیز ریکارڑ بھی کی ؟
رائے: سنوڈن ہماری باہمی بات چیت کی ریکارڈنگ اوکے کردی تھی-لیکن بعد میں جب اس کو اس گفتگو کا لکھا متن ارسال کیا اور اس کو ایڈٹ کیا تو اس نے چاہا کہ اسے شایع نہ کیا جائے-کیونکہ اس ميں بہت پھکڑ پن اور مذاق تھے-وہ بہت مشکل مقام پہ ہے اور اسے احتیاط کرنا بنتی ہے-لیکن یہ اصل میں گفتگو کی نوعیت کا تقاضا تھا-اور یہ ساری کی ساری بہت ہی ہتک آمیز اور گستاخانہ تھی-
تو بدقسمتی سے اس کتاب مين سنوڈن سے براہ راست ہونے والی بات چیت میں سے چیزین بہت کم ہيں-کیونکہ جب جن چیزوں سے وہ واقف ہے بات کرتا ہے – انٹرنیٹ ، نگرانی اور یہ کیسے کی جاتی ہے-تو ایک ایسا جبڑا ہے جو شاندار طریقے سے چیزوں کو جکڑتا ہے-مذاق اور ہلکی پھلکی چیزوں کے پس پردہ کتاب میں کئی سنجیدہ معاملات کو بھی دیکھا گیا ہے: نیشنل ازم ، امپریلزم ، جنگ ، سرمایہ داری،کارپوریٹ سخاوت ، کمیونزم کی شکست۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں ایک ہلادینے والا حصّہ ہے جہاں ایلس بگ بتاتا ہے کہ کیسے امریکی حکومت جانتی تھی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کی بنیاد غلط معلومات پہ استوار ہے-
کیا آپ ایک ڈسپلن کے تحت لکھنے والی ادیبہ ہیں؟
رائے: مین بہت ڈسپلن سے کام کرتی ہوں-یہ اب تو بہت ہی درست ہے کہ میں ایک نئی کتاب پہ کام کررہی ہوں ،تو ہر روز گھر پہ اپنے ڈیسک پہ لکھتی ہوں-بعض اوقات پورا دن گزرجاتا ہے-اور میں توجہ نہیں کرتی-اچانگ جب اپنے اردگرد نظر دالتی ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ اندھیرا پھیل چکا ہے-اور روشنی بس وہ ہوتی ہے جو کمپوٹر سکرین سے آرہی ہوتی ہے-پچھلے ہفتے مين نے ایک انڈا جلا ڈالا اور پورے کچن میں دھواں بھر گیا-تب اس ہفتے ہبڑ دھبڑ میں انڈوں کی اگ بجھانے کو جب مین بھاگی تو مجھے پتہ چلا کہ انڈوں کو آگ تو لگی ہی نہیں تھی-یہ سب کسی حد تک پاگل پن ہے-
نیا ناول ! ہم سب اس کا انتظار کررہے ہين-کب یہ شایع ہوگا ؟
رائے: اگلے سال،مجھے امید ہے-
گاڈ آف سمال تھنگز کے 20 سال بعد –ہمیں کیا توقع کرنی چاہئیے ؟
رائے: کوئی بھی بلکہ گاڈ آف سمال تھنگز حصّہ دوم
آپ نے اسے اب کیوں لکھنے کا فیصلہ کیا ؟
رائے: میں نہيں کیا-یہ ہوگیا-اس کے گرد میں کافی سالوں سے گھوم رہی تھی-جب فکشن کی بات ہو تو مجھے کبھی جلدی نہیں ہوتی ہے-پچھلے 20 سالوں مين میں نے بہت زیادہ سفر کیا-بہت لکھا –اتنا کہ میں خود کو ایک سیڈیمنٹری راک خیال کرتی ہوں-تم جانتی ہو ، تفہیم اور سمجھنے کی بہت سی تہیں ہوتی ہیں چیزوں کی جن کو سوائے فکشن کے کسی اور طریقے سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے-آپ بس یہاں بیٹھ جاتے ہیں اور تجربے کی ان ساری پرتوں اور تہہ کو آپ کو گرفت ميں لانا ہوتا ہے اور اسے اپنے ڈی این اے کا جزو بنانا پڑتا ہے-اور پھر آپ اسے نثر کے طور پہ سامنے لیکر آسکتے ہو
کیا آپ کا فکشن سوانحی ہے ؟
سوانحی کسے کہا جاتا ہے؟ حقیقت کسے کہا جاتا ہے ؟ کیا کوئی چیز ایسی ہے جسے آپ سوانحی تصور کرتے ہو ؟آخرکار ، آپ اپنے تخیل ميں اس کا تجربہ کرتے ہو-۔۔۔۔ اور تب وہ حقیقت سے زیادہ حقیقی ہوجاتا ہے کیا ؟ اگر آپ ایسا تخیل رکھتے ہو جو دوسروں کے دکھ یا مسرت کو محسوس کرتا ہو ، کیا وہ سوانحی ہے ؟ مین نہیں جانتی-شناخت اور نمائندگی کے عظیم مباحث میں یہ بہت بڑا سوال ہے ؟ اور اس کے فکشن کے ایک لکھاری کے لئے بڑے ہی نتائج و عواقب ہوتے ہیں
Source:
http://www.qalamkar.pk/we-need-is-a-new-aesthetics/
منحرف زندگی ارون دھتی رائے
میں ایک انتہائی شاندار اور عجب لوگوں کی کمیونٹی کا حصّہ ہوں جو تمام تنہا زندگی گزارتے ہیں۔اسے ” بیگانگی یا الگ ہوجانے ” کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔مری گہری اور بھردینے والی دوستیاں ہیں۔ہم زمین کے آخری کنارے تک ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے جاتے ہیں۔ تو ہاں نا ! میں اکیلی رہتی ہوں۔لیکن مری زندگی محبت سے بھری ہوئی ہے۔مرا تعلق پردیپ جو مرا سابقہ شوہر ہے ، مری لڑکیاں متھوا اور پیا جنھوں نے مجھے انتہائی کم عمری میں کھودیا تھا بہت ہی شاندار ہے۔میں تنہا رہتی ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ مری کج روئی / انحرافی راہ کسی دوسرے پہ بھی مسلط ہو۔اور میں جو لکھتی ہوں اس کے انتہائی سریس نتائج و عواقب دوسروں کو بھگتنا پڑیں۔اگر ميں تنہا نہ رہنا چاہتی تو میں تنہا نہ رہتی۔اس کی کوئی کمی نہیں ہے
اپنے لکھنے کے عمل کو کیسے بیان کریں گی
رائے : مرا بیان بے ربط ہوجاتا ہے جب میں اسے بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں، کیونکہ جو میں کررہی ہوتی ہوں وہ آورد سے زیادہ آمد ہوتی ہے ( جو میں کررہی ہوتی ہوں اس کا مجھے پورا ادراک نہیں ہوتا ) مرا بیانيہ جس ساختیاتی راستے سے اپنے آپ کو کھولتا ہے وہ مرے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔یہ ایسا نہیں ہے کہ میں کہوں ” اوہ یہ ایک فیسی نیٹنگ کہانی ہے اور مجھے صرف اس کو بیان کرنا ہے۔مرا لکھنا ایسا لکھنا نہیں ہے۔لیکن خاص طور پہ اب جب میں اس لکھنے کے عمل میں ہوں ، میں واقعی اسے ایک تھیوری کی شکل مین بیان کرنے سے قاصر ہوں۔مرے لئے اسے بیان کرنا یا سمجھنا بالکل ہی مشکل ہے۔میں کہوں گی کہ بہت اہم یہ ہے کہ بیٹھا جائے اور لکھا جائے۔پھر میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ کتاب تو ہمیشہ سے وہاں ہوتی ہے ، تم جانتی ہو ؟ یہ میوزک کی طرح ہے جو پہلے سے ہی آپ کے دماغ میں بج رہا ہوتا ہے۔کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب یہ واں نہ ہو ، اس وقت بھی جب میں اس کے بارے میں ایسے انداز میں یا ویسے انداز میں نہیں سوچ رہی ہوتی – مرا اندازا ہے کہ یہ آبسیشن –آسیب کی طرح کی کوئی چیز ہے۔
یہ آبسیشن جیسی لگتی ہے ؟
جب آپ کو یوں لگتا ہے جیسے ایک کہانی نے آپ کو اپنا معمول بنا رکھا ہے نہ کہ آپ نے کہانی کو تو آپ منتظر رہتے ہو کہ یہ آپ کو یہ جاننے کی اجازت دے کہ یہ کیسے اسے بیان کرنا ہے۔یہ مری سوچ کے ہر ایک دائرے کو اپنے اوپر مرکوز کراتی ہے۔اور میں اس کی بے انتہا شکر گزار ہوتی ہوں۔یہ بہت خوبصورت شئے ہے۔اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہتا کہ آپ ایک حیران کن کہانی لکھ رہے ہو۔ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو۔بلکہ اس کا صرف اتنا سا مطلب ہے کہ کوئی چیز ایسی ہوسکتی ہے جو آپ کو مکمل طور پہ اپنے ساتھ مشغول رکھے۔یہ ایک عطیہ ہے۔دنیا میں فکشن لکھنے سے زیادہ مجھے خوشی دینے والی ، مجھے مشغول رکھنے والی اور مجھے پرباش کرنے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔بلکہ زیادہ وقت مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مرا کا توجہ دنیا ہے اور کتاب کو خود اپنے آپ کو لکھنے دینا ہے۔
اور نان فکشن کے بارے میں کیا ؟
رائے : مرا نان فکشن کام ہنگامی ضرورت اور کسی حد تک غصّے کی حالت میں لکھا جاتا ہے۔جب بھی میں سیاسی مضمون لکھتی ہوں میں کہتی ہوں ، ٹھیک ہے اب میں اور نہیں لکھوں گی
اور تب آپ ایک اور لکھ ڈالتی ہو
رائے : ہان نا! تقریبا ہر بار اس قسم کا کام کرتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ یہ کسی اور آدمی کو یہ کام کرنا چاہیے۔لیکن میں اس وقت لکھتی ہوں جب مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے آپ کو روک نہیں پاؤں گی۔تو پھر یہ بھاگم دوڑ میں سامنے آجاتا ہے۔جب میں لکھ رہی ہوتی ہوں تو ایک دن میں ، میں 20 گھنٹے بھرپور توجہ سے کام کرسکتی ہوں۔
جب آپ نے گھر چھوڑا تو آپ کی عمر 17 سال تھی –کیا آپ کا اپنی والدہ سے کوئی جھگڑا تھا ؟
گھر رہنا ناممکن تھا۔اس وقت یہ ٹراما جیسے تھا ، لیکن بہت سے پہلوؤں کے اعتبار سے میں خوش قسمت بھی تھی میں نے گھر اس وقت چھوڑ دیا جب میں نے ایسا چاہا۔مری والدہ کا مرے بناؤ اور بگاڑ دونوں میں کردار تھا۔ان کی موجودگی ميں ، میں چبایا ہوا جگر تھی۔انھوں نے ایک حیران کن اسکول کی بنیاد رکھی۔جس نے ان کے شاگردوں کی زندگیاں بدل دیں۔بلکہ ان کی نسلیں بدل گئیں۔وہ جو ہیں اس پہ ميں ان کی تعریف کرتی ہوں۔لیکن مجھے محتاط ہونا پڑھتا ہے کہ کہیں میں اسی کے ساتھ نہ جل جاؤں۔ہم دو ایٹمی طاقتوں کی طرح ہیں۔ہمیں ایک علاقے میں زیادہ دیر ایک دوسرے کے قریب نہیں رہنا چاہیے۔
کیا آپ اب ان کے قریب ہیں ؟
رائے ؛ ہم نے ایک معاہدہ امن سائن کیا ہے ، اور یہ ابھی تک برقرار ہے۔اگر جنگ پھوٹ پڑتی ہے۔تو مجھے صاف صاف کہنے دیں –مری خواہش ہے کہ وہ جیت جائیں۔میں کبھی ان کو ہارتا نہیں دیکھنا چاہتی ۔
یہ تو ایک غیر معمولی تعلق لگتا ہے ؟
رائے: ہاں ایسا ہے مگر یہ کسی بھی طرح سے پیارا نہیں ہے۔مجھے بس یہ کہنا ہے کہ جو میں ہوں اس کے بارے میں وہ منفی اور مثبت دونوں طرح سے ہر ممکنہ طریقے سے بہت زیادہ سنٹرل ہیں۔وہ بہت غیر معمولی شخصیت ہیں۔لیکن ان میں ایک بھی وہ مادرانہ خاصیت نہیں ہے جو عورتوں میں ہونا ضروری خیال کی جاتی ہیں۔اور میں نہیں جانتی کہ مجھے ان کی تعریف ان چیزوں کے نہ ہونے کے باوجود کرنی چاہیے –اور بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ آپ کیوں تھوڑے سے کم جادوئی نہیں ہوسکتے ؟ بلکہ نہیں نہیں واقعی۔
کون سی صفات ؟
رائے: ایک دن انہوں نے مجھے کال کی اور کہا، ‘میں فلاں جگہ گئی تھی۔اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ ارون دھتی رائے کی والدہ ہیں ؟ تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے کسی نے مجھے زناٹے دار تھپڑ مار دیا ہو۔” ایک طرف تو مجھے ہنسی آرہی تھی۔جب انہوں یہ کہا اور دوسری طرف مرے اندر سے یہ کہا جارہا تھا ، چھوڑو بھی ، اس ميں برائی کیا ہے ؟
آہ ، بیچاری مائیں
وہ اپنی ساری زندگی میں ناآسودہ ہی رہییں۔تمہیں پتہ ہے کہ ان کو سانس کی بیماری ہے۔اور جسے دمہ ہوتا ہے اسے ان کی سانسیں کنٹرول کرتی ہیں۔تو مجھے بھی ۔۔۔۔ ان کی سانس کنٹرول کرت ہے۔میں اس حوف کے ساتھ پلی پڑھی کہ مری ماں کسی دن مرے اوپر ہی مرجائے گی۔ان کی ہر سانس کی آمد و رفت کو ميں نے دہشت اور سکون کے سانس کے ساتھ دیکھا۔مین نے بہت سا وقت ان کے ساتھ ہسپتال مین گزارا۔چند ماہ پہلے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اسے وینٹی لیٹر پہ ڈالنے والے ہيں۔یہ بہت برا وقت تھا۔ اور پھر وہ اچانک لوٹ آئیں –اور اب وہ پھر ” شو ” چلارہی ہیں۔ان کی سلطنت پھر ان کے ہاتھ میں ہے۔تو اصل میں وہ امریکی آرٹسٹ ” ہڈونی ” ہیں –ايک ” ایسکیپ آرٹسٹ ” –مری ماں کو ضرورت ہے اس پہ ایک کتاب لکھی جائے—میں لکھوں۔یہ اور کوئی لکھ بھی نہیں سکتا۔
میں اس کو پڑھوں گی۔دوسری کونسی عورت ہے جس نے آپ کی زندگی کی صورت گری کی ؟
رائے: جب مری ماں نے مرے ابّا کو چھوڑ دیا۔تو وہ آسام سے اوٹے چلی گئی۔اس کے پاس ایک دھیلا نہیں تھا اور وہ بہت بیمار تھی۔وہ بس بستر پہ پڑی رہتی تھی –اس میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی۔میں اور مرا بھائی تین یا چار سال کے تھے۔وہ ہمیں ٹوکری اور پیسوں کے ساتھ قصبے میں بھیجا کرتی تھی۔لوگ اس میں سبزیاں اور دیگر چیزیں ڈال دیتی تھیں۔پھر تب یہ خاتون جو کروشومال کہلاتی تھی ہمارے گھر آگئی۔اور ہماری دیکھ بھال سنبھال لی۔ اور پھر چر سال تک وہ ہماری ماں تھی۔میں حال ہی میں اس کو دیکھنے گئی تھی۔اور ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔اور خوب شور مچایا۔اس نے مرے لئے وہ سب کیا جو مائیں عمومی طور پہ کرتی ہیں۔میں اس کو پیار کرتی تھی۔وہ چند دن پہلے فوت ہوگئی۔وہ 96 سال کی تھیں۔میں نے جب ان کو دیکھا تو بہت خوش تھی۔
کیا آپ اور آپ کے بھائی ایک دوسرے کے قریب تھے؟
رائے: بہت ویادہ۔وہ کوچین(کیرالہ ) میں رہتا ہے۔وہ سی فوڈ انڈسٹری میں ہے۔وہ جھینگے کا بروکر ہے۔لیکن میں چھینگے نہیں کھاسکتی۔میں الرجک ہوں۔
آپ بالکل اپنے آپ تک محدود رہنے والی زندگی گزار رہی ہیں ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ تو کیا آپ کو تنہائی کا احساس نہیں ہوتا؟
رائے: میں ایک انتہائی شاندار اور عجب لوگوں کی کمیونٹی کا حصّہ ہوں جو تمام تنہا زندگی گزارتے ہیں۔اسے ” بیگانگی یا الگ ہوجانے ” کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔مری گہری اور بھردینے والی دوستیاں ہیں۔ہم زمین کے آخری کنارے تک ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے جاتے ہیں۔ تو ہاں نا ! میں اکیلی رہتی ہوں۔لیکن مری زندگی محبت سے بھری ہوئی ہے۔مرا تعلق پردیپ جو مرا سابقہ شوہر ہے ، مری لڑکیاں متھوا اور پیا جنھوں نے مجھے انتہائی کم عمری میں کھودیا تھا بہت ہی شاندار ہے۔میں تنہا رہتی ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ مری کج روئی / انحرافی راہ کسی دوسرے پہ بھی مسلط ہو۔اور میں جو لکھتی ہوں اس کے انتہائی سریس نتائج و عواقب دوسروں کو بھگتنا پڑیں۔اگر ميں تنہا نہ رہنا چاہتی تو میں تنہا نہ رہتی۔اس کی کوئی کمی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کس چیز کی کمی نہیں ہے ؟ فقرہ مکمل کریں نا
رائے : اوہ ، ہا ہا ہا
Source:
http://www.qalamkar.pk/deviant-life-arundhati-roy-part-ii/
جب کوئی لڑکی کہے – رائے
میں بھڑک جاتی ہوں جب کوئی لڑکی کہے کہ وہ فیمنسٹ نہیں ہے-رائے
انٹرویو : ایشورائے
ترجمہ و تلخیص : عامر حسینی
ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پاور کے ساتھ چلتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو پاور کے مخالف سمت فطری طور پہ چلتے ہیں-اور میں سمجھتی ہوں کہ یہی لڑائی ہے جس سے دنیا میں توازن آتا ہے-یہ وہ صف بندی ہے جس کے پیچھے میں کھڑی ہوں-آج جن آزادیوں سے ہم مستفید ہورہے ہیں ان کو لینے کے لئے کئی لوگ تھے جنھوں نے یادگار جدوجہد کی –ہم کیسے ان گنجائشوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں ؟ اور ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک قدرتی فنومنا –نیچر کے طور پہ یہ آزادیاں ہمیں ملی ہیں؟ نہیں! وہ ہم نے ایک ،ایک کرکے چھینی ہیں-میں اس وقت سخت ناراض ہوجاتی ہوں جب کوئی ” سرد ” سی نوجوان عورت کہتی ہے ” مین فیمنسٹ نہیں ہوں
آپ لڑتی کیوں ہیں ؟
رائے: دیکھیں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پاور کے ساتھ چلتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو پاور کے مخالف سمت فطری طور پہ جلتے ہیں-اور میں سمجھتی ہوں کہ یہی لڑائی ہے جس سے دنیا میں توازن آتا ہے-یہ وہ صف بندی ہے جس کے پیچھے میں کھڑی ہوں-آج جن آزادیوں سے ہم مستفید ہورہے ہیں ان کو لینے کے لئے کئی لوگ تھے جنھوں نے یادگار جدوجہد کی –ہم کیسے ان گنجائشوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں ؟ اور ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک قدرتی فنومنا –نیچر کے طور پہ یہ آزادیاں ہمیں ملی ہیں؟ نہیں! وہ ہم نے ایک ،ایک کرکے چھینی ہیں-میں اس وقت سخت ناراض ہوجاتی ہوں جب کوئی ” سرد ” سی نوجوان عورت کہتی ہے ” مین فیمنسٹ نہیں ہوں
اب اسے لیکر مجھ پہ نہ شروع ہوجانا
رائے:مرا مطلب ہے کہ کیا وہ ان لڑائیوں کو جانتی ہیں جو لڑی گئیں؟آج جو بھی آزادی ہمارے پاس ہے وہ فیمنسٹوں کی وجہ سے ہے-بہت سی عورتوں نے لڑائی کی اور آج جہاں ہم ہیں اس کی انہوں نے قیمت ادا کی –یہ سب کچھ ہمیں اس لئے نہین ملا کہ ہمارے اندر جو وراثتی ٹیلنٹ یا شاندار پن تھا اس کا یہ گفٹ ہيں-یہان تک کہ اج ہمیں جو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے ، اس کے لیے کون لڑا تھا ؟ حق خودارادیت والی عورتین- ایک بھی آزادی ہمین بڑی لڑائی کے بغیر حاصل نہیں ہوئی –اگر آپ فیمنسٹ نہیں ہیں تو پھر واپس پردے میں جائیں ، کچن سنبھالیں اور ہدایات لینا شروع کریں-آپ ایسا نہیں چاہتی ہیں نا تو پھر فیمنسٹوں کا شکریہ ادا کریں ؟
اور فریڈم تبدیل کرسکتی ہے ؟
رائے: ہندوستان میں عورتوں کی ابھرتی آزادی کو دیکھنا حیران کن خوشی کی بات ہے-لیکن اس انقلاب کے متوازی جو قدامت پرستی کے سیاہ مظاہر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں وہ پریشان کن ہیں-افغانستان میں عورتوں کو دھیان میں رکھیں-جب ہم بلوغت میں قدم رکھ رہے تھے افغانستان میں ڈاکٹر تھے ، سرجن تھے-وہاں پارٹیاں ہوتی تھیں اور وہ شاندار لباس پہنتے تھے-اور اب؟ ہمیں خطرات بارے الرٹ رہنا ہوگا-ہم صدیوں پیچھے کسی وقت بھی پھینکے جاسکتے ہيں-
آپ ” تنقید ” پہ کیسے ردعمل دیتی ہيں ؟
رائے: میں بہت فطری سی لکھاری ہوں اور جب مری تحریر پہ کوئی تنقید آتی ہے تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے لوگ گال بلیڈر کی مضحکہ خیز شکل یا کوئی اور چیز بارے بتارہے ہیں
ہاہا –اور آپ کا نان فکشن
رائے:مرے نان فکشن پہ خبط پن یا سودائی پن والی جہالت کے ساتھ یا تیزابی نمک کے ساتھ جو نیٹ کے گرد پھیل جات ہے تنقید کرنا آسان نہیں ہے-مگر میں تو خود آگے بڑھ کر اس کے سامنے آپنے آپ کو پیش کرتی ہوں اور اس کی پیاسی ہوں-لوگ کہتے ہين کہ ارون دھتی رائے ایک متنازعہ لکھاری ہے-لیکن یہ دلائل سے نمٹنے کا ٹھیک طریقہ نہیں ہے-بلکہ ٹھیک بیان یہ ہوگا کہ ” ارون دھتی رائے متنازعہ ایشوز لکھتی ہے-” کنٹرورسی –تنازعہ موجود ہوتا ہے-کیا ڈیمز اچھے ہيں ؟ کیا ہمیں ہر شئے کی نجکاری کردینی چاہئیے-کیا ہميں سارے پہاڑ کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کردیں ؟میں ان چیزوں کے بارے میں لکھتی ہوں-میں ان کو وزن دیتی ہوں –میں ایک موقف بناتی ہوں –لیکن میں کنٹرورسی پیدا نہیں کررہی ہوتی
آپ کو کبھی اپنے کام پہ کی گئی تنقید ميں میرٹ بھی نظر آیا ؟
میں نہ تو یہ کہہ سکتی ہوں اور نہ کہوں گی کہ میں تنقید سے بالاتر ہوں-یہ وہ چیزیں ہیں جن پہ بحث ہونی چاہئیے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ درست ہی ہوں یا غلط ہی ہوں-شاید مرے کام کا طریقہ جو بعض طریقوں سے نکلا ہے تنقید پہ مرے ردعمل کا سچا پیمانہ ہو-لیکن بڑی چیزوں پہ مرے خیالات کو تبدیل کرنے پہ یہ مجھے قائل کرنے سے قاصر ہے-
آپ جو کہتی ہیں اس بارے آپ بہت محتاط ہوتی ہیں کیا ؟
رائے: اب ہم نوآبادی نہیں رہے-یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اب ہم آزاد ملک ہیں-لیکن کیا ہم سے کوئی ایک بتاسکتا ہے کہ 1936ء ميں ڈاکٹر امبیدکر نے کیا کہا تھا-کیا ہم سے کوئی وہی کہہ سکتا ہے جو ایک مرتبہ اس نے کہا تھا ؟اچھوت /دلت کے لئے ہندؤازم ایک خوفناک بدلتا ہوا چیمبر ہے؟ کیا ہوا ہوتا اگر ہم نے یہ کہا ہوتا؟مرا یہ خیال ہے کہ اب ہم ایک زیادہ خطرناک جگہ پہ ہيں-مرا خیال ہے کہ محتاط ہونا اور جو آپ کہتے ہيں اس کو بہت سوچ سمجھ کے کہنا بہت اہم ہے-لیکن اس سے بھی اہم پيچھے نہ ہٹنا ہے-ہمیں واقعی اپنے دماغ استعمال کرتے ہوئے بات کرنی چاہئیے-یہی وقت ہے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی
جیل میں ایک دن کیسا ہوتا ہے ؟
رائے: یادگار –اپنی ساری بہادری کے باوجود جب مرے پیچھے آہنی گیٹ بند کردئے گئےتو مرے لئے یہ خوفزدہ ہونے والی بات تھی-میں سزا یافتہ ہوکے جیل گئی تھی نہ کہ کامریڈز کے ايک گروپ کے ساتھ کسی جیل بھرو آندولن(تحریک) کے نتیجے میں جیل گئی تھی-آزادی اور قید دو الگ الگ دنیائیں ہیں –لیکن ایک دن جیل میں گزارنا کوئی بہت بڑی بات نہین ہے-جیل میں ہزاروں لوگ ناکردہ جرائم کی پاداش میں بند ہیں-غریب لوگ، دلت ، مسلمان اور خاص طور پہ آدی واسی(قبائلی ) –ہم ایسا ملک ہیں جوکہ غریبوں اور گرے ہوئے ، مجبور و محکوم افتادگان خاک سے حالت جنگ میں ہے
کیا آپ کو بیف پسند ہے ؟ میں تو خود گوشت کے قتلے کو بہت پسند کرتی ہوں
رائے:میں بیف اور پورک کھاتی ہوں- یہ جو فوڈ فاشزم ہے ہمارے ملک میں اس کو ضرور روکنا چاہئیے-
آپ ہر روز جم بھی جاتی ہیں
رائے: جی ہاں ، ہر روز
ہر روز ؟
رائے : ہر روز
یہ تو مجھے بدیشی خیال لگتا ہے ؟
رائے: مرے اندر ایک اڈکٹ کے جینیز ہیں-تمہیں پتہ ہے کہ مرے والد عادی شرابی تھے-مرا دل کرتا ہے کہ میں وہسکی کی ایک بوتل لوں اور ان کی قبر پہ رکھا کروں-بدقسمتی سے یہ ان کے اڈکٹ جینیز ہیں جو مین اپنے اندر رکھتی ہوں-
کیا آپ ہمیشہ سے اسی طرح سے ورزش بارے کانشیس رہی ہیں؟
رائے : اگرچہ مرا بچپن کوئی المیاتی نہیں تھا لیکن یہ بہت زیادہ ڈسٹرب تھا-ميں نے دوڑ کے زریعے اس پہ قابو پایا-مين دوڑی ، پھر دوڑی اور زیادہ دوڑی –اپنے گھر کے گرد ، اسکول کے گرد اور گراؤنڈ مین —– حال ہی میں ، مین اپنے پرانے پی ٹی استاد سے ملی-مسٹر سلیواپاکیم-وہ اسکول میں صرف لڑکوں کو ٹریننک دیتے تھے-لیکن مين ان کے اردگرد منڈلاتی رہتی-تو انہوں نے کچھ توجہ مجھے بھی دی –میں کوئی توپ قسم کی اتھلیٹ نہين تھی-میں جم مشکلات اٹھانے نہین جاتی ہے-میں ان لوگوں کے بارے مين مشکوک ہوں جو رضاکارانہ طور پہ مشقت اٹھاتے ہيں-میں تو بس وہاں مسرت اٹھانے جاتی ہوں
آپ کی باتيں کچھ سمجھ نہیں آ رہیں
رائے: دوستوں اور ٹرینرز کا ہمارا ایک پرانا گینگ ہے-وہاں بس پیار ہی پیار ہے-یہ مرے دن کا سب سے قابل قدر لمحہ ہوتا ہے-اور مجھے معقول بناتا ہے-یہ اہل محبت ، دوستوں ، ہنسی اور پسینے کا مقام ہے
Source:
http://www.qalamkar.pk/when-a-girl-says/
Mrs Raey No dought is one of best authors of India. She writes boldly and speaks boldly too. Thanks for Urdu translation of his Interview Admin and Hussaini…