زندان کی چیخ ۔ساتویں قسط – از حیدر جاوید سید

zindan-ki-cheekh-2-300x138

شاہی قلعہ کے اس قید خانے اور پھر تہہ خانے کے اندر کی کوٹھڑیوں میں بند قیدی کے لئے روز و شب کا شمار یہی تھا کہ اس کوٹھڑی میں پڑے اتنے دن اور اتنی راتیں گزر گئیں۔اس بوچڑ خانے میں دن شماری کا فائدہ بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ آنے اور خود پر بیتنے والے حالات پر پشیمانی اس لئے نہیں تھی کہ یہ خود اختیار کردہ راہ تھی۔مجھے وہ دن یاد آیا جب کراچی میں مجھے اور ’’جدوجہد‘‘ کے مالک و چیف ایڈیٹر کو آئی ایس آئی کے مقامی دفتر میں طلب کیا گیا۔دو باتیں ہوئیں یعنی دو سوال۔

لیکن یہ سوال اور جواب کی بحث تین گھنٹے لے گئی۔پہلا سوال یہ تھا کہ سوویت یونین کے قونصل خانے میں انقلابِ روس کی سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں ہم دونوں کو بلانے کی کیا وجہ تھی اور یہ کہ تقریب کے خاتمے پر سوویت قونصلر جنرل کے ساتھ کیا بات چیت ہوئی؟ہم نے کہا جیسے دوسرے صحافیوں کو بلایا گیا ویسے ہی ہمیں اور قونصلر جنرل نے الگ سے تو کوئی بات چیت نہیں کی۔ انہوں نے جو بھی گفتگو صحافیوں کے ساتھ کی وہ تقریب والے لان میں ہی کی۔

آپ کے نمائندے بھی تو موجود تھے ان سے دریافت کر لیں کیا بات چیت ہوئی۔کرنل موصوف رعونت سے منہ بگاڑ کر بولے۔ ’’معلوم ہے تو تم لوگوں کو بلایا ہے۔ ہمارا سوال یہی ہے کہ سوویت قونصلر جنرل تم دونوں پر خصوصی مہربان کیوں تھا‘‘۔ ’’کوئی خصوصی مہربانی نہیں کی انہوں نے۔ بعض مضامین کی تحسین کی۔ خصوصاََ افغانستان کے حوالے سے لکھے گئے مضامین کی‘‘۔ میرا جواب تھا۔دوسرا سوال تھا کہ تم اور تمہارا پرچہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو سپورٹ کیوں کرتا ہے؟’’اسلام کی تعریف اب آپ ہمیں سمجھائیں گے‘‘؟ میں نے دریافت کیا۔’’اور کیا حب الوطنی کامعیار آئی ایس آئی طے کرے گی‘‘؟ ’’زیادہ ٹرٹر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب دو‘‘۔ کرنل بولا۔ میں نے کہا کہ’’ہم یہاں کسی خوف یا دبدبے سے متاثر ہو کر نہیں آئے۔ آپ نے بلایا تھا ہم نے سوچا کہ اپنے ملک کا ادارہ ہے بات سن پوچھ لیتے ہیں‘‘۔

’’ اپنے ملک کا تم جیسے گھٹیا لوگوں کو کوئی خیال نہیں ۔ جس کا کھاتے ہو اسی سے غداری کرتے ہو‘‘۔ حیرانی سے میں نے کرنل کی طرف دیکھا اور اس سے کہہ دیا۔’’کم از کم ہم آئین توڑنے والوں میں سے نہیں ہیں‘‘۔ ’حضرت‘ کا موڈ بہت خراب ہوا۔ بولے’’آئین سمجھانے کی کوشش نہ کرو‘‘چند مزید تلخ باتیں ہوئیں پھر دھمکی آمیر انداز میں کہنے لگا’’ابھی نوجوان ہو۔ اپنی جوانی پر ترس کھاؤ۔ ملک کی خدمت کرو‘‘۔ بات ہم دونوں کی سمجھ میں آگئی۔ یہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی کہ ’’اپنی محنت مزدوری کی کھاتے ہیں۔ دلالی نہیں کرتے کسی جماعت یا ادارے کی۔

یہ ملک جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ہمارا ہے‘‘۔ اب شاہی قلعہ میں تفتیش کے دوران بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا تھا۔ تفتیشی افسر اوراس کے ساتھی اہلکاروں کی تان ہی اس بات پر ٹوٹتی تھی کہ تم غدار ہو۔ ملک دشمن ہو۔ بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہو۔ میں حیران ہوتاتھا کہ جس فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدارپر قبضہ کیا اس فوج کے افسرکہتے تھے کہ تم غدار ہو۔

ایک بار دوران تفتیش جب کرنل لغاری اور اس کے ساتھی اخلاقی حدود پامال کر گئے تو قیدی ہونے کے باوجود برداشت ختم ہوگئی۔ میں کہہ اٹھا یہ قوم اپنی محنت کی کمائی سے فوج کو پال رہی ہے۔ آپ لوگوں نے تیسری بار اپنی ہی قوم اور ملک کو فتح کر کے بڑا تیر مار لیاہے۔ کہنے کو تو میں یہ کہہ گیا۔ لیکن اس کے بعد مادر زاد گالیوں اور وحشیانہ تشدد کے بھرپوردور نے طبیعت صاف کر دی۔اس رات میں تشدد سے لگی چوٹوں کی وجہ سے ایک پل سو نہیں پایا تھا۔ساری رات اس پر ہی غور کرتا رہا کہ یہ واقعتاََ پاکستانی فوج کے افسر ہیں یا بھارتی فوج کے؟ایسا سلوک تو بیرونی حملہ آور کسی ملک کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے لوگوں سے کرتے ہیں۔مسلمان کہلاتے ہیں یہ تفتیشی افسران لیکن اسلام ان کے پاس سے بھی نہیں گزرا۔عجیب عجیب گالیاں دیتے تھے۔ ایسی گالیاں جو طوائف زادے بھی اپنے محلے میں نہیں دیتے ہوں گے۔جنرل ضیاء الحق کے یہ ماتحت انسان کہلانے کے مستحق تھے ہی نہیں۔ بات کرنے کی تمیز تو تھی نہیں ایک بات میں نصف درجن گالیاں دیتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ اس رات میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ کہیں واقعتاََ میں غدار تونہیں ہوں؟ پھر اندر سے آواز سنائی دی۔ ’’تم بھلا کیسے غدارکیسے ہو؟ غداراور آئین کے باغی تو یہ ہیں جنہوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے مارشل لاء لگایا ۔منتخب وزیرِاعظم کو پھانسی چڑھایا۔ عوام کے حقوق پامال کیے‘‘۔ ان جرنیلوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سیکھتے بھی کیسے۔ جن کے ہیرو غزنوی، غوری، ابدالی اور محمدبن قاسم جیسے وحشی حملہ آور ہوں۔ جو90ہزار قیدی بھارت سے چھڑا کر لایا، اس ملک کو دستور دینے اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کے باوجود پھانسی چڑھا دیا گیا اس ذوالفقار علی بھٹو کے لئے کرنل رفیق لغاری ایسی زبان استعمال کرتا تھا کہ ہتھکڑیوں میں بندھے قیدی کا جی چاہتا تھا اس کا منہ نوچ لے۔ لیکن ہائے ری قسمت اور تاریخ کا جبر۔ یہی کرنل رفیق لغاری 1988ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ڈیرہ غازی خان سے پنجاب اسمبلی کا رکن بنا۔ اسے ٹکٹ دلوانے میں سردار فاروق لغاری کا کردار تھا۔ دونوں کزن جو تھے۔

کرنل (ر) رفیق لغاری کو پنجاب اسمبلی کے لئے پی پی پی نے اپنا امیدوار نامزد کیا تو میں نے رانا شوکت محمود اور جہانگیر بدر سے کہا کہ یہ آپ کی پارٹی میں کیا ہو رہا ہے؟ دونوں نے جواب دینے کی بجائے آنکھیں جھکا لیں۔ البتہ فاروق لغاری مجھ پر بہت برہم تھے۔ کیونکہ میں نے کرنل رفیق لغاری کے خلاف متعددمضامین لکھے اور پی پی پی کی قیادت سے سوال کیا کہ اس کی کیا مجبوری تھی جورفیق لغاری جیسے بھیڑیئے کو پی پی پی کا ٹکٹ دیا۔ یاد پڑتا ہے انہیں دنوں (1988ء میں) محترمہ ناہید خان سے لاہور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا۔’’شاہ جی!بی بی صاحبہ کو آپ کا خط مل گیا تھا وہ بہت حیران تھیں اور چاہتی تھیں کہ کرنل (ر) رفیق لغاری کا ٹکٹ کینسل کر دیا جائے مگر سردار فاروق لغاری آڑے آ گئے تھے‘‘۔

Source:

http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-7/

Comments

comments