دینی مسائل میں اختلاف اور ہمارا رویہ – امجد عباس
اسلامی مسالک میں شروع سے ہی عقائدی اور فقہی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ فقہی طور پر پانچ بڑے مکاتب شیعہ، حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں جبکہ عقائد کے لحاظ سے شیعہ، اشاعرہ، معتزلہ، ماتریدیہ، خوارج، اوراہلِ ظاہر بڑے مسالک ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام میں فقہی اور اعتقادی مسائل میں اختلاف پیدا ہوجایا کرتا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وضاحت سے اختلاف دور فرما دیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام کے دور میں بعض اعتقادی و فقہی مسائل میں شدید اختلاف ہوا۔
قضا و قدر، جبر و اختیار، رؤیتِ باری، خلافتِ نبوی وغیرہ جیسے اعتقادی مسائل میں صحابہ کرام کی آراء مختلف تھیں۔ فقہی مسائل تو بے شمار ایسے ہیں جن میں اختلاف ہوا جیسے نکاحِ متعہ، رضاعتِ کبیر، غسل کے بدلے تیمم، نوافل کی جماعت، جنازہ کی تکبیرات، میراث و زکات کے مسائل وغیرہ۔
ایسے اختلافات کے ہوتے ہوئے کسی صحابی نے دوسرے کو “کافر” نہیں کہا، اُس وقت “خطا و صواب” کی اصطلاحات مروج تھیں۔ وہ اتنا کہتے تھے ھذا خطا، والصواب ھکذا یہ درست نہیں ہے، درست بات یہ ہے۔
وہ ایسے اختلافات میں مد مقابل کو “مجتہدِ مخطی” جانتے تھے، جیسا کہ کتب میں صراحت سے مذکور ہے کہ قرآن و سنت سے مسائل کا حل تلاش کرنے والے (مجتہد) کی دو قسمیں ہیں:
– مجتہد مصیب: اگر مجتہد کسی مسئلے کی قرآن و سنت سے تحقیق کرے اور درست حل ڈھونڈ لے، اسے مجتہد مصیب کہا جاتا ہے، یہ دو اجر پائے گا۔
– مجتہد مخطی: اگر مجتہد کسی مسئلے کو قرآن و سنت سے تحقیق کرے لیکن حقیقت تک نہ پہنچ پائے اسے مخطی مجتہد کہا جاتا ہے، یہ تحقیق کا ایک اجر پائے گا۔
حضرت علی مرتضی کے دور میں مسلمانوں میں “خوارج” نامی گروہ پیدا ہوا، جو اپنے مدمقابل کو “کافر” جانتا تھا، اُنہوں نے اختلاف کی صورت میں “کفر و اسلام” کی اصطلاحیں متعارف کرائیں۔ ہم خیال “مسلمان” جبکہ مخالف کو “کافر”، “مرتد” قرار دیکر “واجب القتل” اور اس کے مال کو مباح جانا۔
عصرِ نبوی اور عصرِ صحابہ میں اعتقادی و فقہی مسائل میں دلیل کی بنا پر اختلاف کرنے والے کو “مخطی” اور اس کے اختلاف کو “اجتہادی خطا” تو کہا جاتا رہا لیکن “تکفیر” نہ کی گئی، اختلاف کی صورت میں یہ روش “خوارج” نے متعارف کرائی، جو رفتہ رفتہ سبھی مسلمانوں میں سرایت کر گئی۔
ہم کسی مسئلے میں خود کو 100 فیصد درست اور حق پر جان سکتے ہیں۔ لیکن اپنے مخالف کو یکسر باطل، کافر اور مرتد قرار دینے کا رویہ غیر شرعی ہے، یہ خوارج کا اسلوب ہے، ہاں ہم مد مقابل کے موقف کو “اجتہادی خطا” پر مشتمل قرار دے سکتے ہیں۔
مؤول یا قائل بالشبہ کی ہرگز تکفیر نہیں کی جا سکتی، چنانچہ امام ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی چاہت کرنے والے متأول پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، بلکہ اسے فاسق بھی نہیں کہنا چاہئے، بشرطیکہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ہو، یہ بات علماء کے ہاں عملی مسائل میں معروف ہے، جبکہ عقائد کے مسائل میں بہت سے علماء نے خطاکاروں کو بھی کافر کہہ دیا ہے، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں، نہ ہی تابعین کرام سے اور نہ ہی ائمہ کرام میں سے کسی سے ثابت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اصل میں اہل بدعت کی ہے۔
(منہاج السنۃ 5/239)
امام جعفر صادق علیہ السلام جب ایک مسئلے میں کسی سے اختلاف فرماتے تو کہتے:
یہ ہمارا موقف نہیں ہے، یہ لوگ وہ بات کہتے ہیں جس کے ہم قائل نہیں ہیں۔ ہماری رائے/ ہمارا نظریہ مختلف ہے۔
(اصولِ کافی، کتاب الایمان والکفر، جلد 2 صفحہ 42)۔
ہمیں اعتقادی و فقہی اختلافات کی وجہ سے دوسروں کو ضال، مضل، کافر و مرتد جیسے شنیع الفاظ سے یاد نہیں کرنا چاہیے، ہم اُن کے موقف کو “اجتہادی خطا” کہہ سکتے ہیں۔
قدماء نے شدید اعتقادی اختلافات کے باوجود خوارج و معتزلہ کو “کافر” نہیں جانا، خود شیعہ و سنی علماء نے ایک دوسرے کی تکفیر نہ کی، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور الکافی جیسی کتب میں شیعہ، سنی، خوارج و معتزلہ وغیرہ کی روایات موجود ہیں، جبکہ “کافر” سے حدیث لینا بالاتفاق جائز نہیں۔ دینی اُمور میں اختلاف کی بنا پر سماجی مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ) بھی کفارِ مکہ کی گھٹیا روش ہے، اسلام میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں، مخالف کو سب و شتم کا نشانہ بنانا بھی شرعی لحاظ سے ہرگز درست نہیں۔
(یہ تحریر ایک سال قبل لکھی تھی، جسے معمولی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ شیئر کیا ہے)