تبدیلی کے دعوے داروں کی ناک تلے شیعہ نسل کشی جاری
انصاف گیا بھاڑ میں۔ آئین پاکستان نے اگر اہلسنت و الجماعت کو کالعدم قرار دے دیا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ #فاروقی اور #لدھیانوی اگر شیڈول 4 میں ہیں اور کئی قتل کے مقدموں میں مطلوب ہیں تو کونسی قیامت آگئی ہے ۔ عوام کو انصاف فراہم کرنے کی دعویدار PTI کی حکومت عوام کے جان و مال کی حفاظت اور انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام اور ان تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بلکہ بےوقوف بنی ہوئی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پی ٹی آئی کی حکومت بالخصوص پولیس نے عوام کو ان دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ جہاں عوام گاجر مولی کی طرح کاٹی جا رہی ہے وہاں حکومت فرقہ ورانہ تشدد پھیلانے میں مشہور مدرسے جامعہ #حقانیہ کو فنڈنگ میں مصروف ہے ۔3 ماہ میں 10 انتہائی اہم افراد قتل ہوئے تمام کی CCTV فوٹیج بھی منظر عام پر آ چکی ہے مگر قاتل آج تک گرفتا نہیں ہوئے۔ عوام کی حفاظت اور انصاف فراہم کرنے والے پولیس اور وکیل شہیدوں کی فیملی خود انصاف کے منتظر ہیں
صوبے کے دوسرے بڑے شہرڈیرہ اسماعیل خان میں 3 ماہ میں 10 انتہائی اہم افراد قتل ہوئے۔ جن میں ایک امام بارگاہ کا متولی، 1 سکول ٹیچر، 1 پروفیسر، 2 ایڈووکیٹ، 3 پولیس اہلکار جبکہ 2 عام شہری شامل ہیں۔
رضی الحسن شاہ، مختار ٹیچر، پروفیسر منیر اور دو کزن سیدعلی مرتجز زیدی (ایڈووکیٹ) و سیدعاطف علی زیدی (ایڈووکیٹ) اور آر آئی یو (RIU) کے پولیس کانسٹیبل طارق جمشید کے قتل کی سی سی ٹی وی بہت واضع اور صاف ہیں جن میں دشت گردوں کو پہچانا کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر پولیس کو قاتل نہیں نظر آتے۔22 مارچ کو توپانوالہ بازار میں دن دیہاڑے امام بارگاہ لعل شاہ کے متولی سید رضی الحسن شاہ کو قتل کیا گیا۔ 5 مئی پہلی وادات میں مریالی موڑ پر سکول ٹیچر مختار بلوچ جبکہ چند منٹ بعد کچھ فاصلے پر پروفیسر منیر کو بیدردی سے شہید کیا گیا۔جبکہ کچھ دیر بعد دو کزن سیدعلی مرتجز زیدی (ایڈووکیٹ) و سیدعاطف علی زیدی (ایڈووکیٹ) کو گرڈ روڈ پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔15 جون کو آر آئی یو (RIU) کے پولیس کانسٹیبل طارق جمشید کو دن دیہاڑے فوارہ چوک کے قریب نجی بنک کے سامنے نشانہ بنایا گیا۔ گولیوں کی زد میں آ کر بنک گارڈ محمد رمضان بھی شہید ہو گیا تھا۔ جبکہ مدنیہ کالونی میں ایف آر پی (پولیس) کے ملازم شاہ زیب کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
جبکہ ڈیال روڈ پر نماز سے واپسی پر اہلسنت و الجماعت کے دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے ڈی ایس پی (سی ٹی ڈی) نور محمد خان مروت کو شہید ہو کردیا گیا۔اس سے کچھ دیر بعد کمشنری بازار میں ایک دکان پر ان تکفیری جہنمی دہشت گردوں نے فائرنگ کردی جس سے نعیم نامی نوجوان جاں بحق ہو گیا۔
جی ہاں ۔ دفاع پاکستان کونسل کا فیض, نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی اور دہشتگردوں کو رہا کرنے کا نتیجہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ کالعدم گروہ ایک دفعہ پھر متحرک ہو گیا ہے ۔ اسکی بیگناہ مسلمانوں کا خون پینے کی پیاس پھر سے بھڑک اٹھی ہے اور ایک ہی دن میں تیسری واردات ہو رہی ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں خون کی ہولی کھلی جا رہی ہے مگر ممبران اسمبلی کئی عرصہ سے غائب ہیں – ایم این اے مولانا فضل الرحمن اور ایم پی اے سٹی سمیع اللہ خان علیزئی ملک سے باہر ہیں جبکہ ایم پی اے علی امین خان گنڈہ پور اسلام آباد اور پشاور کے چکروں پر ہیں۔ان ممبران اسمبلی نے نہ تو ڈیرہ والوں کا حال پوچھا نہ ہی کبھی دشت گردی کی مذمت کی اور نہ ہی کسی شہید کے گھر تعزیت کی۔
واقعی بھائی تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے ۔