زندان کی چیخ – تیسری قسط – از حیدر جاوید سید
اہلکار مجھے کوٹھڑی میں ڈال کر چلے گئے۔ سارا جسم دکھ رہا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے وہ مرچیں تھیں یا کوئی اورکیمیکل جس کی وجہ سے آنکھوں میں شدید جلن ہو رہی تھی۔ تقریباََ سات فٹ چوڑی اور دس فٹ لمبی اس کوٹھڑی میں ہی ضروریات سے فراغت کے لئے ایک پاٹ رکھا ہوا تھا۔دوسرے کونے میں ایک چھوٹا سا گھڑا اور مٹی کا گلاس۔ کوٹھڑی میں روشنی اس جالی نما گرل سے چھن چھن کر آتی تھی جو چھت میں لگی ہوئی تھی۔ بلب اس گرل سے اوپر کی سطح پر لگایا گیا تھا۔ خود اس کوٹھڑی کی چھت مشکل سے چھ فٹ بلندی پر ہوگی۔ سامنے ایک چاک و چوبند سنتری جو ہر تین گھنٹے بعد تبدیل ہو جاتا تھا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس پہلی قیام گاہ میں تقریباََ دو ماہ رہا لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کبھی ایک وقت میں کوٹھڑی کے باہر ڈیوٹی دینے والا اہلکار دوبارہ بھی ڈیوٹی پر آیا ہو۔ غالباََ یہ انتظام تھا کہ قیدی اور گارڈ کے درمیان کوئی شناسائی نہ بننے پائے۔ بھیا باورچی صبح چائے رس دے جاتا۔ وہی پانچ سگریٹ بھی روزانہ دے جاتا۔ سپر نامی سگریٹ کے پانچ ’’دانے‘‘۔ ماچس کوٹھڑی سے باہر کھڑے گارڈ کے پاس ہوتی تھی۔
طلب محسوس ہوتی تواسے سگریٹ دیکھاتے وہ سمجھ جاتااور باہر سے دیا سلائی جلا کر سگریٹ سلگوا دیتا۔صبح ایک کپ چائے اور ایک رس۔ پھر تقریباََ پانچ ساڑھے پانچ بجے سہ پہر کے قریب چنے کی دال اور روٹی۔ میں ایک روٹی لیتا تھا وجہ یہ تھی کہ ٹائلٹ کا ’’سامان‘‘ کوٹھڑی کے اندر ہی رکھا تھا۔ وہ چوبیس گھنٹے کے بعد جمعدار صاف کرتا۔ اس لئے کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے حصے کی دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی ہی لی جائے۔ سردی شدید تھی۔ گرفتاری کے وقت جو کوٹ اور سوئٹر پہن رکھا تھا وہ ملتان پولیس اور ملتان میں ہی آئی بی کے اہلکاروں کی دیانت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایک ہاف سوئٹر تھا اس سے سردی کتنی روکی جا سکتی تھی؟ دو مجلگے سے کمبل تھے ایک فرش پر بچھایا ہوا تھا اور دوسرا اوپر اوڑھنے کے لئے۔ اذیت بھری اس تہنائی میں مجھے سب سے زیادہ اپنی والدہ یاد آتیں۔ تشدد سے ملی اذیت ناقابلِ برداشت ہونے لگی توآنکھیں بند کر کے خود کو والدہ کے روبرو تصور کرتا اور پھران سے حالِ دل بیان کرنے لگ جاتا۔ ایسے میں کبھی کبھی مجھے یوں بھی لگتا کہ والدہ صاحبہ میرے ماتھے پر بوسہ دیتے وقت اپنے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔
کبھی یوں بھی لگتا کہ وہ کہہ رہی ہوں ۔دیکھو میرے چاند۔گھبرانانہیں۔ میں دعا کرتی رہتی ہوں۔ بس حوصلے کے ساتھ ہر مشکل کا مقابلہ کرنا۔ شدید سردی اور اذیت بھرے ان لمحات میں مجھے خیالوں میں اپنی والدہ سے باتیں کرنااچھا لگتا تھا۔ رفیق نام کاایک اہلکار ہر چار گھنٹے بعد مجھے دیکھنے آتا۔ اسکا اپنی آمد کے بعد ہمیشہ ایک سوال ہوتا۔ ’’شاہ ! تم نے کیا سوچا؟‘‘ ’’کس بارے میں؟‘‘ میں دریافت کرتا۔وہ کہتا ’’سچائی بتانے پر تیا رہو کہ یونہی مارکھاتے رہوگے؟ تمہیں نہیں معلوم شاہ ۔ یہ بڑے ظالم لوگ ہیں ۔ بندے کو فرفر بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں‘‘۔ ایک دن رفیق آیا تو کہنے لگا۔
’’شاہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے‘‘؟ ’’میری مرضی‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’مرضی کے بچے‘‘، دو تین ناقابلِ برداشت گالیاں دینے کے بعد اس نے کہا۔ ’’سب درست کہتے ہیں تم ہندو ہو چکے ہو بھارت میں مقیم ایک ہندو لڑکی کے عشق میں۔ شاہ وہ سوہنی تھی یا گزارا تھا‘‘؟ اس نے پوچھا۔ میں نے کہا ’’میں بھارت گیا ہی نہیں۔ کسی ہندو لڑکی سے ملتا کیا اور عشق کیا کرتا‘‘۔ ’’بڑے گہرے بندے ہو تم لیکن کوئی بات نہیں۔ اس کنوئیں سے نکلو گے تب ہی جب سچ اگل دو گے۔ ورنہ یہیں مر کھپ جاؤ گے۔ لاش کوجلاکر راکھ کہیں گندے نالے میں پھینک دیں گے‘‘۔ رفیق کی یہ تقریر تقریباََ روزانہ ہی سننا پڑتی۔
اس دن بھی جب فلک شیر والی تفتیشی ٹیم کے پاس سے واپس کوٹھڑی میں پہنچایا گیاتوکچھ دیر بعد رفیق آن موجود ہوا۔ ’’شاہ جی تم سے ایک بات کرنی ہے‘‘ ’جی بولیں‘‘ تم سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ یہ ملک صاحب تمہارے علاقے کا ہے۔ بڑا نرم دل انسان ہے۔ تم تعاون کرو تو وہ تمہیں رعایت دلوا سکتا ہے‘‘۔ ’’ میں کیا تعاون کروں؟ جو بات میرے علم میں ہی نہیں جہاں میں گیا ہی نہیں اس بارے میں کیا سچ بولوں‘‘؟ کہنے لگا ’’میں تو ملک جی کے کہنے پرتمہیں سمجھانے آیا تھا۔
ورنہ دوسرے بڑے افسر توتمہاری کھال کھینچ لینا چاہتے ہیں سچ اگلوانے کے لئے۔ تم نے ابھی تفتیشی ٹیمیں دیکھی نہیں۔ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ دو منٹ میں بندہ بولنے لگتا ہے فرفر‘‘۔رفیق مشورے، دھمکیاں ، رعایت کا لالچ سب دے سناکر چلا گیا تو میں سوچنے لگا۔ یہ کیسے لوگ ہیں سچ کو جھوٹ سمجھتے ہیں اپنی مرضی کا بیان لینا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ بھی دوں تو کیسے جب بھارت گیاہی نہیں تو کیسے مان لوں۔ان لمحوں میں مجھے اپنے دوست محمد ڈینوں کی والدہ یاد آئیں۔ میں سکھر کے قریب اس کے گاؤں میں چند دن رہ کرروانہ ہونے لگا تو انہوں نے مجھے پیار کرتے ہوا کہا تھا۔ ’’ شاہ زادے ( وہ ہمیشہ مجھے شاہ زادہ ہی کہہ کر بلاتی تھیں) میرا دل کہتا ہے کہ تم گوٹھ سے باہر نہ جاؤ۔ حالات بہت خراب ہیں۔
یہ منحوس ضیاء الحق تمہیں نہیں چھوڑے گا‘‘۔ان کے گھٹنے چھوتے ہوئے میں نے عرض کیا’’ اماں دعا کرنا۔ سال بھر سے تو پکڑا نہیں گیا۔ آگے اللہ مالک ہے۔ میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے لئے بہت اداس ہوں۔ فوج اور پولیس والے میرے گھر والوں کو تنگ کرتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ ایک بار والدہ کی زیارت کر لوں‘‘۔ خیالات کی پرواز میں نجانے کس وقت آنکھ لگ گئی۔ درد کی شدت سے آنکھ کھلی۔ غالباََ میں نے سوتے میں بائیں طرف کروٹ لے لی تھی۔ تشدد کے دوران جسم کے بائیں حصے پر زیادہ چوٹیں لگی تھیں۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کوٹھڑی کے باہر موجود گارڈ کے چہرے کو دیکھ کر احساس ہوا کہ کافی دیر ہو گئی ہے۔ گارڈ تبدیل ہو چکا ہے۔ درد ، سردی ، اور نقاہت تینوں نے مل کر جو حشر کیا وہ بیان سے باہر ہے۔ وقت گزارنے کے لئے اپنا نسخہ آزماتے ہوئے خیالوں میں والدہ سے باتیں شروع کر دیں۔
جاری ہے۔۔۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-3/