زندان کی چیخ – دوسری قسط – از حیدر جاوید سید

zindan-ki-cheekh-2-768x354

’’ہاں بھئی بچو کتنی بار بھارت گئے ہو‘‘؟’’کبھی نہیں گیا‘‘ ۔’’بکواس بند کرو ۔ ہمارے پاس تصویریں اور ثبوت موجود ہیں ۔ بھارت ہی پالتا ہے تم جیسے لوگوں کو جو اسلام اور پاکستان پر بھونکتے ہیں‘‘ ۔ میرا جواب حسب سابق تھا ۔ بھارت گیا ہی نہیں مان کیسے لوں ۔ تم کیا تمہاری ۔۔۔۔۔تو ۔۔۔۔مانے گی۔ آپ کو میری میری ماں کو گالیاں دینے کا کوئی حق نہیں ۔ اچھا اب تم ہمیں بتاؤ گے ہمیں کیا کہنے اور پوچھنے کا حق ہے۔ چند گالیاں دان ہوئیں اور تھپڑ پڑے ۔ پھر شفیع نامی ڈی ایس پی نے کہا ۔ ’’سر جی! (وہ کرنل رفیق لغاری کو مخاطب کر رہا تھا) اے بڑا چا لا ک منڈا اے ۔ ایندے نال دوجا کم کرنا پئے گا‘‘۔

کرنل نے اثبات میں سر ہلایا تو ڈی ایس پی نے کارندے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں نجانے کیا کہا دو تین افراد مجھ پر جھپٹے ۔ تھپڑ مکے لاتیں ، کا فی دیر تک تواضع جاری رہی۔ پھر کھڑا ہونے کا حکم ہوا ۔ وہی پرانا سوال تھا بھارت کتنی بار گئے ؟ ’’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں بھارت کبھی نہیں گیا ۔ میں مارشل لاء کا مخالف ہوں ۔میرے بارے میں ساری معلومات موجود ہیں ۔ فائل میز پر رکھی ہے‘‘ ۔ ’’اچھا جی تم ہمیں بیوقوف سمجھتے ہو۔ بچو جب تم نے فورٹ عباس سے بارڈر کراس کیا تھا ہماری اس وقت سے ہی تم پر نگاہ تھی‘‘۔ ’’لیکن میں کبھی فورٹ عباس گیا ہی نہیں ۔

کراچی میں ہفت روز جدوجہد کا ایڈیٹر تھا ۔ مارشل لاء کے حکم پر پرچہ بند کردیا گیا میرے اور ظفر میمن ( یہ پرچے کے مالک او ر چیف ایڈیٹر تھے) کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا تھا‘‘۔ ’’یہاں تک تو ٹھیک ہے تقشیشی افسر نے کہا ۔ لیکن ہم تم سے تمہارے بھارت جانے اور وہاں کس کس سے ملا قات ہوئی تھی اور کس کے لئے کیا پیغام لائے تھے یہ جاننا چاہتے ہیں‘‘۔

’’دیکھو نوجوان ہمیں مجبور نہ کرو تم ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ٹیپ ریکارڈ کی طرح بجنے لگو گے‘‘۔کرنل لغاری نے کہا ۔ ’’ایک نہیں سچ اگلوانے کے سوسو طریقے ہیں ہمارے پاس‘‘ ۔ دوسرے افسر نے دھمکاتے ہوئے کہا ۔ میں خاموش رہا ۔ ظاہر ہے جو با ت غلط بلکہ بے بنیاد تھی کیا جواب دیتا ۔ اتنے میں قریب کھڑ ے اہلکار نے اپنے ہاتھ میں پکڑے بید(چھڑی) سے مارنا شروع کر دیا ۔ کچھ دیر یونہی تشدد ہوتا رہا پھر کرنل نے حکم دیا اس کے کپڑے اتارو ۔تینوں اہلکار مجھ پر جھپٹے۔ میں نے کچھ دیر مزاحمت کی لیکن قیدی کتنی دیر تک مزاحمت کر سکتا ہے ۔ با لآ خر انہوں نے میرے کپڑے اتار دیئے ۔ دوبارہ ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور پہلے دن کی طرح بازوؤ ں اور گردن کے درمیان با نس پھنسا دیا گیا ۔ ڈی ایس پی شفیع اپنے کرسی سے اٹھا ۔اور اس نے اپنا سلگتا ہوا سگریٹ میرے جسم کے نازک حصہ پر لگا دیا

ایک دو نہیں درجن بھر سے زیادہ بار شقاوت سے بھرا عمل ہوا ۔ میں نہیں کہتا کہ پیٹا رویا نہیں البتہ مارشل لاء سے نفرت مزید گہری ہوتی گئی۔ ظالموں نے اس پر بس نہ کیا بلکہ ایک اور اہلکار جو تشدد کے آغاز سے قبل مجھے قرآنی آیات اور احادیث سنا کر سچا مسلمان بننے کی تلقین کررہا تھا آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پلاس سے اس نے میرے جسم کے بعض حصوں سے بال نوچنا شروع کر دیے ۔ تہہ خانے کے اس بال نما کمرے سے میری چیخیں باہر کیا جانی تھیں ۔ اور کس نے مدد کو آنا تھا ۔ ایک قلبی اطمینان ضرور تھا کہ میری دعائیں کرنے والی ماں زندہ ہے وہ دعاکر رہی ہو گی ۔میں مروں گا بھی نہیں ۔ اچھا اگر مر بھی گیا تو کیا ہوگا ۔ مار کھانے کے دوران نجانے کیا کیا سوچتا رہا ۔

حواس ٹھکانے اس وقت آئے جب ڈی ایس پی نے کہا ’’بچو جی یہاں جو غدار مر جاتا ہے اس کی لاش کو ہم جلا دیتے ہیں‘‘۔ ’’مگر میں تو مسلمان اور سید ہوں میری لاش کیسے جلا سکتے ہو‘‘؟ ’’اچھا اس کی اکڑ ابھی گئی نہیں‘‘ ۔ اسی دوران بال میں ایک اور آدمی داخل ہوا اور اس نے ڈی ایس پی کو ڈانٹتے ہوئے کہا شفیع منڈامارنا ای (لڑکے کو مارنا ہے کیا ) اس کے کہنے پر میری ہتھکڑیاں کھل گئیں ۔ پھر اس نے کہا شاہ جی کپڑے پہن لو ۔

جسم کے وہ جو سگریٹ سے داغے گئے تھے ان زخموں میں شدید جلن ہورہی تھی ۔ کرنل لغاری ، ڈی ایس پی شفیع اور دیگر افراد بال سے چلے گئے ۔ نئے آنے والے افسر اور اس کے چار ساتھی بال میں رکھی کرسیوں پر بر اجمان ہوگئے ۔ اس کے اشارے پر دو افراد نے مجھے پکڑ کر فرش سے اٹھایا اور کرسی پر بٹھا دیا ۔ صادق کہہ کر اس نے آواز دی تو ایک اہلکار بال میں داخل ہوا ۔ بھیا سے کہو ایک کپ چائے لائے ۔ بھیا اس باورچی کا نام تھا جو صبح شام شاہی قلعہ کے قیدیوں میں ناشتہ اور کھانا دیتا تھا ۔ بھیا کچھ دیر بعد چائے کا کپ لے آیا اور بغیر پوچھے میرے سامنے رکھ دیا ۔

نئے تفشیشی افسر کے ساتھ آئے ہوئے ایک اہلکار نے ساتھ والی میز پر رکھے تھرماس اور خالی کپ اٹھائے ان میں چائے ڈالی اور خود سمیت باقی چار افراد کے آگے رکھ دی ۔ شاہ جی چائے پیو۔ تفشیشی افسر نے مجھے کہا ۔ بے رحمانہ تشدد سے نڈھال لرزتے ہاتھوں سے چائے کا کپ اٹھایا اور چائے پینے لگا ۔ آج 36سال بعد مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ جس قدر لطف اس دن چائے کے اس کپ نے دیا ایسا لطف دوبارہ کبھی چائے پیتے ہوئے نہیں آیا ۔ گرم چائے کے کپ سے اندر ٹکور ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اکرم شاہ جی کو سگریٹ دو ۔ اس نے ایک اہلکار کو کہا ۔ اہلکار نے جس کے آگے سگریٹ کی ڈبیا پڑی تھی اٹھا کر اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگائی اور پھر مجھے دے دی ۔

’’شاہ جی ملک فلک شیر اعوان میرا نام ہے‘‘۔ نئے تفتیشی اپنا تعارف کروایا ۔ اگلا سوال تھا شاہ جی سنی ہو یا شعیہ ؟ دو نوں ہی نہیں میں نے کہا ۔ مجھے ان فرقوں اور ان کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ’’آپ کے والد فو ج میں تھے ۔ مولانا مودودی کو ختم نبوت کی تحریک کے دوران ہوئی سزائے موت پر رد عمل کے الزام میں سبکدوش کر کے گھر بھیج دیا گیا ۔ شاہ جی تمہاری والدہ صاحبہ بہت بڑی عالمہ ہیں ۔ ملتان میں خواتین کے اجتماعات اور محفل میلاد سے خطاب کرتی ہیں ۔

وعظ والی بی بی کہتے ہیں لو گ انہیں احترام کے ساتھ‘‘. جی میں نے جواب دیا ۔ بخار ی صاحب ( میرے والد کا نام لیا اس نے) جماعت اسلامی میں ہیں ؟ جی ہاں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک انتہائی مذہبی خا ندا ن کا نوجوان مذہب سے اتنا بیزار ہوا کہ ملک دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان اور اسلام کے خلاف کام کرنے لگ گیا؟ اس کی سوال نما بات مکمل ہوئی تو میں نے جواب میں کہا مذہب بارے میری رائے یہ ہے کہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے ۔

سیاسی عمل یا نظام ہائے حکومت سے مذہب کا تعلق نہیں ۔ میں بھی ان دوسرے لوگوں کی طرح ہوں جو پاکستان میں ایک ایسی حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جو طبقاتی بالا دستی سے محفوظ ہو ۔ مطلب یہ کہ آپ مذہب کو نہیں ما نتے ۔ جی نہیں ۔ حقیقتوں کا انکار نہیں ہوتا لیکن مذہب اور ریاست کا کوئی تعلق نہیں ۔ پاکستان تو اسلام کے نام پر قائم ہے اعوان کے نام سے تعارف کروانے والے تفتیشی افسر نے کہا ۔ اسلام پسند تو سارے قیام پا کستان کے مخالف تھے ۔ جمعیت اسلامی ، جمعیت علمائے ہند ، مجلس احرار اسلام ، میں نے جواب دیا ۔ لیکن شاہ جی تمہاری فائل میں تو لکھا ہے کہ تم ایک مذہب مخالف نظریہ پاکستان سے انکاری اور فوج کے دشمن ہو؟ قبل اس کے کہ میں جواب دیتا اس نے ایک اور سوال کردیا ۔

اچھا یہ بتاؤ جس رات تم ملتان سے گرفتار ہوئے تھے اس شام تم حضرت سید یوسف شاہ گردیز کے مزار پر گئے تھے ۔ جی گیا تھا ۔ لیکن وہاں تو شیعہ جاتے ہیں شیعہ سنی میرا مسئلہ نہیں حضرت سید یوسف شاہ گردیزً آل رسول ﷺ میں ایک بلند پایہ بزرگ ہیں ۔ میرا دل چاہا ان کی خانقاہ پر حاضری کے لئے ۔ اس نے اگلا سوال کیا ۔ بھارت جانے کا مشورہ کس نے دیا ، بارڈر کس نے پار کروایا تھا ؟ میں پہلے ہی کہ چکا ہوں میں کبھی بھارت نہیں گیا ۔ اب بھی وہی جواب ہے ۔ وہ لمحہ تھا جب ملک فلک شیر اعوان کا اخلاقی ڈرامہ ختم ہوا اور غلیظ گا لیاں دیتے ہوئے اس نے چیخ کر کہا اکرم یہ ایسے نہیں مانے گا ۔ اکرم نے تھپڑ کی طرح ہاتھ میرے منہ پر مارا پتہ نہیں کیا چیز تھی جو میری آنکھوں نا ک اور منہ میں بھر گئی ۔ سانس لینا دشوار ہو گیا تھا ۔

اسی عالم میں انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا ۔ اللہ ہی جانتا ہے کتنی دیر بعد حواس بحال ہوئے ۔ دکھائی دینے تو لگا تھا مگر صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ مجھے اعوان نامی افسر کی آواز سنائ دی شاہ جی ایک رات ہے تمہارے سوچنے کیلئے فر فر خود بتاؤ گے یا ہم اپنے طریقے سے نکلوائیں گے ۔ پھر اس نے اہلکاروں کو حکم دیا اسے کوٹھڑی میں لے جاکر بند کردو شام کو کھانا بھی نہیں دینا ۔۔۔۔۔۔۔زادے کو

جاری ہے

Source:

http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-2/

Comments

comments