درودؑ والوں پر بارود والوں کا حملہ – حیدر جاوید سید
سوال فقط دو ہیں۔ اولاََ یہ کہ کیا بانجھ ہوتے اس سماج کو محبتوں کا پرچار کرنے اور ہر قیمت پر سچ بولنے والوں کی ضرورت نہیں رہی تو سماجی ارتقأ و اقدار کی سربلندی کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ ثانیاََ یہ کہ کیا کراچی میں موجود رینجرز کو فقط کامیابیوں کی داد سمیٹنی ہے، ناکامیوں اور ابتریوں یا لاشیں گرنے کے حوالے سے اس کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؟طالب علم ان صاحبان سے ہر گز متفق نہیں جو کسی سانحہ (بالخصوص کراچی میں) کے رونما ہونے کے بعد سندھ حکومت پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
مگر رینجرز کے کردار پر سوال کو بھارت نوازی قرار دیتے ہیں۔ بھارت نوازی کیا ہے؟ مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی کی تخلیق کردہ پھبتی جس کا دونوں جماعتیں اور ان کے متاثرین1950ء کی دہائی سے بے دریغ استعمال فرما رہے ہیں۔ زہر میں گندھی اس پھبتی کا شکار کون نہیں ہوا۔ ہم حساب کرنے لگیں تو پاکستان کی کل آبادی سے تین سو فیصد زیادہ لوگ بھارت نواز ہیں۔ لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں۔ پھر کسی وقت اس پر بات کریں گے۔ فی الوقت تو یہ کہ خون میں ڈوبی بدھ22 کی سپہر نے کراچی میں محبتوں کے امین اور صوفی منش فنکار زندہ دل انسان امجد صابری کو ان زمین زادوں سے چھین لیا جن میں وہ محبتیں بانٹتا تھا۔
جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی اس خبر نے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تجزیوں کے گھوڑے دوڑائے جانے لگے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ شام ڈھلے نجی ٹی وی چینلوں پر منڈلیاں سجائے بیٹھنے والے سیاپافروشوں کے پاس گفتگو کے لئے کوئی دوسرا موضوع نہیں تھا۔ تجزیہ نگاروں میں کچھ یہ تاثر دے رہے تھے کہ ان کی عمر عالمی جاسوسی اداروں میں خاک چھانتے گزری ہے۔ چند ایک نے مرحوم ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کے معروف کرداروں ، عمران اور کرنل فریدی کی طرح خود کو پوز کیا۔ سفید بالوں والے خلیفہ ہارون الرشید ایک پروگرام میں دور کی کوڑی لائے اور فرمایا ’’را‘‘ اس کی ذمہ دار ہے۔ دوسرے سانس میں ایم کیو ایم کی طرف بھی انگلی اٹھائی۔ اور ایم کیو ایم کے مصطفیٰ عزیز آبادی سمیت نائن زیرو کے سارے مجاوروں کی انگلیاں مصطفیٰ کمال کی پارٹی کی طرف ہیں۔ جبکہ مصطفیٰ کمال والوں کی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف ہے۔
بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے تجزیہ نگار اور سیاسی مجاور اس بنیادی سوال کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ کامیابیوں کے دعوؤں بھرے جھنڈے گاڑھتی رینجرز بدامنی کے اس واقعہ میں حکومت و شہری انتظامیہ کے ساتھ برابر کی شریک کیوں نہیں؟ معاف کیجیئے گا خلیفہ جی کیا ’’را‘‘ سے تعلق رکھنے والے مبینہ قاتل نے دہلی سے روانگی کے وقت آپ کو فون پر روانگی اور ہدف کی اطلاع دی تھی یا وہ قاتل آنجناب کا مہمان تھا؟ چھ دہائیوں کا آزمودہ نسخہ ’’بدامنی کا ذمہ دار بھارت ہے ‘‘ ساتویں دہائی کے اختتامی برسوں میں نہیں چلنے والا۔ مرض کی درست تشخیص کی ہی نہیں صحیح علاج کی بھی ضرورت ہے۔
مگر اس سے قبل کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ آپریشن ضربِ عضب اور کراچی آپریشن دونوں سے مطلوبہ نتائج نہیں مل پائے۔ ڈوموں کی طرح تالیاں اور وظیفہ خوروں کی لن ترانیاں اپنی جگہ لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی طرح کراچی کا آپریشن بھی پسند و ناپسند کا شکار ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں گوش گزار کر دیتا ہوں۔ اولاََ یہ کہ آپریشن ضرب عضب نے شمالی و جنوبی وزیرستان کی نئی نسل پر جو منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور بیزاری کی جو لہر دن بدن طاقت ور ہوتی جا رہی ہے اس پر کوئی دھیان نہیں دے رہا۔
تالیوں اور ہاہا کاری کا شور تھما تو سمجھ میں آئے گا کہ نقصان کتنا ہوا اور فائدہ کتنا۔ ثانیاََ یہ کہ کراچی آپریشن کی جانبداری پر اٹھتے سوالات کے جواب میں حب الوطنی پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے فقط اس سوال کا جواب دیا جانا چاہیے کہ جس ٹولے پر کراچی میں شیعہ و صوفی سنی مسلمانوں ، اسماعیلیوں، قادیانیوں کے سرکردہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کا الزام عائد ہوتا ہے وہ ٹولہ تو ریاستی حفاظت میں کروفر کے ساتھ اجتماعات بھی کرتا ہے۔ ریلیاں بھی نکالتا ہے اور مخالفین کو نابود کرنے کی بڑھکیں بھی مارتا ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہں ۔ سندھ حکومت تو اس ٹولے کے کالعدم عسکری ونگ سے خوفزدہ ہے ہی لیکن رینجرز کو کیا مسئلہ ہے؟
بدھ کی سپہر عالمی شہرت یافتہ صوفی منش فنکار امجد صابری کا سفاکانہ قتل فقط سندھ حکومت ہی نہیں رینجرز کےکردار پر بھی سوالات اٹھا گیا۔ ایک ایسا شخص جو سراپا محبت ہو کبھی کسی سےناراض ہوا ہو نہ کسی سے نفرت کرتا ہو(بقول اس کے”بھیا! ہمارے پاس نفرتوں اورعداوتوں کے لئے وقت ہی کہاں بچتا ہے”) اسے مارنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ ایک دو نہیں درجن بھر ذمہ دار لوگ بدھ کی شام مختلف ٹی وی چینلوں پر کہہ چکے ہیں کہ مقتول نے ان سے ذکر کیا تھا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔
اس بات کو ایم کیو ایم نےمرضی کارنگ دیا اور کچھ دوسروں نے بھی لیکن کسی کو یاد نہیں رہا کہ امجد صابری کو پہلی دھمکی اس وقت ملی تھی جب چند برس قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر 19 ذی الحجہ کو (یہ امام علیؑ اور حضرت بی بی فاطمہؑ کی ازدواجی زندگی کے آغاز کا پہلا دن ہے) جناب سیدہ عابدہ بتول فاطمہ سلام اللہ علیہا کا سہرا پڑھا تھا۔ دھمکی دینے والوں نے اسے کہا تھا”قاری سعیدچشتی قادری کا انجام بھول گئے ہو کیا” (قاری سعیدچشتی قادری جھنگ سے تعلق رکھنے والے قوال تھے۔ 1990ء کی دہائی میں چند ہی برسوں میں وہ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے ملک گیر شہرت کے حامل ہوئے۔
اور پھر ایک شب گوجرانوالہ کے قریب ایک درگاہ پر منعقدہ قوالی کی محفل میں عین اس وقت قتل کر دئیے گئے جب وہ اپنی مشہورِ زمانہ قوالی “علی ؑ دم دم دے اندر” گار ہے تھے) قاری سعیدچشتی قادری کے قتل کی ذمہ داری سپاہ صحابہ کی ذیلی عسکری تنظیم لشکرِ جھنگوی نے قبول کی تھی۔ لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں نے پچھلے بیس بائیس سالوں کے دوران اس ملک میں چن چن کر ایسی شخصیات کو قتل کیا جن کا تعلق یا تو شیعہ مسلم خاندانوں سے تھا یا پھر ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو تصوف کےاس سلسلے سے منسلک تھےجو آلِ رسول ﷺ کے ساتھ مذہبی عقیدت کے پرچار کو امن و محبت اور انسانیت کی ابتدائی تعلیم کا درجہ دیتا ہے۔
شیعہ یا صوفی سنی مسلمانوں کی کسی بھی ممتاز شخصیت کے سفاکانہ قتل کے بعد ریاست کے کچھ وظیفہ خوار اداروں کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے سانحہ میں بھارت ملوث ہے کا کچا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ بدھ کو بھی بے سرے انداز میں یہ راگ الاپا گیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ بدھ کو یہ راگ الاپنے والوں میں خلیفہ ہارون الرشید نمایاں تھے۔ جنکی شہرت ریاستی اداروں کے تنخواہ دار منشی کی ہے۔ چلیں مان لیا کہ امجد صابری کا قتل”را” کے کارندے نے کیا ہے۔ سادہ سا سوال ہے۔
دنیا کی نمبر ون خفیہ ایجنسی ہونے کی مدعی ایجنسی اس سازش کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہی؟ معاف کیجیئے گا بات اتنی سادہ نہیں ہے۔اردو اورسرائیکی کے بلند پایۂ شاعرشہید سید محسن نقوی ، عالمی سطح کے معروف ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر سید علی رضا بخاری، قاری سعید چشتی قوال اور دیگر بہت سارئے شیعہ اور صوفی سنی شخصیات کے قتل کے بعد ہمیشہ یہ سوال اٹھا کہ آخر وہ لوگ ہی قتل کیوں ہوتےہیں جو سپاہ صحابہ اورلشکرِ جھنگوی کے نفرت بھرے مقاصد کو پاکستانی سماج کے لئے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں؟ بلاشبہ امجد صابری کے سفاکانہ قتل کی تحقیقات ہونی چاہیں۔
تحقیقات کرنے والوں کو تمام پہلو سامنے رکھنے چاہیں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ تمام پہلوؤں میں سے اہم ترین پہلو کو نظرانداز نہ کر دیا جائے۔جو ایک خاص عقیدے کی طاقت کے بل بوتے پر بالادستیکے لئے جاری گھناؤنے کھیل کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔ امجد صابری کے سفاکانہ قتل کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جس جگہ صوفی منش امجد صابری کا قتل ہوا چند کلومیٹر کے اس علاقے میں پچھلے ہفتہ بھر کے دوران 2 اسماعیلی مسلمان، ایک قادیانی ڈاکٹر بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔ امجد صابری دہشت گردوں کا چوتھا شکار ہے اور چاروں وارداتوں میں 30بور کا پسٹل استعمال ہوا۔
مکرر عرض ہے کہ کراچی میں چن چن کر خاص عقیدوں کے حاملین کو مارا جا رہا ہے۔ مقتولین کی عوامی شہرت کو دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ بدامنی سے عبارت شہر میں محبتوں کے چراغ جلا کر امن قائم کرنے میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتےتھے۔ شہید امجد صابری بھی ایسی شخصیت تھے۔ سراپا محبت، ہمہ وقت مسکراتے رہنے والے، سب کے دوست، انسانیت پر یقینِ کامل رکھنے والے سچے عاشقِ حضرت محمدؐ و آلِ محمدؑ۔ صوفی ازم کے باشعور طالب علم ۔ان کاسفاکانہ قتل پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کا اجتماعی نقصان ہے، ناقابلِ تلافی نقصان۔ ہم برادرم نور درویش کے الفاظ میں امجد صابری کے سفاکانہ قتل کو “درودؐ والوں پر بارود والوں کا نیا حملہ” کہہ سکتے ہیں کہ سچ بھی یہی ہے۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/the-dynamite-attack-on-the-blessings/