زندان کی چیخ ۔ پانچویں قسط – از حیدر جاوید سید
پھر نجانے کس وقت نیندآ گئی ۔ آنکھ اس وقت کھلی جب کسی نے مجھے میرا نام لے کر پکارا۔ اٹھ کر روزن سے باہر دیکھا تو بھیا لانگری تھا۔ چائے اور آدھی روٹی ۔ اندھے کو جیسے بینائی مل گئی ہے۔ کل سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ نصف روٹی اور چائے کے کپ نے تازہ دم کر دیا۔ روٹی وغیرہ کے علاوہ ’’سوغاتِ عظیم‘‘ سپر برانڈ کے پانچ عدد سگریٹ بھی لانگری ہی تقسیم کرتا تھا روزانہ۔ میرے پاس کل کا ایک سگریٹ باقی تھا۔ مطلب یہ کہ عیاشی کی جا سکتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ جمعدار نے ضروریات حوائج کا پاٹ اٹھایا اور باہر چلا گیا۔ دو تین منٹوں میں اس کی واپسی ہوئی۔ سنتری نے دروازہ کھولا اور جمعدار پاٹ رکھ کر واپس۔ دروازہ پھر بند۔ جیل تو پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ تھانوں کی حوالاتوں اور جیل کے ماحول سے تعارف پرانا تھا۔ لیکن شاہی قلعہ سنا پڑھا بہت تھا اب اسے بھگت بھی رہا تھا۔
تیسری دنیا کے دوسرے پسماندہ ممالک کی طرح پاکستان کا ماحول کبھی حکومت وقت سے اختلاف رکھنے والوں کے لئے سازگار نہیں رہا۔حکومتِ وقت نے اپنے مخالفین کے لئے ملک دشمن کا فتویٰ پہلی بار لیاقت علی خان کے دور میں ایجاد کیا تھا۔مذہبی طبقات ایک دوسرے کے خلاف کفر کا فتویٰ دینے کی پشتنی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو جمہوری فلاحی ریاست کے جو خواب دیکھائے تھے وہ تعبیروں سے پہلے ہی چوری ہو گئے۔ ہونے ہی تھے۔ جناح صاحب کی مسلم لیگ میں برطانوی استعمار کے کتے نہلانے والے خاندانوں کی بھرمار تھی۔ تاریخ کا کڑوا سچ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کی علمبردارآل انڈیا مسلم لیگ نے ڈھاکہ میں جنم لیا تھا۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں نہیں بلکہ نواب کے محل میں۔ اوراس کے بانیوں میں سرآغا خان سوئم بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ کے قیام کے لئے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں سارے نواب، سر، خان بہادر ہی شامل تھے۔ عام مسلمانوں کاتوایک نمائندہ بھی شامل نہیں تھا۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی پہلی کابینہ میں مختلف مذاہب کے نمائندے بھی شامل تھے۔ لیکن یہ یکجہتی جناح صاحب کے ساتھ ہی وفات پا گئی۔ اولین وزیراعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ فری میسن تحریک کی رکن تھیں۔ لیاقت علی خان اسی سبب مولویوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے۔ جناح صاحب کی وفات اور پھر لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستان کی سیاست اور نظام ہائے حکومت پر ہر دو کی شان نرالی ہوئی۔
مگر اختلافات پر پہلی اینٹ بنگالی اور دیگر مقامی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ اور اردو کو قومی رابطے کی زبان کی حیثیت دینے کی بجائے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیا گیا۔ ہزاروں برس کی تاریخ رکھنے والی زبانوں پر اردو کو تقدم دینے کا نتیجہ کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔ بنگالی، سندھی اور پشتون قوم پرست سراپا احتجاج ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ زبان کے مسئلہ پر بنگالیوں کا ردِعمل بہت شدید تھا۔ ان کا یہی ردِعمل بنگالی قوم پرستی کی اس سیاست کی بنیاد بنا جو آگے چل کر تعصب سے نفرت میں تبدیل ہوا۔ البتہ تعصب کے نفرت میں تبدیل ہونے کے باقی لوازمات پورے کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا تھا۔ اسی ذات شریف نے 1958ء میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا۔ بنگالی زبان کے مسئلے پر ناراض تھے پھر ون یونٹ کی تخلیق ہوئی۔ صوبہ سرحد، پنجاب سندھ، ریاست بہاولپور، بلوچستان اور دیگر ریاستوں، جو اب تک نیم خود مختار تھیں کو ملا کر مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔ آبادی میں بنگالی زیادہ تھے۔
تعلیمی شرح میں بھی آگے۔ مگر مغربی پاکستان میں سامراجی ذہنیت رکھنے والوں نے برابری کا اصول وضع کیا۔ بدقسمتی سے اس پر بھی عمل نہ ہوا۔ مثال کے طور پر دیکھ لیجئے کہ 14 اگست 1947ء سے 16دسمبر1971ء کے دوران ایک بھی بنگالی متحدہ پاکستان کی مسلح افواج کا کمانڈرانچیف نہ بن سکا۔ یہ حال صرف مسلح افواج کاہی نہیں تھادیگر شعبوں میں بھی بنگالیوں کا استحصال ہوا۔ ایوب خان نے کراچی کی مرکزی حیثیت ختم کر کے اسلام آباد کے نام سے نیا دارالحکومت بنایا تو بنگالی سیاست دان اور قوم پرست اسے فضول خرچی قرار دیتے ہوئے کہنے لگے ایوب خان ایک نیا شہر بسانے کی بجائے اگر اس رقم سے مشرقی پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دینے کے منصوبے بناتے توزیادہ بہتر تھا۔ بات بنگالیوں کی درست تھی مگر سنتا کون؟ سول و ملٹری بیوروکریسی میں پنجابی پشتون اور مہاجر اکثریت میں تھے اور ان تینوں کے دماغوں میں اپنے اعلیٰ وارفع ہونے کا خناس بھراہوا تھا۔ یہ رویہ یا یوں کہہ لیں ذہنیت نئی نہیں تھی۔
مسلمانوں کی مجموعی تاریخ کا 95% ایسے رویوں اور ذہنیت سے عبارت ہے۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمان دو طرح کے مسائل کا شکار تھے۔ ایک طبقہ وہ تھا جو حملہ آور مسلمان فاتحین کے ساتھ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ ان کے آمد سے قبل ہندوستان میں اندھیرا تھا۔ روشنی ان کے دم سے ہوئی۔ دوسرا طبقہ ان مسلمانوں کا تھا جن کے بزرگ عرب سے متحدہ ہندوستان آئے۔ ان بزرگوں نے عرب سے ہندوستان کا رخ اپنے اپنے دور کی حکومتوں کے مظالم سے تنگ آ کرکیا ان میں آلِ فاطمہؑ اور آلِ علیؑ (حضرت امام علیؑ کی دیگر اولاد کی نسلوں کے خاندان) بنوہاشم، قریشی وغیرہ تھے۔ تیسراطبقہ دو طرح کا تھا ایک وہ جنہوں نے تبلیغ کرنے والے مسلمان بزرگوں کی سیرت اور اسلامی تعلیمات سے متاثرہو کر اسلام قبول کیا دوسرے وہ جنہوں نے فاتحین کامذہب قبول کیا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ فاتحین کا مذہب قبول کرنے والوں نے اپنے ہی سماج میں خود کو توپ چیز سمجھنا شروع کر دیا۔
ہندوستان کے بٹوارے کی صورت میں یہ سارے روئیے اور نفسیاتی عوارض پاکستان کوورثے میں ملے۔ ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت خود کوآسمانی مخلوق سمجھتی تھی۔ ان کاخیال تھا کہ 14اگست1947ء سے قبل یہاں اندھیرا تھا۔ علم و تہذیب کی روشنی لے کر یہ وارد ہوئے۔ اس لئے اس سرزمین کے بے تہذیب و بے علم لوگوں کو ان سے فیض پاناچاہیے۔ اولاََ اولاََ اردو بولنے والی اشرافیہ اور یہاں (مغربی پاکستان) کے سرداروں، جاگیرداروں، خانوں ، مخدوموں اوربڑے کٹھ ملاؤں کے درمیان خوب نبھی۔ عام اردوبولنے والے تقریباََ ویسے ہی مسائل کا شکار ہوئے جس طرح کے مسائل کا مقامی زمین زادوں کو بٹوارے کے بعد سامناکرناپڑا۔اس کے باوجود عام مقامی اور مہاجر طبقات میں زیادہ نہ نبھ پائی۔ شاہی قلعے کی افسرشاہی کارویہ بھی فاتحہ لشکریوں جیسا ہی تھا۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-5/