BB’s Assassination: A Strategic Murder – by Hasan Mujtaba
ڈاکٹر سکندر نیویارک میں ٹیکسی چلا رہے تھے جب ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کو پارک ایوینیو پر انہیں پاکستان سے ان کی بیٹی نے فون پر بتایا کہ بینظیر کو قتل کردیا گيا ہے۔ ڈاکٹر سکندر نے وہاں ٹیکسی کھڑی کی، وہ سکتے کے عالم میں آگۓ اور آنے والے چند دن انہہوں نے دل پر سٹریس کے مریض کے حیثیت سے ہسپتال میں گذارے۔
پاکستان اور پاکستان سے باہر ایسے لوگ ہزاروں اور لاکھوں میں ہونگے جن پر بینظیر بھٹو کے قتل کی سونامی جیسی خبر کی لہر گزر گئی تھی۔ بالکل ایسے جیسے استاد دامن نے فیض احمد فیض کی موت پر کہا تھا ’ساڈے اتے قیامتاں گذرگئياں نے۔‘
بینظیر بھٹو جنھیں جب ان کے دوستوں نے نیویارک میں کہا تھا کہ وہ پاکستان مت جائيں جہاں انکی زندگي کو سخت خطرہ ہے تو انہوں نے اسے مذاق میں ٹالتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیویارک میں تیز رفتار ٹیکسی کے نیچے آکر بھی تو مرسکتی ہوں‘۔ انھوں نے ضیاء الحق کی موت پر کہا تھا ’خدا کا شکر ہے ہم میں سے بہت سوں کے سروں سے موت ٹل گئي‘۔
لیکن موت ٹلی نہیں۔
پاکستان کی دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا تجزیہ یہ ہے کہ ’بینظیر کا قتل سٹریٹجک قتل تھا‘
پندرہ اپریل دو ہزار دس کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں بینظیر بھٹو کے قتل کے حالات و حقائق جاننے کیلیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی درخواست پر قائم کی جانیوالی کمشین کی رپورٹ پبلک کیے جانے والے دن یو این میں پاکستان کے مستقل سفیر حسین عبداللہ ہارون کو اقوم متحدہ میں پریس کانفرنس کرنا تھی۔
وہ پریس کانفرنس منٹوں اور گھنٹوں کے التوا کے بعد آخر کار ہمیشہ کیلیے ملتوی کردی گئي۔ یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ جس دن اقوام متحدہ کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل کے حالات و حقائق پر مبنی رپورٹ کا اعلان ہونا تھا اس دن پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی امریکی دورے پر نیویارک میں موجود تھے۔
بینظیر بھٹو کمیشن جسکے سربراہ چلی کے ہیرالڈو منوز تھے جو نہ صرف چلی کے سابق سینیئر سفارتکار تھے بلکہ گیار ستمبر انیس سو تہتر کو فوجی آمر اگسٹو پنوشے کے ہاتھوں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے وقت ہلاک ہونیوالے صدر سلواڈور آلیندے کے قریبی ساتھی کے طور وہ انکے ساتھ کام بھی کرچکے تھے۔
چلی اور پاکستان جیسے ایک ہی قسمت والے دیسوں میں کتنی مماثلت ہے اور اسی لیے شاید لاس ایجنلیس ٹائمز نے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو اپنے ایک اداریے میں پاکستان کا پنوشے قرار دیا تھا۔ اور دونوں آمروں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت ایک جسی خوش قسمتی اور پروٹوکول پایا۔
Comments
Latest Comments
پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو جواب مل پائے گا؟
فراز ہاشمی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
فائل فوٹو
ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کی شام بنظیر بھٹو کو منظر سے ہٹانے والوں نے کئی لوگوں سے ان کی امید ہی چھین لی
کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتوں کا وجود جسم میں روح کے مترادف ہوتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں جمہوری معاشرے کی روح رواں ہوتی ہیں۔اگر کسی جمہوری نظام حکومت میں اس کی روح یعنی سیاسی جماعتوں کو نکال دیا جائے تو وہ جمہوری نظام رہ نہیں سکتا۔
پاکستانی عوام سیاسی جماعتوں کی اہمیت سے واقف ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ جسے عرف عام میں ایسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے یہ بات بہت اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے۔
اسی لیے اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہر دور میں ایشٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کا جنم ہوتا رہا اور ان گنت مسلم لیگیں اس کے سایۂ عاطفت میں پروان چڑھیں۔لیکن ان میں بہت سے وقت کے ساتھ دم توڑ گئیں یا انھوں نے اپنی افادیت کو کھو دیا۔
ایسٹیبلشمنٹ ایک طرف تو سیاسی جماعتوں کو جنم دیتی رہی لیکن ہر اس سیاسی جماعت کے درپے بھی رہی جس کی بنیادیں عوام میں سرایت کر گئی ہوں یا اس کا اندیشہ ہو کہ اسے عوامی قبولِ عام حاصل ہو جائے گا۔ مبصرین مفتق ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی ایک سیاسی جماعت ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں کے عوام میں پائی جاتی ہیں۔
مگر عوام میں جڑیں رکھنے والی یہ واحد جماعت ہے جو ہر فوجی حکمران کے دور میں صعبوتوں اور مصیبتوں کا شکار رہی۔
صدر ایوب کے خلاف تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے اس کے کارکن ہردور میں قیدو بند کے علاوہ ریاستی جبر کا شکار رہے لیکن اپنی جماعت سے مخلص اور جمہوریت پر ثابت قدم رہے۔
ایسے کارکنوں کی خدمات کا جو انتہائی نامساعد حالات میں جمہوری نظام کے لیے لڑ تے رہے اور مار کھاتے رہے کبھی کسی نے اعتراف نہیں کیا۔ خود پیپلز پارٹی کے رہنما مانتے ہیں کہ حکومت تو کجا پارٹی کے اندر بھی ان کارکنوں کی خدمات کو جس طرح سرہایا جانا چاہیے تھا سراہا نہیں گیا۔ملک کی حقیقی سرحدوں پر جان دینے والے جوانوں کی طرح ملکی کی نظریاتی سرحدوں اور جمہوری نظام کے لیے بغیر تنخواہ اور لالچ کے صرف اپنی سوچ اور نظریے کے لیے جان قربان کرنے والے غریبوں کو خود پیپلز پارٹی کے ایامِ اقتدار میں بھی وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔
جس طرح جمہوریت کی روح سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں، سیاسی جماعتوں کی روح سیاسی کارکنوں میں ہوتی ہے۔
اگر روح نہ رہے تو جسم باقی رہے جاتے ہیں ان میں زندگی باقی نہیں رہتی۔
پیپلز پارٹی کی یہ روح، جان ہتھیلی پر لیے سڑکوں پر نکل آنے والے ان کارکنوں کو کوئی آمر ختم نہیں کر سکا لہذا پارٹی بھی زندہ رہی اور ملک میں جمہوری نظام کو یہ کارکن جس حد تک ہو سکا اپنے خون سے سینچتے رہے۔
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کی شام بے نظیر بھٹو کو منظر سے ہٹانے والوں نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے ان کی امید ہی کو چھین لیا۔
البتہ پارٹی کو اقتدار مل گیا۔اور اس اقتدار کے ساتھ ملی ایک عارضی زندگی۔
بینظیر کے قتل کی تیسری برسی پر جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوری نظام کو وفاق کی ضمانت تصور کرنے والوں کے ذہنوں میں ایک سوال شدید کشمکش کا باعث ہے۔
کیا اقتدار کے عارضی ریس پیریٹر کے ہٹائے جانے کے بعد بھی پارٹی زندہ رہ سکے گی۔ کیا کوئی ایسی شخصیت پارٹی میں ابھر کر سامنے آ سکتی ہے جو کارکنوں کی امیدوں کا محور بن سکے۔
آج پارٹی کے جلسوں میں ’نہ روٹی چاہیے نہ کپڑا چاہیے، بینظیر کے قاتلوں کا سر چاہیے‘ کے نعرے سنے جاتے ہیں۔ کیا پارٹی کارکنوں کو ان نعروں کا کبھی جواب مل پائے گا یا نہیں۔
I agreed A strategic Murder ,{DR Ayesha Siddiqa}
salute to SBB Struggle for Democracy !