زندان کی چیخ ۔نوویں قسط – از حیدر جاوید سید

zindan-ki-cheekh-2-300x138

اعوان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ایک شخص نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’جو مسلمان اللہ پر یقین رکھتے ہیں وہ عالم اسلام کے ہیروؤں اور محسنوں کے بارے میں ایسے گھٹیا مضامین نہیں لکھتے۔ جس طرح کے تم لکھتے ہو‘‘۔ میرا جواب تھا’’میرے ہیرو آپ کے ولن ہیں آپ کے ہیرومیرے لئے ظالم اور درندے ۔ آپ لوگ مذہب کے آنکھ سے دیکھتے ہیں تاریخ کو اور میں انسان کے طور پر‘‘۔ ’’چپ کرو بھڑوے کنجر‘‘ وہ شخص بولا ’’یہاں تمہاری ماں ۔۔۔۔۔ کا ۔۔۔۔۔ وہ نہیں‘‘۔ ’’دیکھیں آپ مجھے میری والدہ کے حوالے سے کچھ نہ کہیں۔

ماں کی ذات کو تو کنجر بھی گالی نہیں دیتے‘‘۔ میں یہی کہہ پایا تھاوہ اپنی جگہ سے اٹھا اور میرے منہ پر تھپڑوں کی برسات کرتے ہوئے غلیظ ترین گالیاں دینے لگ گیا۔ وہ ایسا بدزبان تھا کہ اپنی زبان کو لگام دینے کی بجائے اپنی تربیت اور پیدائش کا حق ادا کرتا رہا۔اس لمحے میں نے سوچا کہ وہ اس سے زیادہ درد اور کیا دیں گے۔ مارنے سے رہے۔ اچھا اگر مار بھی دیں تو کیا ہے۔ انہی لمحوں ایک روشنی کوندی اور مجھے امام علیؑ کاقول یاد آیا۔ ’’موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے‘‘۔

عجیب سی طاقت میں نے اپنے اندر محسوس کی اور صاف کہہ دیا۔’’مسٹر تم اپنی پیدائش اور تربیت کے گند سے بنے ہوئے ہو۔جس اسلام اور پاکستان کی باتیں کرتے ہو دونوں کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ گندی نالی کا کیڑا میں نہیں تم اور تمہیں دنیا میں لانے کے ذمہ دار ہیں۔ بے غیرتی کی کوئی حد نہیں ہوتی یہ آج سمجھ میں آگیا۔ تم لوگوں نے کیا کیا اس ملک کے لئے۔ اتنے بہادر تھے تو پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہتھیار نہ ڈالتے۔ مجھے اپنے جمہوریت پسند ہونے پر کوئی ملال نہیں ہے۔ کسی چور اور بدکردار کی اولاد نہیں ایک باعزت اور ذی وقار والدین کا بیٹا ہوں۔ مجھے اپنی ماں کل کائنات سے پیاری ہے۔ اب گالی دی تو جواب میں گالی ہی سنوگے‘‘۔ یہ وہ لمحہ تھا جب وہ درندہ اپنی کرسی سے اٹھا اور قریب پڑے ہوئے ڈنڈے سے مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ بھونکتا اور گالیاں دیتا مارتا چلا گیا۔ کتنی دیر مارتا۔ بلآخر ہلکائے ڈاگ کی طرح ہانپ گیا۔ دھمکی دیتے ہوئے کہنے لگا’’تمہیں چیر کر رکھ دوں گا۔ جرأت کیسے ہوئی بولنے کی یہ شاہی قلعہ ہے، قیدی ہو تم یہاں۔ ہڈیاں توڑ دوں گا حرامزادے تمہاری‘‘ ۔

اس سے قبل وہ ایک بار پھر مجھ پر تشدد شروع کرتا اعوان نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’میجر آپ دوسرے کمرے میں تشریف لے جائیں‘‘۔ اپنی کرسی سے اٹھا ، دو قدم چل کر میری طرف مڑتے ہوئے بولا ’’تمہاری مردانگی نکال دوں گا۔ نالی کے کیڑے۔ ابھی تمہیں پتہ نہیں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔’’ کچھ بھی نہیں کر سکتے تم لوگ سوائے قیدیوں پر تشدد کرنے اور ملک لوٹنے کے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ملک کو تمہارے باپ ذوالفقار علی بھٹو نے لوٹا اس ہندو کی اولاد نے‘‘میجر نے کہا۔ ’’سنو میجر! میرے والد کا نام سید محمودانور بخاری ہے اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔

تم اپنی ولدیت میں لکھ لو بھٹو کا نام۔ کیونکہ تمہیں معلوم ہے وہ ہندو کا بیٹا ہے۔ آدمی اپنے خونی رشتہ داروں کو اچھی طرح پہچانتا ہے‘‘۔ اس ترکی بہ ترکی جواب نے اسے مشتعل کر دیا اور اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا میرے سر پر دے مارا۔ ماتھا پھٹ گیامیرا لیکن میں نے ہمت کر کے کہا’’ یاد رکھنا میں تم سے ایک ایک زخم اور گالی کا بدلہ لوں گا یہاں اس جہاں میں ممکن نہ ہوا تو اللہ کی عدالت میں ۔ وہاں تمہیں وہ جالندھری کیڑا ضیاء الحق نہیں بچا سکے گا‘‘۔’’ بکواس بندکرو نالی کے کیڑے۔ چیف آف آرمی سٹاف اور صدرِ مملکت کانام منہ سنبھال کے لو‘‘میجر بولا۔ ’’کس کا صدر وہ۔ ڈاکو کسی کے گھر پر قبضہ کر لیں تو گھر کے مالک نہیں بن جاتے‘‘۔ مجھے اعوان کی آواز سنائی دی ’’اکرم اس کی ایک پٹی اور کرواؤ‘‘۔ کچھ دیر بعد وہی ڈسپنسر دوبارہ نمودار ہوا۔

میرے ماتھے کے زخم پر اس نے پٹی کی اور اعوان سے کہا ’’ملک صاحب!اس کی گردن پر بھی زخم ہے‘‘۔ اعوان نے اٹھ کر دیکھا اور ڈسپنسر سے کہا’’ڈاکٹر موجود ہے تو اسے لے کر آؤ‘‘۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک ڈاکٹر آن موجود ہوا۔ سچی بات ہے وہ ڈاکٹر کم اور چھابڑی والا زیادہ لگتا تھا۔ اس نے گردن کا زخم دیکھا اور بولا’’ ٹانکے لگیں گے‘‘۔ ’لگاؤ ٹانکے‘‘۔ اعوان نے کہا۔’’تمہیں یہاں جمعے کے خطبے کے لئے تو نہیں بلایا‘‘۔ ڈاکٹر نے ڈسپنسر سے کچھ کہا ۔ وہ چندلمحوں میں ایک میڈیکل باکس لے کر آگیا۔ایک انجیکشن لگایا اس نے گردن میں۔ کچھ دیر بعد ایسا لگا جیسے باقی جسم تو ہے لیکن گردن اور سر نہیں ہے۔ ’’چار ٹانگے لگے ہیں خون بہت زیادہ بہہ گیا ہے اس کا‘‘مجھے ڈاکٹر کی آواز سنائی دی۔ اعوان نے اسے کہا’’ڈاکٹر! اس کے سر اور ماتھے والی پٹیاں بھی دوبارہ دیکھ لو‘‘۔ اس نے حکم کی تعمیل کی اور پٹیاں دوبارہ کردیں۔

اعوان نے اپنے ماتحتوں سے کہا’’اسے کوٹھڑی میں واپس ڈال دو‘‘۔ دو آدمیوں نے میری بغلوں میں ہاتھ ڈالے اور اس ہال سے کوٹھڑی کی طرف لے چلے۔دو تین منٹ کا فاصلہ کافی دیر میں طے ہوا۔ انہوں نے مجھے کوٹھڑی میں لے جا کر لیٹا دیا۔ جاتے ہوئے ان میں سے ایک نے مجھے کہا ’’شاہ جی! ابھی جوان ہو ۔ دنیا دیکھنی ہے تم نے۔ قیدی کو صرف سوالوں کے جواب دینا ہوتے ہیں۔ بحث نہیں کرنی ہوتی۔ میجر نے تمہیں اعوان صاحب کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ تمہیں اس سے بدتمیزی نہیں کرنا چاہیے تھی‘‘۔’’اچھا آپ لوگ کلمہ پڑھ کر کہیں اس میجر کو یہ حق تھا کہ مجھے گالیاں دے یا میری والدہ کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرے‘‘؟ میں نے پوچھا۔ ’’شاہ جی ! یہ شاہی قلعہ ہے۔

اور تم حکومت کے قیدی ہو۔ تمہارے کوئی حقوق بھی نہیں۔ باہر والوں کوتو یہ بھی معلوم نہیں کہ تم زندہ ہو یا مرگئے ہو‘‘۔ اتنے میں اس کے ساتھی نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں کوٹھڑی سے نکلنے لگے تومیں نے کہا گارڈ سے کہیں مجھے سگریٹ پینا ہے۔ کوٹھڑی کے باہر کھڑے گارڈ سے انہوں نے ماچس لی اور سگریٹ سلگا کے مجھے دے دیا۔وہ باہر نکلے تو گارڈ نے کوٹھڑی کا دروازہ بند کے کے تالہ لگا دیا۔سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے سوچنے لگاآخر یہ مجھ پر اس قدر وحشیانہ تشدد کیوں کرتے ہیں؟ پھر خود ہی جواب دیا۔ مہمان تو نہیں ہوں قیدی ہوں۔ ظاہر ہے یہی کچھ کریں گے۔ کسی ملک کوفتح کرنے والے لشکر کے سپاہی مفتوحہ ملک کے زمین زادوں سے اور کیسا سلوک کرتے ہوں گے۔

میرے ذہن میں اچانک محمود غزنوی کے ملتان پر حملے اور اس کے لشکریوں کے ملتانیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم گھومنے لگے۔پاک و ہند کے مسلمانوں کے اس ہیرو نے جو بنیادی طور پر ایک لٹیرا تھا۔ جب ملتان پر حملہ کیا تو اس حملے کا جواز چند مولویوں کے اس خط کو بنایا کہ ملتان میں قرامطہ کی حکومت ہے اور وہ مسلمانوں سے ناروا سلوک کر رہے ہیں۔محمود غزنوی اس جھوٹے خط کو بنیاد بنا کر ملتان پر حملہ آور ہوا۔ انسانی تاریخ کے قدیم شہروں میں سے ایک شہر کو اس مسلمان فاتح نے برباد کر کے رکھ دیا۔ یہی نہیں اس کے لشکری ملتان سے 30 ہزار سے زیادہ عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کو غلام بنا کر لے گئے۔ غزنی شہر میں اس چوک کا نام ملتان چوک پڑ گیا جہاں ہندی مسلمانوں کے اس ہیرو کے کارندوں نے ملتانی غلاموں کی فروخت کے لئے منڈی سجائی تھی۔ یادوں کی آمد کا جاری سلسلہ اس وقت ٹوٹاجب کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ ڈاکٹر کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان میں سے ایک کو میں پنجاب پولیس کے افسر طور پر جانتا تھا۔ غالباََ وہ ایڈیشنل آئی جی تھا۔دوسرے دو کون تے معلوم نہیں البتہ ان تینوں نے ڈاکٹر سے کہاکہ میرا اچھی طرح معائنہ کرے۔

صرف زخم ہی آئے ہیں کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی۔ ڈاکٹر نے مجھے کھڑا ہونے کے لئے کہا تو میں نے جواب دیا’’کھڑا ہونا مشکل ہے کیونکہ میرے پاؤں سوجے ہوئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر نے میرے قریب بیٹھ کر میرا اچھی طرح معائنہ کیا اور پھر ساتھ آنے والوں سے کہا ’’زخم ہیں ۔ ہڈی کوئی نہیں ٹوٹی البتہ اسے ادویات کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ سن کر ان تینوں میں سے ایک بولا ’’اچھا دیکھتے ہیں‘‘۔

Source:

http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-9/

Comments

comments