امجد صابری کو قتل کر کے دیوبندی خوارج نے کس کی نشانی مٹا دی ہے؟ – جمشید اقبال
2009 میں مجھے یونیورسل صوفی کونسل نے ہیگ میں سالانہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے آنے والے باکمال لوگ پاکستان سے آئے ہوئے ایک بے نام شخص کو پلکوں پہ بٹھالیں گے ۔ میرا ہنر صرف اتنا تھا کہ میں چند ایک صوفی کتب اور علمی مضامین کا اُردو ترجمہ کرچکا تھا اور بس ۔اس کے علاوہ پھر میرے دل میں ایک خوف یہ بھی تھا کہ میں ایک پاکستانی ہوں اور پاکستان کی دنیا بھر میں شہرت کچھ اچھی نہیں ہے۔
کانفرنس میں شریک ہونے والوں کو پہلی بار شام کے کھانے پر اکٹھے ہونا تھا ۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر ایچ جے وٹوین تھے جو دنیا میں عالمی مالیاتی ادارے کے سابق سربراہ اور ہالینڈ کے وزیرِ خزانہ بھی رہ چکے تھے ۔ اسی دوران وہ ہندوستانی صوفی اور موسیقار حضرت عنایت خانؒ کی صوفی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور اب خود کو صلح کل کا صوفیانہ پیغام عام کرنے کے لئے وقف کرچکے تھے۔ اس لئے ان کا حلقہ احباب مغرب کے وزیروں ، مشیروں ، سفیروں اور عالمی رہنماؤں پر مشتمل تھا ۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ یا تو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے یا پھر قد آور علمی شخصیات ۔ اس سب کا اندازہ مجھے مہمانوں کی فہرست دیکھ کر پہلے ہی ہوچکا تھا ۔
میں شام کے کھانے کے لئے ہوٹل کے کمرے سے نکلا تو میرے قدم بے نامی کے احساس سے بوجھل ہورہے تھے ۔ میری عین وہی کیفیت تھی جو آٹوگراف لکھتے وقت مجید امجد کی ہوگی ۔ نہ رفعتِ مقام ، نہ کوئی نام بس ایک بدنام ملک کا بے نام شہری ۔یہ احساس میرا ذہن شل کئے جارہا تھا اور میں انہی خیالات کے ساتھ ڈائننگ ہال میں داخل ہوا ۔ میزبان کی نظر مجھ پر پڑی ، وہ آگے بڑھے اور انہوں نے میرا تعارف پاکستان سے آئے ہوئے ایک دوست کے طور پر کروایا ۔
پاکستان کا نام سنتے ہی ہال میں موجود نمایاں لوگوں کی آنکھوں میں اچانک چمک سی آگئی ۔یہ کسی چمک تھی ، اس وقت تک میں کچھ نہیں جانتا تھا ۔پھر وہ سب میری طرف بڑھے اور مجھے خوش آمدید کہا۔ میں ان سب کی نگاہوں کا مرکزبن گیا ۔اس وقت تک مجھے خبر نہیں تھی کہ لوگ مجھے اتنی محبت سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔میں یہ سب دیکھ کر تھوڑا گھبرا سا گیا اور کھانا لے کر جس میز پر بیٹھا دو خواتین اور ایک حضرت بھی وہیں آکر بیٹھ گئے ۔میز کے گرد چار ہی کرسیاں لگی تھیں ، اس لئے باقی لوگ مجھ سے بات کرنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔
-ان میں سے ایک خاتون وہ تھیں جو کچھ دیر پہلے ہال میں وائلن بجا رہی تھیں ۔ دُوسری خاتون نے اپنا تعارف علم البشریات کی ماہر کے طور پر کروایا جبکہ وائلن بجانے والی خاتون نے بتایا کہ وہ فرانس میں موسیقی پڑھاتی ہیں ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا اور اپنے خاوند کا تعارف کچھ یوں کرایا ، ’’میں ایک موسیقار ہوں جبکہ یہ ملک کے اہم ترین قانون دان ہیں ۔ لیکن ہم دونوں صوفی ہیں ‘‘۔
دُوسری خاتون بھی کچھ کہنا چاہتی تھیں ۔ جب پہلی خاتون بات کررہی تھیں تو وہ خاموشی سے سنتی رہی لیکن باری ملنے پر وہ گویا ہوئی ۔
’’میرا صوفی نام زینب ہے ۔ ایک روز میں عابدہ پروین کو سننے جاپہنچی اور پھر سب بدل گیا ۔ میں ان کی فین نہیں تھی ۔ بس اپنے آپ کو بوجھل محسوس کررہی تھی اور چلی گئی ۔ میں انتہا پسند تھی ۔ میں مسلمانوں سے نفرت کرتی تھی ۔ یہاں کئی لوگ ہیں جو ان سے نفرت کرتے ہیں ۔ میں بھی کرتی تھی ۔ میں نے ان کو سنا ، میں وجد میں آئی ، روئی اور سب دُھل گیا (اس نے رونا شروع کردیا )۔ میں اب صابری برادران کو بھی سنتی ہوں ۔ انتشار ختم ہوجاتا ہے ۔ اُنہوں نے مجھے نفرت کے جہنم سے نکالا ہے‘‘۔
لیکن اس سے قبل کہ مزید بات کرتیں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ لاسکیں اور اٹھ کر چلی گئیں ۔ اس پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے قانون دان نے فرطِ جذبات میں میرے ہاتھ چوم لئے اور اپنے کہانی سنانے لگے ۔
’’کئی برس پہلے میرا کام یہ تھا کہ میں مختلف ممالک سے آنے والے ثقافتی طائفوں کا استقبال کرتا اور پہلی پرفارمنس میں سرکاری طور پر شرکت کرتا ۔ اسی دوران صابری برادران تشریف لائے ، مجھے ان کے بارے میں بتایا گیا تو پہلے پہل میں نے کوئی خاص دل چسپی نہ لی ۔ لیکن کیا تھا نوکری بھی کرنی تھی ۔ اس لئے سرکاری طور پر ان کی پہلی پرفارمنس پر اپنی اہلیہ (بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کے ساتھ ہال میں گیا ۔ مجھے یاد ہے صابری برادران نے عجیب چمک دار کپڑے پہن رکھے تھے اور مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
پھر انہوں نے قوالی شروع کی۔۔اے کہ تیرا جمال ہے ۔۔۔ چند لمحے بعد مجھے یوں لگا کہ جیسے میری رُوح ان کی ہمنوا ہو گئی ہو۔ اس میں کچھ ایسا تھا جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔ اور میں بے بس ہوگیا ۔
میری سرکاری تربیت آڑے آئی ۔ میں نے مزاحمت کی اور اِن (بیوی) کی طرف دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ طاقت جس سے میں بچنے کے لئے ان کا سہارا چاہتا تھا انہیں پہلے ہی کہیں دور لے جاچکی تھی ۔ میں نے ہال میں نگاہ دوڑائی تو ہر آنکھ میں آنسو تھے ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا یہ لوگ کیا گا رہے ہیں ۔ کیا کہہ رہے ہیں ۔ لیکن پہلی بار میرے وہ تار چھڑ رہے تھے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں چھوئے تھے ۔ پھر میں نے بھی رونا شروع کردیا ۔ آنکھ سے آنسو نکلے تو مجھے یوں لگا جیسے کسی نے اندر سے مجھے دھو ڈالا ہو ۔
قوالی ختم ہوئی تو مجھے میری کھوئی ہوئی معصومیت واپس مل چکی تھی ۔ اور پھر خبر بھی نہ رہی کہ میں کب سٹیج پر غلام فرید کے قدموں میں پڑا اُن سے پوچھ رہا تھا ۔ یہ سب کیا تھا ؟ انہوں نے بتایا ، ’’یہ تصوف ہے ‘‘! اور میں صوفی ہوگیا ۔
میرے پاس صابری برادران کی ہر قوالی موجود ہے ۔ انٹرنیٹ سے پہلے میں نے ایک ایک قوالی کے لئے ہزاروں میلوں کا سفر کیا ہے۔ اب جب بھی میں اپنے آپ کو اندر سے دھونا چاہتا ہوں ۔ بس ایک قوالی سن لیتا ہوں ۔
اور ہاں یہ مجھے پیار سے فرید کہتی ہیں ‘‘ ۔
یہ جوڑا مجھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ کارنامہ میں نے ہی سر انجام دیا ہو ۔
مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس بھی تھا لیکن اب مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر بھی فخر ہورہا تھا ۔ آخر میں صابری برادران ، نصرت فتح علی خان اور عابدہ پروین جیسے لوگوں کا ہم وطن تھا ۔یہ نسبت مجھے تقویت دے رہی تھی ۔ان لوگوں کی نسبت جن کی محفل میں بیٹھنے والے پھر وہ نہ رہے جو بیٹھے تھے ۔ دنیا میں ان تین لوگوں جیسے کتنے ہونگے جو بدل گئے ۔ میں معمولی سہی لیکن ان ہستیوں کا ہم وطن ہونا کوئی معمولی بات تھوڑی ہے ۔
اس نسبت نے مجھے نام بھی دیا اور وہ مقام بھی جس سے ہال میں داخل ہوتے وقت میرا دامن خالی تھا ۔پھر میں جتنے دن ان لوگوں کے درمیان رہا جیسے ہوا میں اڑتا رہا ، جیسے بادلوں پر چلتا رہا کیونکہ میں کسی عام دیس سے نہیں صابری کے دیس سے آیا تھا ۔
میں شاید اس سال بھی کانفرنس میں شرکت کرنے جاؤں لیکن مجھے ہواؤں میں اڑنا اور بادلوں پہ چلنا نصیب نہ ہو ۔مجھے یقین ہے فرید کی بھیگی آنکھیں مجھ سے یہ سوال ضرور پوچھیں گی۔
’’ تم کیسے دیس سے آئے ہو ؟ ان لوگوں کو کیوں مارتے ہو جن کی نسبت سے دنیا تمہیں پلکوں پہ بٹھاتی ہے ؟ ان لوگوں کو کیوں پالتے ہو جن کی وجہ سے دُنیا تم پر تھوکتی ہے؟ ‘‘۔
میری زُبان گنگ ہوجائے گی اور میں ان سوالوں کا جواب دینے کی بجائے اس کے گلے لگ کر امجد صابری کے قتل پر دو آنسو بہالوں گا۔
لیکن آپ ان سوالات پر غور کریں