زندان کی چیخ – قسط چار – از حیدر جاوید سید

zindan-ki-cheekh-2-768x354

کتنی دیر خیالوں میں والدہ صاحبہ سے باتیں کرتے گزر گئی اس کا اندازہ قیدی کو نہیں۔ البتہ اردگرد کوٹھڑیوں سے برتن کھڑکنے اور بھیا کی آواز روٹی لے لو کان میں پڑی تو خیالوں کی دنیا سے واپسی ہوئی۔ بھیا آیا اور چلا بھی گیا۔کافی دیر بعد مجھے یاد آیا کہ میری تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے کوٹھڑی میں واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا۔ ’’بھیا کو کہنا اسے شام کو کھانا نہ دے‘‘۔ ظاہر ہے اسی لئے اس لانگری نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان بھی کیا چیز ہے۔ مصروفیات دنیا میں کبھی ایک دو وقت کاکھانا خود سے نہ کھائے یاکھانے کے لئے وقت نہ ملے تو ذرہ بھی بھوک کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہاں شاہی قلعہ کے تہہ خانے میں بنی ان چار کوٹھڑیوں میں سے کوٹھڑی نمبر1 کے قیدی کو جیسے محسوس ہوا کہ بھیا واپس چلا گیا ہے تو عجیب سی بے چارگی کے احساس نے گھیر لیا۔ میں خوش خوراک تو خیر سے کبھی بھی نہیں رہا اور پچھلے سال بھر کے دوران میری کوشش یہی رہی کہ صبح ناشتہ کر کے شام کو ہی کھانا کھاؤں۔ غالباََ لاشعوری طور پر خود کو مستقبل کے امتحانوں کے لئے تیار کر رہا تھا۔ لانگری بھیا باقی تین قیدیوں کو کھانا دے کر چلا گیا تومجھے بھوک کے احساس نے آن گھیرا۔

دل کو تسلی دی کہ قیدی ہیں آزاد شہری نہیں۔ اور قیدی بھی ایسا کہ اب تک جتنا تشدد ہوا اور جتنی بار مجھ سے بھارت جانے کے بارے میں دریافت کیا گیا اس کی وجہ سے کسی کسی وقت میں خود بھی یہ سوچنے لگتا تھا کہ ایسا تو نہیں کہ میں واقعتاََ بھارت گیا ہوؤں اور اب بھول رہا ہوں۔پھر خود ہی سوچتا کہ میرے دوست تو میری یاداشت کی مثالیں دیتے ہیں۔یہ وحشیانہ تشدد اور بیہودہ سوالات مجھے ذہنی مریض نہ بنا دیں۔ ان لمحوں میں مجھے یاد آیا کہ میری امی جان نے ایک دن مجھے کہا تھا’’جاوید بیٹے! کبھی مشکل پیش آئے تو سورۃ کوثر پانچ بار پڑھ کر خود پر پھونک مار لیا کرو‘‘۔ جونہی مجھے والدہ کی یہ بات یاد آئی بے اختیار میں نے سورۃ کوثر کی تلاوت شروع کر دی۔

کچھ دیر بعد مجھے اپنے اندر ایک نئی تازگی اور توانائی محسوس ہونے لگی۔ یاد نہیں کتنی بار سورۃ کی تلاوت کی البتہ یہ احساس آج بھی ہے کہ شائد گھنٹہ بھر تک تلاوت کرتا رہا۔ اسی عالم میں نجانے کب آنکھ لگ گئی۔ سچ ہے کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ رات کے کسی پہر کھڑکے سے آنکھ کھلی۔ اوسان بحال ہوئے تو یاد آیا کہ گارڈ ڈیوٹی تبدیل کرتے ہیں تو اس طرح کا کھڑکا ہوتا ہے اور پھر گارڈ باری باری چاروں کوٹھڑیوں کے قیدیوں کا نام لے کر ان کے زندہ و موجود ہونے کا یقین کرتا ہے۔کچھ ہی دیر میں نئے گارڈ نے کوٹھڑی نمبر ایک کے سلاخوں والے دروازے کے آگے لگی لوہے کی چادر میں بنی ہوئی کھڑکی کھولی اور مجھے پکارتے ہوئے کہا۔ ’’شاہ! موجود ہو نا‘‘؟ ’’جی ہاں موجود ہوں‘‘ میں نے جواب دیا۔

اس نے جھٹ سے وہ روزن دان بند کردیا جیسے میں اس میں سے نکل کر بھاگ جاؤں گا۔ گارڈ نے روزن دان بند کیا تو میں دیوار سے ٹیک لگا بیٹھ گیا۔ اب کے خیالِ یار نے آن گھیرا تھا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ رفیق نازل ہو گیا۔ ’’شاہ آج تجھے روٹی نہیں ملی‘‘؟ اس نے پوچھا۔’’جی۔ افسروں کا حکم تھا‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’دیکھو تم کرنل صاحب اور اعوان صاحب کو سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ تم نہیں جانتے یہ شاہی قلعہ ہے۔ پیدائشی گونگے بھی یہاں فر فر بولنے لگتے ہیں۔ بھارت اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔ ہندو چاہتے ہیں پاکستان کو واپس بھارت میں شامل کر لیں۔

اور مسلمان بچیوں کی عزتیں لوٹیں۔ اسی لئے وہ تم جیسے نوجوانوں کو ورغلا کر بھارت لے جاتے ہیں وہاں چند دن عیش کرواتے ہیں اور تم جیسے ضمیر فروش وطن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش میں شریک ہو جاتے ہیں۔ چلو شاہ ویسے یہ بتاؤ وہ ہندو لڑکی کتنی خوبصورت تھی جس کے ساتھ تم ہفتہ بھر عیش کرتے رہے؟ کچھ کیا بھی یا صرف سیر سپاٹا کرتے رہے‘‘؟ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے کہا وہ جو مسلمان حملہ آور یہاں آئے تھے۔ انہوں نے یہاں کیا کچھ نہیں کیا۔ تمہارے حضرت محمود غزنوی نے ملتان کو جلا کر راکھ کیا۔ ہزاروں مسلمان لڑکیاں اور لڑکے اغوا کر کے افغانستان لے گیا۔ وہاں انہیں فروخت کیا گیا‘‘۔ ’’بکواس بند کرو حرامی کتے۔

ہندوؤں کے یار ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے تم اسلام کی عظیم شخصیات پر گند اچھال رہے ہو۔ اسلام پھیلایا حضرت محمو غزنوی نے ورنہ یہاں آج کفر کا راج ہوتا‘‘۔ رفیق نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے جتنا اسلام اس نے اوراس جیسے دوسرے حملہ آوروں نے پھیلایا‘‘۔ رفیق پھر گالیاں دینے لگا۔ کہنے لگا میں آیا تھا کہ تمہیں سمجھاؤں اور افسروں کو کہہ کر روٹی دلواؤں لیکن تم کتے کی دم ہو۔ کوئی بات نہیں تمہاری ۔۔۔۔۔ کا یار تمہارے سارے کس بل نکال کر رکھ دے گا‘‘۔ ’’دیکھ لیں گے جو ہو گا۔ پہلے کون سا مجھے پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں‘‘۔ میرے جواب پر گالیاں دیتا ہوا چلا گیا۔

مجھے شدید غصہ آرہا تھا۔ ایک تو جھوٹے الزام اوپر سے گندگی بھری باتیں۔ سالے دعویٰ اسلام کا کرتے ہیں اور باتیں کنجروں والی۔ پھر اپنی ہی بات پر ہنس پڑامیں۔ پاکستان میں تو کنجر بھی مسلمان ہوتے ہیں۔ بھارت میں ہندو اور امریکہ میں عیسائی ہوں گے۔ میں نے خود سے کہا۔ بھوک تو خیر مجھے نہیں لگی تھی مگر غصہ بہت تھا۔ میں عام زندگی میں کسی کو گالی دیتا نہ سنتا تھا۔ یہاں قدم قدم پر گالیاں سننے کو مل رہی تھیں۔ لگتا تھا بڑے چھوٹے سب گالیوں کی پیداوار ہیں۔ بہت عجیب حالات سے دوچار تھا۔ جو میں نے کیا نہیں اس کی تفتیش ہو رہی تھی۔

فوجی حکومت سے شدید نفرت تھی اور ہے مجھے مگر میں بھارت کس لئے جاؤں گا۔ ایک سا صحافی جو کراچی سے چھپنے والے ایک ہفت روزہ کا ایڈیٹر ہو اور ہفت روزہ مشکل سے سات سو کے قریب شائع ہوتا ہو اس کے ایڈیٹر کو کون جانتا ہوگا بھارت میں۔ یہ حرام خور ہیں تشدد کرسکتے ہیں یا گالیاں دے سکتے ہیں۔ مار دیں گے تو مار دیں کیا فرق پڑے۔ اپنے آپ سے باتیں کرتے پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا۔ کل کے ملے ہوئے سگریٹوں میں سے ایک باقی تھا۔ گارڈ سے کہہ کر وہ سلگوایا اور گہرا کش لے کے غم غلط کرنے لگا۔

Source:

http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-4/

Comments

comments