زندان کی چیخ ۔ قسط نمبرچھ – از حیدر جاوید سید
لاہور کے شاہی قلعے کو برطانوی استعمار کے دور میں بھی آزادی پسند زمین زادوں کو انتہائی قید تنہائی اور بے رحمانہ تشدد کے مرکز کے طور پر متحدہ ہندوستان میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس تفتیش و تشدد کے بھیانک مرکز (سیاسی کارکنان اسے بوچڑ خانہ کہتے تھے) کے طور پر شہرت پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ملی ۔ ایوبی آمریت کے دور میں ہی کامریڈ حسن ناصر اس بوچڑ کھانے میں ہونے والے ہولناک تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوئے۔ جوانِ رعنا پُر آسائش گھریلو ماحول میں تربیت پانے والے حسن ناصر نے طبقاتی بالادستی سے عبارت نظام کے خلاف محکوم و مجبور زمین زادوں کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی۔ ایوبی آمریت کے دنوں میں انہیں بغاوت کے ایک مقدمہ میں گرفتارکر کے شاہی قلعہ لے آیا گیا۔ اس دور میں بھی ان سے تفتیش کرنے والوں کی ذہنیت ہمارے دور کے تفتیشی افسروں جیسی ہی تھی۔ شاہی قلعہ میں لائے جانے والے سیاسی قیدی کی ’’مسلمانی‘‘ تو ایسے دیکھتے بھالتے جیسے غلط جگہ رشتہ ہونے کے بعد کوئی بدلہ چکا رہے ہوں۔ اس مقام بارے بہت کچھ سن پڑھ رکھا تھا۔ہمارے ایک لائق احترام دوست ، بلند پایۂ دانشور، مصوراور ادیب، پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ محمد حنیف رامے بھی لاہور شاہی قلعہ کے بوچڑ خانے کی ’’سیر‘‘ کرنے والوں میں شامل تھے۔
ان سے ایک ملاقات میں ، یہ ملاقات غالباََ اکتوبر1977ء میں ہوئی تھی۔ شاہی قلعہ کی جیل اور ان کے تجربات بارے دریافت کیا تو وہ بولے ’’ تفتیشی افسران کی کوشش ہوتی ہے کہ قیدی کو نفسیاتی طور پر بکھیرکر رکھ دیں۔قلعہ میں سب سے زیادہ امتحان قوت برداشت اورفکری استقامت کا ہوتاہے۔ یہ اگر دونوں سلامت رہیں توقید و بند اور تشدد دونوں بے معنی ہو جاتے ہیں‘‘۔ شاہی قلعہ میں اسیری کے دوران جناب حنیف رامے کی باتیں ہر لمحہ ذہن میں گونجتی رہیں۔ ان کے خیالات اُن لمحوں میں بہت حوصلہ عطا کرتے جب بدزبان تفتیشی افسر اپنی تربیت کا حق ادا کر رہے ہوتے تھے۔ اخلاق اور شرفِ آدمیت سے کورے یہ شاہی قلعہ کے تفتیشی افسران کتنے بے رحم ، سنگدل اور بدزبان تھے اس کا آج بھی خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں تفتیشی افسروں کی تربیت میں کوئی کج تھا یا ہم ایسے لوگوں کا عملی زندگی میں ایسے افراد سے واسطہ نہیں پڑا۔ میری دانست میں دونوں باتیں صحیح ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ کسی ملک پر قبضہ کرنے والے فاتحین ہوں یا اس ملک کے عسکری جواقتدار پر قبضہ کریں وہ عوام کو مفتوحہ مال سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ حملہ آوروں یا اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی جان ومال، عزت اور شخصی وقارکو روندنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
مجھے جس دن شاہی قلعہ کے بوچڑ خانے کی چاردیواری کے اندر پہنچایا گیا اس کے بعد سے رہائی تک کے سارے عرصہ میں قدم قدم پر مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کی مخالفت اسلام اور پاکستان کی مخالفت تھی۔ خانہ کعبہ میں بیٹھ کرحلف دینے ، آیات قرآنی پڑھ کر وعدہ کرنے اور پھر حلف اوروعدوں کو فوجی بوٹوں سے گیارہ سال تک روندتے رہنے والے جنرل ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو نے اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی سفارش پر پاکستان آرمی کا چیف بنایا تھا۔جنرل ضیاء نے اردن میں فلسطینی مہاجرین کے قتل عام میں شاہ حسین کی حکومت کے لئے جو خدمات سر انجام دیں ان کی بدولت ہی وہ اردن اور امریکہ کی آنکھوں کا تارا بنے تھے۔ بریگیڈیئر سے میجرجنرل کے منصب پر ان کی ترقی میں بھی اردن کے شاہ حسین اور پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر کی دلچسپی رہی۔
بھٹو صاحب نے 6 سینئر جرنیلوں کو بائی پاس کر کے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا۔ بظاہر وہ اس قدر تابعدار تھے کہ جب کبھی ان کی کورکمانڈر اور پھر آرمی چیف کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہوتی تو فوجی انداز میں سلیوٹ مارنے کے بعدجھک کر ایسے ملتے جیسے بھٹو کی دست بوسی کاشرف حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ بھٹو صاحب سے وفاداری کو ثابت کرنے کے لئے ہی انہوں نے اٹک سازش کیس کی سماعت کرنے والی فوجی عدالت کا سربراہ خود بننے کا فیصلہ کیا۔ اور میجر نادر پرویز وغیرہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران ان کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا۔ ذولفقارعلی بھٹو کے خلاف سازش کے مرتکب فوجی افسران کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو فوجی عدالت کے سربراہ ضیاء الحق نے کہا۔ ’’تم لوگوں نے عالمِ اسلام کے اس عظیم سپوت کے خلاف بغاوت کی سازش کی جو امت مسلمہ کا محسن ہے۔
جس نے 90 ہزار قیدیوں کو بھارت کی قید سے رہا کروایا۔ اور بھارتی جارحیت کا سدِباب کرنے کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ احسان فراموشو شرم آنی چاہیے تمہیں‘‘۔ کیسی عجیب بات ہے کہ خوشامد کی حدیں پار کر جانے والے اسی جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ قتل کے ایک جعلی مقدمہ میں انہیں پھانسی چڑھا دیا۔ جنرل ضیاء الحق فکری اور روحانی طور پر متحدہ ہندوستان کے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر سے بہت متاثر تھے۔ بالکل اس کی طرح اسلام کی مالا جپتے اور ایک خاص مسلک کی سرپرستی کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ جذبات کو تعصّبات اور نفرتوں میں بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
فوج کی طاقت اور امریکہ کی پشت پناہی سے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے والے ضیاء الحق نے پاکستان کے لبرل سماج کو برباد کرنے اور اس کے کھنڈرات پر مذہبی جنونی سماج تعمیر کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایا۔ شاہی قلعہ میں فوج کی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے تفتیشی افسران جس عقیدت سے اس فوجی آمر کا ذکر کرتے اس سے لگتا تھا کہ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ جنرل ضیاء الحق کو حضرت خالد بن ولیدؓ کا دوسرا جنم قرار دے دیں۔ پھر بھی ان کے خیال میں ضیاء محمودغزنوی اور محمد بن قاسم کے ادھورے مشن کو پورا کرنے کے لئے اللہ کا انتخاب تھے۔ اور ان کی مخالفت اللہ کی مخالفت تھی۔
Source:
www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-6/