حق اور سچائی کا نشہ – مبشر اکرم کے جواب میں – نوید علی

Naveed-ali

اگر انسان کا کوئی مقصد ہو تو ضروری نہیں کہ مرنا مارنا اس کی انتہا ہو، خرم زکی کس کو مارنا چاہتا تھا؟ اور کیا وہ مرنا چاہتا تھا؟ اور وہ سب جو تاریک راہوں میں مارے گئے، فائرنگ، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، تشدد سے ناگہانی موت کا شکار ہونے والے ہزاروں پاکستانی؟ کیا سب مرنے مارنے کے جنون میں تھے؟ شہباز تاثیر، شہباز بھٹی، یہ بھی مرنے مارنے نکلے تھے؟ چلیں ان کو چھوڑیں تاریخ میں زندہ ہزاروں شہید جو اپنے نظریات کے لئے جان سے گئے وہ سب مرنا مارنا چاہتے تھے؟ سقراط مرنے مارنے نکلا تھا؟ سرویٹس کس کو مار رہا تھا؟ یہ اتنا آسان نہیں کہ مظلوم کو ظالم بنا دیں، اس کی موت کا الزام اسی پر ڈال دیں، اس کی جگہ خود کو رکھیں۔ جیسا فراز نے کہا کہ:

ہر دور کا نخچیر رہا ہے لب گویا

یہ دور بھی منصور کو سولی پہ چڑھا دے

ہر انسان اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے، یہ فیصلہ اس پر چھوڑیں کہ ہم میں سے ہر ایک کہاں تک ضمیر کی آواز سنتا ہے اور کیا کرتا ہے، شکایت کسی سے نہیں، الزام کسی پر نہیں، تاریخ خود فیصلہ دے گی کہ کون کیا تھا، جو چھوڑ گئے وہ بھی اور جو کھڑے رہے وہ بھی سب تاریخ کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے۔

ایک دوست کے بھائی اپنی کلینک میں مریض دیکھ رہے تھے، ایک مریض آیا، ڈاکٹر کے پاس بیٹھا، گن نکالی اور ماتھے پر گولی مار دی۔ اب سمجھایئے کہ وہ کیسے زندہ رہ سکتے تھے؟ خرم زکی دوستوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، دو افراد آئے اور گولیوں کی بارش کر دی، پانچ گولیاں مرحوم کے جسم سے نکلیں، سمجھا یہ دیں کہ انہوں نے ایسا کیا کیا تھا جو یہ دن دیکھنا پڑا؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ کچھ پیشہ ور دکانداروں نے اپنی دکان چمکانے کے لیے ان کو آگے بڑھا دیا اور وہ اس چکر میں مارے گئے، اگر ہشیاری سے کام لیتے تو اتنا آگے نہ جاتے اور زندہ رہتے۔ مگر وہ ایسا کر کیا رہے تھے؟ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لئے آواز اٹھانا کیا یہ جرم ہے یا ایک مولانا کے خلاف ایف آئی آر کٹوانا جرم تھا؟ ثابت کریں کہ کب انہوں نے کسی کو مارنے کی بات کی؟ ابھی دو تین دن پہلے جس لڑکی کو اس کی ماں نے زندہ جلا دیا وہ بھی زندہ رہ سکتی تھی، بس اپنی پسند کی بات نہ کرتی، جی لیتی، کر لیتی شادی کسی ایسے شخص سے جو ساری عمر اس کے لئے اجنبی رہتا۔

بے شک زندہ افراد کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا ان ساتھیوں کو بھول جاتے ہیں کہ جنہیں راستے میں صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا؟ ایسی جدوجہد جو ایک متشدد اور طاقتور مخالف کے خلاف ہو اس میں موت کا خطرہ تو رہتا ہے تو کیا جدوجہد چھوڑ دیں؟ مرنے کے ڈر سے جینے کا حق جانے دیں؟ آپ تاریخ سے چیری پکنگ نہ کریں، آیوو جیما پر جھنڈا لہرانے والے پانچ امریکی سپاہیوں کے پیچھے ان کے ساتھیوں کی لاشیں بھی تھیں، کامیابی صرف زندہ رہنے والوں کی نہیں تھی۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں قربان ہونے والے لاکھوں افراد اس آزادی کی بنیاد رکھ رہے تھے جو کانگریس یا مسلم لیگ کے زعما نے حاصل کی جس کو ان کی کامیابی کہا جاتا ہے۔ مگر آپ ان لاکھوں کارکنوں کو بھول نہیں سکتے جو اپنے لیڈروں کے ساتھ کھڑے رہے۔ ضیا دور میں حکومتی جبر کا شکار ہونے والے سیاسی کارکنوں، وکلا اور صحافیوں کو کیا بھلایا جا سکتا ہے؟ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں جو جان سے گئے وہ نعرے بازی کی بیماری کا شکار تھے اور وہ نہ کرتے جو انہوں نے کیا تو زندہ رہتے بجائے اس کے کہ سولی چڑھتے، جیل جاتے، کوڑے کھاتے، کیونکہ ان کی قربانیاں بھی بظاہر ضائع ہوئیں اور منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، مگر کیا سفر ختم ہو گیا؟

یہ جو آپ آج اپنی راۓ کا اظہار کر رہے ہیں یہ ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جن کو آپ نعرے باز جذباتی گردانتے ہیں۔ آپ اگر آج بحیثیت لکھاری مشہور ہو رہے ہیں تو ان کو نہ بھولیں جو سخت مشکل حالات میں آزادی اظہار کے لئے قربانیاں دیتے رہے، وہ جذباتی نعرے باز نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ سلمان تاثیر کو بھی جذباتی اور بے پرواہ کہا جاتا ہے، مگر سوچیں کہ اس شخص کی قربانی نے اس کے مقصد اور آواز کو کہاں تک پنہچا دیا، اس کے جانے سے اس کے مقصد کی موت نہیں ہوئی۔ یہ آوازیں نہ اٹھیں تو ظلم و جبر کو کون اور کیسے روکے؟ مقصد کے حصول کے لئے ایک اور دن جینے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے مگر موت کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے، کچھ مقاصد سر پر کفن باندھ کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔

زندگی اور موت انسان کے اپنے بس میں نہیں، بہادروں کو اچھی طرح یاد رکھیں اور ظلم کو ظلم کہنا سیکھیں، ظالم کو بھول کر مظلوم پر الزام نہ دھریں۔ اگر ایسے لوگ تھے جو اپنے مفادات کے لئے خرم کو اکسا کر یہاں تک لے آئے اور اگر آپ انھیں جانتے ہیں تو ان کو بھی کھل کر للکاریں، مگر خرم کی نیت اور اپنے مقصد سے بے پناہ لگاؤ کو احترام اور عزت دیں۔ ایسے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو مقصد کے لئے موت کو گلے لگا سکیں۔ یوسفی صاحب نے لکھا ہے کہ سچ کا اپنا لمحہ ہوتا ہے، وقت کے بعد سچ بولنا بیکار ہے۔ صرف جیئں نہیں زندوں کی طرح جیئں، جہاں تک ہو سکے جیئں، مر کر بھی جیئں۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/18283/naveed-ali-2/

Comments

comments