تکفیری دہشت گردی ، شیعہ سنی تنازعہ نہیں ہے – حیدر جاوید سید
posted by Guest Post | July 6, 2016 | In Original Articles, Urdu Articles
تاریخ و سیاسیات کے طالب علم کو صحافت کے کوچہ میں مشقت کرتے ہوئے چار دہائیاں بیت گئیں۔ میرے لئے ہر قدم پر یہ امر ہمیشہ باعثِ حیرانی ہی رہا کہ لوگ اڑتی باتوں پر کیسے ایمان لے آتے ہیں اور تاریخ کے کج کو سمجھے بغیر اسے ساتویں کلمے کی حیثیت کیوں دے دیتے ہیں۔
دو باتیں پہلے عرض کیے دیتا ہوں پھر آگے بھڑتے ہیں۔ مثلاََ ہماے یہاں غلط العام بات یہ ہے کہ 1947ء کے بٹوارے کے وقت پھوٹے فسادات کے ذمہ دار سکھ اور ہندو ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ہم اس حقیقت سے منہ موڑ کر زندہ رہنا چاہتے ہیں کہ فسادات کی ابتدأ روالپنڈی اور لاہور کے مسلمانوں کی طرف سے سکھوں اور ہندوؤں پر حملوں سے ہوئی۔ مقصد ہندوؤں اور سکھوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا تھا۔ ہوا بھی تقریباََ ایسے ہی۔ اور جواباََ ہندوستان میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ دوسری بات سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہے۔ ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کے ابتدائی 25 برسوں میں مہاجر، پنجابی، پشتون بالادستوں کی ٹرائیکاکے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے سقوطِ مشرقی پاکستان کا ملبہ بھارت پر ڈال دیا جاتا ہے یا بیزاری سے یہ کہہ کر آگے بڑھ لیا جاتا ہے کہ ’’وہ تو جی بنگالی تھے ہی غدار‘‘۔
ارے بھائی کیسے غدار ہوئے بنگالی؟ وہ تو اکثریت میں تھے ان کی اکثریت کو ون یونٹ کا مساوی اصول کھا گیا۔ ان کا استحصال ہوا۔ قدم قدم پر مذاق اڑایا گیا۔ خود ساختہ فیلڈمارشل ایوب خان بنگالیوں کے لئے جو مکروہ الفاظ استعمال کرتے تھے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو مشرقی پاکستان میں سازگار فضا کس نے فراہم کی؟ اس ٹرائیکا نے جو پہلے دن سے اقتدار پر قابض تھی۔ یہ قریب کے دو عشروں کی تاریخ ہے۔ اس میں جھوٹ کی بھرمار ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ دیگر معاملات کے حوالے سے پورا سچ سامنے کیوں نہ آیا اور یہ بھی دستیاب مسلم تاریخ جسے ’’تاریخِ اسلام‘‘ کہا جاتا ہے کیسے لکھی گئی ہو گی۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ پاکستان میں تکفیریت کے آغاز سے اب تک اسے شیعہ سنی منافرت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے شیعہ سنی اختلافات کی کوکھ سے جنم نہیں لیا۔ شیعہ ہوں یا صوفی سنی (صوفی سنی برصغیر میں بریلوی سنی کہلاتے ہیں) دونوں حقیقت میں مین سٹریم اسلام کا قدیم تعارف ہیں۔ ماضی میں یہ مکتبِ خلافت اور مکتبِ امامت کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکتبِ خلافت اور مکتبِ امامت دونوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل کا سامنا کرنا پڑا۔پھر بھی مکتبِ خلافت کا نمائندہ اور اکثریتی طبقہ آج بھی صوفی سنی اور مکتبِ امامت کا اکثریتی طبقہ شیعہ اثنأ عشریہ کہلاتا ہے۔ اہلحدیث کہلانے والے ہوں یا دیوبندی ہر دو مکتبِ خلافت سے ہی الگ ہوئے۔
مروجہ معنوں میں شافعی، مالکی، حنبلی کہلانے والے بھی مکتبِ خلافت کی ذیلی شاخیں ہی ہیں۔ قدیم مسلم تاریخ ہمیں یہی سمجھاتی ہے کہ مکتبِ خلافت کی جس ذیلی شاخ کو اہلِ اقتدار کی سرپرستی حاصل ہوئی وہ اپنے اپنے عہد میں خوب پھلی پھولی۔ دوسری طرف مکتبِ امامت سے الگ ہونے والے اسماعیلیوں کو مصر کی فاطمی اسلامی خلافت کی سرپرستی حاصل رہی۔ مگر مقابلتاََ اثناء عشری یا بارہ امامی جسے جعفریہ بھی کہا جاتا ہے تقریباََ ہمیشہ ایک طرح سے سرکار کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے والے مکاتب کے مقابلے میں اپوزیشن ہی رہے۔
سادہ سے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ مکتب خلافت کے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مسالک اور مکتبۂ امامت کا اسماعیلی مسلک اپنے اپنے وقت کے حکمرانوں کی سرپرستی میں پھیلا ، نافذ ہوا ۔ اور جعفریوں کو ہمیشہ تبلیغ کارستہ ہی اپنانا پڑا تو یہ غلط نہیں ہو گا(خیال رہے ہم ماضی بعید کی بات کر رہے ہیں)۔ اموی حکمران یوں تو بظاہر مکتبِ خلافت کے حامی تھے مگر ان کا سارا دورِ اقتدار مکتبِ امامت سے تصادم کی فضا کو برقرار رکھنے اور اسلام کے تصورِ حکومت یعنی شورائیت سے انکار پر دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح عباسی خلافت کا سارا دور امامیوں کے مقابلہ میں مختلف الخیال مسالک کی سرپرستی کا دور ہے۔ جس خلیفہ کو جو بھی پسند آیا وہ سرکاری مسلک بنا لیا گیا۔ لیکن باقاعدہ سے حنفی مسلک کی تخلیق و ترویج اور پھر اسے سرکاری حیثیت بہرطور عباسی دور میں ہی ملی۔
اور اس کا سہرا امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں امام محمدؒ اور امام یوسفؒ کے سر ہے۔ عثمانی خلافت تو باقاعدہ حنفی العقیدہ خلافت تھی۔ دوسری طرف مصر کی فاطمی خلافت کے ساتھ ہی اسماعیلی افکار کی سرکاری سرپرستی میں ترویج بند ہوگئی۔ پھر یہ بھی ہوا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فاطمی خلافت کے کھنڈرات پر جب اپنی بادشاہت قائم کی تو اس نے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا کہ آج سے ان کی مملکت کی حدود میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی عقائد ہی عدالتی فیصلوں کی بنیاد ہوں گے۔ مکتبِ امامیہ کی حیثیت سے سرکاری طور پر انکار کی یہ ایک اور مثال ہے۔
برصغیر میں مسلم حکمرانی کے آغاز و اختتام کی درمیانی صدیوں میں عمومی رویہ یہ رہا کہ مسلمان اپناعقیدہ نہ چھوڑیں۔ مگر دیگر مذاہب بالخصوص ہندو دھرم ،یہی یہاں ہندوستان کا اکثریتی مذہب تھا، کے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ مغل بادشاہوں کے مختلف ادوار میں یہ فضا اس لئے بھی برقرار رہ پائی کہ خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت بختیار کاکی ،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، بابا فرید شکر گنج، سید علی ہجویری داتا گنج بخش اور دیگر صوفیائے کرام انسان دوستی، کردار سازی اور دعوت پر یقین رکھتے تھے۔ صوفیا کا ایک دوسرا طبقہ جس کی نمائندگی شاہ لطیف بھٹائیؒ ، سچل سرمستؒ ، رحمٰن بابا ؒ ، بلھے شاہؒ اور شاہ حسین کرتے ہیں سماج کے سارے طبقات اور مذاہب کے درمیان اخوت کے رشتے کے علمبردار تھے اور ان کی تعلیمات ہمیں اس امر سے روشناس کراتی ہیں کہ یہ بزرگ انسانی رشتوں کے احترام اور سماجی مساوات کے علمبردار تھے۔
مغل حکمرانوں کے دور کا بھائی چارہ، وہ مسلم بھائی چارہ ہو یا سماجی دونوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں دم توڑا۔اورنگ زیب عالمگیر شیخ احمد سرہندی ؒ کے افکار سے متاثر تھا۔ شیخ احمد سرہندیؒ کو ہم متحدہ ہندوستان کے تناظر میں مصر سے تعلق رکھنے والے امام ابنِ تیمیہ ؒ کا ہندوستان ایڈیشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ البتہ شیعہ مسلمانوں سے ان شیخ احمد سرہندی کی بیزاری اور نفرت غالباََ ان کے اپنے خاندانی پسِ منظر سے جڑی ہوئی تھی۔ بعد کے ادوار میں ہمیں شیخ عبدالقادر محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید اور دیگر اکابرین پر شیخ احمد سرہندی کی چھاپ کے اثرات نمایاں دیکھائی دیتے ہیں۔
برٹش ہندوستان میں قائم ہونے والے دارالعلوم بریلی کو صوفی سنی افکار کا مرکز اور دارالعلوم دیوبند کو شیخ احمد سرہندی و امام ابنِ تیمیہ کی فکر کا مرکز کہہ سکتے ہیں۔ بریلویوں نے سماجی بھائی چارے اور انسانیت کے تقدم کے علمبردار صوفیائے کرام جنہیں کچھ لوگوں نے صوفیا کا ملامتی طبقہ بھی قرار دیا(بلھے شاہؒ اور شاہ حسینؒ اسی طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں) کو ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔دیوبندیوں نے اپنا الگ سے خانقاہی نظام بنایا۔
وہ سب کیا بھی جن کی بنیاد پر دوسروں پر تنقید کرتے اور اپنی الگ شناخت پر مصر تھے اور ہیں(بریلوی اور دیوبندی کہلانے والے دونوں ہی طبقے فقہی تقلید کے حوالے سے خود کو حنفی قرار دیتے ہیں۔بریلوی یا صوفی سنی تو سو فیصد حنفی فقہ پر عمل کرتے ہیں البتہ دیوبندی حضرات کے سیاسی و سماجی رویوں اور دیگر مسلم مکاتبِ فکر سے تعلقات کی فہم پر تین شخصیات کے افکار کا اثر غالب ہے۔ ابنِ تیمیہ ؒ ، شیخ احمد سرہندیؒ اور 1920ء میں وادی سرائے نجد (یہ علاقہ اب سعودی عرب کہلانے والے ملک کا حصہ ہے) اٹھنے والے محمد بن عبدالوہاب شامل ہیں۔ اگریہ کہا جائے کہ دارالعلوم دیوبند کے اکابرین کو سیاسی طور پر محمد بن عبدالواہاب کے قریب لانے میں مصری عالم محمد رشید رضا کا بہت کردار تھا تو یہ غلط نہ ہوگا(لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے) دارالعلوم دیوبند نے ابتدائی عرصہ میں اپنی شناخت سامراج دشمنی پر مبنی جدوجہد کو بتایا مگر1930ء کی دہائی میں دارالعلوم میں انتہا پسند تکفیری سوچ اور اعتدال پسندوں کے درمیان پہلا ٹکراؤ اس وقت ہوا جب دارالعلوم دیوبند نے اپنے ہم خیال علماء کرام کو جمع کر کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا۔
شیخ الحدیث حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری ؒ نے نہ صرف اس فتوے کو مسترد کر دیا بلکہ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہو کر سہارن پور کے قریب اپنا مدرسہ قائم کیا اور جوابی اقدام کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان کے علماء کا ایک اجلاس بلا کر دارالعلوم دیوبند کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف دیے گئے فتوے کے رد میں فتویٰ جاری کروایا۔ اس فتوے کو لکھنؤ اور حیدر آباد دکن کے اعتدال پسند علماء کی بھی تائید حاصل تھی۔
گو بعد ازاں دارالعلوم دیوبند کے اکابرین نے شیعہ مسلمانوں کے خلاف دیا گیا فتویٰ واپس لے کر شیخ المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری سے صلح کر لی اور وہ بھی واپس دیوبند چلے آئے۔ مگر دیوبند میں جو فکری تقسیم تکفیریت اور اعتدال پسندی کی بنیاد پر دراڑ آئی تھی وہ ختم نہ ہوئی۔1947ء میں متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد دارالعلوم دیوبند کے دونوں اذہان کے لوگ اپنے فکری سرمائے کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے۔ بعض صائب الرائے حضرات کا یہ بھی خیال ہے کہ دیوبند مکتبِ فکر کے علامہ شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ اور قائد اعظم کی حمائیت پر اسی سوچ کی بنیاد پر اپنی فکر کے مرکز سے الگ ہوئے کہ اگر قائداعظم اور مسلم لیگ پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نیا ملک صوفی سنیوں اور شیعوں کا ملک ہو گا۔
اس بات کی تصدیق تقسیم کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے دیوبندی فرقے کے مہاجرین کی سرپرستی، انہیں کلیم دلوانے، ملازمتوں کی سفارش اور جماعت المہاجرین قائم کرنے سے بھی ہوتی ہے۔ ان کے اس طرزِ عمل پر مولانا عبدالماجد درآبادی (بریلوی عالم) اور دیگر نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا عثمانی دیوبندیوں کی حمائیت اور سرپرستی کر کے قیام پاکستان کے مخالف دارالعلوم دیوبند اور جمیعت علمائے ہند کے حامیوں کو پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ دیوبندیوں میں اعتدال پسندی اور تکفیری رجحانات کو موجودہ دور میں آسانی سے سمجھنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت تکفیری دیوبندی حضرات کا سیاسی چہرہ مولانا سمیع الحق ہیں اور اعتدال پسند دیوبند کا مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمٰن کے دونوں کے والد یعنی مولانا عبدالحق اور مولانا مفتی محمود دونوں دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل ہیں۔ اور ہر دو حضرات ، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری ؒ کا شاگر د ہونے کے مدعی بھی۔
دارالعلوم اکوڑہ خٹک مولانا عبدالحق کا قائم کردہ ہے اور اب یہ مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ افغانستان و پاکستان کے طالبان کی قیادتوں میں اس مدرسہ کے سابق فاضلین ہمیشہ نمایاں رہے۔ پاکستانی تحریک طالبان کے شیخ الحدیث اور نائب امیر خالد حقانی کا تعلق بھی دارالعلوم اکوڑہ خٹک یعنی مدرسہ حقانیہ سے رہا۔
مولانا سمیع الحق نے سیاسی طور پر انجمن سپاہ صحابہ کی ہمیشہ سرپرستی کی اور مختلف مواقع پر بننے والے مذہبی اتحادیوں میں سپاہ صحابہ کو ساتھ رکھا۔ اصولی طور پر یہی ان کی سیاسی طاقت ہے۔ دیوبندیوں کا تکفیری گروہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہمیشہ شاکی و ناراض ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے سوات اور پھر کوئٹہ میں ان پر ہونے والے حملوں کا اعتراف بھی کیا۔ پاکستان میں تکفیریت (طالبانائزیشن) کے خلاف پہلا فتویٰ دیوبندی مکتبِ فکر کے عالم دین حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد حسن جان نے دیا اور اسی فتوے کی پاداش میں انہیں شہید کروایا تھا۔ مولانا حسن جان کو سیاسی شہرت اس وقت ملی جب وہ خان عبدالولی خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ مولانا حسن جان شہید فکری طور پر اعتدال پسند دیوبندیوں کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔ اپنے سیاسی نظریات اور اعتدال پسند اسلامی تصورات کے حوالے سے وہ مرحوم علامہ شاہ محمد امروٹیؒ کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ شاہ محمد امروٹی جے یو آئی (ف) کے امیر بھی رہے اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کے سربراہ بھی۔
متحدہ ہندوستان ہو یا پھر پاکستان ہردو جگہ تکفیری دیوبند ی مکتبِ فکر میں پروان چڑھ کر الگ ہوئے۔ 1984ء میں انجمنِ سپاہ صحابہ بنانے والے مولانا حق نواز جھنگوی بنیادی طور پر جمعیت علمائے اسلام کے ہی رکن تھے۔ تکفیریوں کو فکری غذا اور عددی قوت فراہم کرنے میں ہمیشہ دیوبندیوں کے انتہا پسندانہ خیالات والے مدارس پیش پیش رہے۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی وفات تک ، تکفیری ذہنیت دارالعلوم بنوریہ میں داخل نہ ہوپائی۔ مگر ان کی وفات اور بعد ازاں ان کے صاحبزادے سید محمد بنوری کے پراسرار قتل کے بعد مدرسہ بنوری ٹاؤن تکفیریت کا گڑھ بنا اور آج تک ہے۔
ہمارے یہاں جس فرقہ وارانہ تشدد کے سوتے 1985ء میں پھوٹے اسے تاریخ سے ناواقف بعض حضرات شیعہ سنی اختلافات کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ دیوبندی شیعہ تنازعہ ہے۔ بعض اسے سعودی ایران پراکسی وار بھی قرار دیتے ہیں۔ جبکہ تنازع اور پیدا شدہ مسائل کو وسیع تناظر اور تاریخ کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سچائی یہ ہے کہ تکفیری خیالات کے شدت پسند نکلے تو دیوبندی فکر کے مدارس سے۔ ان کا مرکز اب بھی یہی مدرسے ہیں مگر ان کا نشانہ صرف شیعہ نہیں تھے۔ بلکہ یہ انتہا پسند سوچ کا اعتدال پسند معاشرے پر حملہ تھا ۔
اس حملے کا نشانہ خود اعتدال پسند دیوبندی بھی بنے۔ مولانا حسن جان کے فتوے اور ان کے قتل کا پہلے ذکر کر چکا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن پر دو سے تین بار حملہ ہوا۔ جماعتِ اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد پر ایک بار قاتلانہ حملہ ہوا اور طالبان نے ذمہ داری قبول کی۔ مردان سے تعلق رکھنے والے اعتدال پسند مذہبی سکالر ڈاکٹر فاروق تکفیریت کی بھینٹ چڑھے۔ استاد العلمأ حضرت مفتی نعیمی کے صاحب زادے ڈاکٹر سرفراز نعیمی طالبان کے حملے میں شہید ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی جن کا تعلق عیسائی برادری سے تھا طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ امام بارگاہیں ہوں، صوفی سنی اور شیعہ مساجد ہوں یا مزارات ان پر حملوں میں طالبان، لشکرِ جھنگوی، جند اللہ اور تحریک طالبان جماعت الاحرار وغیرہ کے انتہا پسند ملوث تھے۔ پشاور چرچ حملے کی ذمہ داری جند اللہ نے قبول کی۔ یوں اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ دہشت گردی کے جن واقعات کو بعض لوگ سعودی و ایرانی پراکسی وار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اولاََ تو وہ حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ ثانیاََ ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہوتا کہ اگر یہ سعودی ایران پراکسی وار ہے تو پھر صوفی سنی، عیسائی، احمدی، اسماعیلی اور دوسرے اس کی بھینٹ کیوں چڑھ رہے ہیں؟
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کا سعودی و ایرانی پراکسی وار سے کوئی تعلق نہیں، یہ انتہا پسندانہ تکفیری نظریات کی مسلح جدوجہد کے علمبرداروں کا پاکستانی سماج پر حملہ ہے۔ اور اس کی زد میں ہر وہ شخص اور ادرارہ، طبقہ آیا جو تکفیریت کا مخالف ہے۔ ہم اسے بدقسمتی کہہ سکتے ہیں کہ تکفیری دہشت گردی کی سرپرستی فوج میں موجودضیاء الحق رجیم نے بڑھ چڑھ کر کی۔ انجمن سپاہ صحابہ کو تو جنرل ضیاء الحق نے اپنی ضرورتوں کے لئے باقاعدہ گود لے لیا تھا۔
اور اسے شیعہ مسلمانوں کے خلاف استعمال بھی کیا۔ تکفیری دہشت گردوں کو شیعہ سنی اختلافات کا رنگ دینے کا مقصدتکفیریوں کو ملک گیر سطح پر منظم ہونے کے لئے وقت دلوانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی سالی کے چکر میں قتل ہونے والے مولوی کا مقدمہ شیعوں کے خلاف درج ہوا۔ کبھی ایک ایس ایس پی پولیس کے قتل میں کردار ادا کرنے والے کے قتل کا الزام اہلِ تشیع پرلگایا گیا۔ مثلاََ جھنگ میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ سپاہ صحابہ کے امیر مولاناایثار القاسمی کے قتل کا پرچہ شیخ اقبال وغیرہ کے خلاف درج ہوا اور قتل کی وجہ مالِ غنیمت کی مساویانہ بنیادوں پر عدم تقسیم تھی مگر سپاہ صحابہ والے ملک بھر میں اس قتل کا ذمہ دار شیعوں کو ٹھہراتے پھرے۔مولانا جھنگوی کے بیٹے کو باپ کا حقِ امارت مانگنے پر کراچی میں قتل کر کے ڈرامہ رچایا گیا۔
مولانا اعظم طارق کے بیٹے معاویہ اعظم طارق کے ساتھ مولانا احمد لدھیانوی گروپ کا ’’حسنِ سلوک‘‘ سب پر عیاں ہے۔ پاکستان میں آبادی کے مختلف طبقات اور خصوصاََ دہشت گردی سے متاثرہ طبقات کو یہ سمجھنا ہو گا کہ تکفیری دہشت گردی پورے سماج کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ تکفیری سوچ فقط دیوبندیوں کے ایک حلقے تک محدود نہیں اس کے متاثرین میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی ہیں اور دیگر کچھ جماعتوں کے جیسے لشکر طیبہ سے الگ ہو کر القاعدہ اور طالبان کا حصہ بننے والے ہیں۔
تکفیری سوچ اور دہشت گردی کا کوئی طبقہ تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ 2014ء میں ڈاکٹر طاہر القادری نے تکفیری دہشت گردی اور ان کے سپاس سرپرستوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی کوشش کی تو طالبان و لشکر جھنگوی کی سیاسی اتحادی مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت نے دن دیہاڑے منہاج القرآن پر لشکر کشی کر کے 14 افراد کو جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے عام طبقات کو میدانِ عمل میں نکل کر اتحاد کی طاقت سے حکومت کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ تکفیری دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔عوام کے اتحاد کے بغیر تکفیری دہشت گردی اور اس کے سیاسی سرپرستوں کو شکست دینا ممکن نہیں۔ یہی تلخ حقیقت ہے۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/takfiri-terrorism-is-not-sunni-shiite-conflict/