اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔ فرنود عالم
مار دیا نا۔؟ بہترین ہو گیا۔ ایک کندھے پہ دو نیم چاند اور دوسرے پہ ایک قادیانی ڈاکٹر کی لاش اٹھائے جب یہ امتِ مرحومہ رمضان کی دہلیز پار کررہی ہوگی تو عرش پہ کیا ہی خوب سماں ہو گا۔ تین دن کا انتظار بہت ہوتا ہے۔ کوئی تو روا روی میں کہہ دے گا کہ قادیانیوں پہ جو عرصہ حیات تنگ ہوا ہے، ظلم ہوا ہے۔ حسبِ توقع کوئی آواز نہیں اٹھی۔ صحافتِ اسلامیہ میں دور تک ایک سناٹا۔ سیاستِ اسلامیہ کی تو خیر بات ہی رہنے دیں۔ اٹک کے ڈاکٹر حمید کے قتل پہ جو بھلے مانس بولے ہیں، وہ بھی تب بولے کہ جب کسی فاسق فاجر نے تعزیت کے دو بول بولے۔ مگر بولے بھی کیسے؟ کیا ہی خوب فرماتے ہوئے پائے گئے
’’ایک قادیانی ہی نہیں، اکثریتی مسلمان یہاں آئے روز مارے جاتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ فراہم کرے، ریاست کا کردار ٹھیک ہوگا تو لوگ خود ٹھیک ہوجائیں گے۔ یاد رکھیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ایسے کسی قتل کے حق میں ہوں‘‘
عرض کیا
ریاست۔؟ ریاست کو تو آپ نے یہ ذمہ داری سونپ رکھی ہے کہ وہ فرد کے بارے میں فیصلہ کرے کہ وہ مسلمان ہے کہ کافر۔ فرد ہزار بار کہے کہ میں اپنے عقیدے کی رو سے مسلمان کہلوانا پسند کرتا ہوں، ریاست بندوق کے نوک پہ کہے کہ تم چپ رہو میں نے کہہ دیا نا تم کافر ہو تو بس کافر ہو۔ حد ہے اور بے حد ہے۔ جبران ایران کا سنی شہری ہے۔ اہل علم اس کے عقیدے کے بارے میں جو بھی رائے رکھتے ہوں رکھتے رہیں، مگر کیا ایران کی پارلیمنٹ کو حق دے دیا جا سکتا ہے کہ جبران کی مذۃبی حیثیت کا تعین کرے؟ منظر جعفری پاکستان کا شیعہ شہری ہے اور خود کو مسلمان سمجھتا ہے، پاکستان کے علما کچھ بھی رائے رکھتے ہوں رکھیں، مگر کیا یہ پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ ازروئے عقیدہ یہ شہری ٹھیک جگہ کھڑا ہے کہ غلط جگہ؟ اب تک یہ منطق سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ریاست نے اثنا عشری شیعوں کو کافر اور بریلویوں کو مشرک کا درجہ کیوں نہیں دیا؟ ریاست اگر یہ درجے بانٹنا شروع کردے تو اس کا کم سے کم مفہوم بھی یہ ہے کہ ایک شہری کے معاملے میں ریاست نے اپنی جانبداری کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ ایسے میں اس پورے جہان میں ایک بھی رجلِ رشید نہیں کہ جو دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائے کہ اس شہری کی حیثیت اس شہرِ بے اماں میں کیا رہ گئی؟ میں مانتا ہوں کہ پاکستان میں اکثریتی مسلمان قتل ہوئے اور بے تحاشا ہوئے، مگر یاد رکھیئے گا کہ جب سماج کے ایک طبقے کے معاملے میں آئین اور قانون واضح امتیاز برت رہے ہوں تو پھر ان پہ ہونے والے جبر کو معمول کے حادثات پہ قیاس کرنا خود فریبیوں پہ اصرار کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ احمدی معمول کی لاقانونیت کا شکار تو ہیں ہی، آئینی امتیاز کے بھی شکار ہیں۔ آپ قتل ہوتے ہیں مگر سینہ چوڑا کرکے زمین پہ چلتے ہیں، وہ قتل نہ بھی ہوں تو بھی انہیں سہم سہم کر دائیں بائیں دیکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ صورت حال اس دن بھی ختم نہیں ہوسکتی جس دن پاکستان دنیا کے پانچ بڑے پرامن ملکوں میں شامل ہوجائے۔ اگر مسئلے کی بنیاد کو سمجھنا ہو تو پھر وقت نکال کر سوچنا چاہیئے کہ وہ کون سے نفسیاتی عوامل ہیں کہ ایک پڑھے لکھے شہری کو زیر لب تعزیت کے بعد یہ وضاحت بھی کرنی پڑتی ہے کہ
’’یاد رکھیں کہ میں ایسے کسی قتل کے حق میں نہیں ہوں‘‘
حق میں نہیں ہیں؟ سچ؟ دو ہزار دس کا سال گزرے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا۔ یاد کریں لاہور میں احمدیوں کے عبادت خانے پہ ہونے والا وہ بدترین حملہ جس میں سو سے زائد معصوم شہری جان سے گئے اور متعدد ہمیشہ کے لئے بستر سے لگ گئے۔ کیا علمائے کرام و مشائخ عظام نے مذمت گوارا کی تھی؟ وہ آخر کیا جبر تھا کہ جس کے تحت سنجیدہ مذہبی شخصیات کو اپنے فون تین دن مسلسل بند کرنے پڑ گئے تھے؟ اخبار نویس کے سائے تک سے کیوں گھبرائے ہوئے تھے؟ دھندلا سا سہی، وہ منظر یاد تو ہو گا؟ اگر یاد ہو تو میاں محمد نواز شریف کا زخمیوں کی عیادت کے لیے جانا بھی یاد ہوگا۔؟ یاد ہو تو پھر یہ بھی یاد ہوگا کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا
’’احمدی ہمارے بھائی ہیں ہمارے بیٹے ہیں، ہم دکھ کی اس گھڑی میں احمدیوں کے ساتھ ہیں‘‘
یاد آیا۔؟ ذہن پہ کچھ مزید زور ڈالیئے اور یاد کیجیئے وہ شخصیات جنہوں نے میاں محمد نواز شریف سے معافی اور تجدیدِ ایمان کا مطالبہ کیا تھا۔ کیوں بھئی؟ احمدیوں کو بھائی کیسے کہہ دیا۔؟ ہم ایسے توحید کے پروانے و مستانے زندہ ہیں اور آپ احمدی کو بھائی کہہ رہے ہیں؟ ایسی جرات۔؟ میاں صاحب روز حشر کیا منہ دکھائیں گے۔؟
پوچھنا یہ تھا کہ۔!!
یہ آواز جن ہستیوں کی طرف سے اٹھی تھی کیا وہ نمائندہ مذہبی شخصیات نہیں تھیں؟ جن مدارس سے اعلامیئے جاری ہوئے تھے کیا وہ غیر معمولی مدارس تھے؟ کیا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت آپ کا متفقہ نمائندہ ادارہ نہیں ہے؟ وہ ختم نبوت جس کا کام فقط یہ دیکھنا رہ گیا ہے کہ کون کون سے سرکاری محکموں میں احمدی نوکریاں کر رہے ہیں۔ کوائف جمع کر کے سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں دباو ڈالتے ہیں اور ان ملازمین کے گرد اسی طرح گھیرا تنگ کر دیتے ہیں جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام کے گرد تنگ کیا تھا۔ کتنے ڈاکٹر عبدالسلام ہیں اس غیر مرئی و روحانی دباؤ کے تحت ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ غلط کہا؟ آپ تردید کر دیجیئے، پھر ہمیں موقع دیجیئے کہ اس جبر کے تازہ ترین ثبوت وشواہد صفحے پہ الٹ دیں۔ الٹ دیں؟ آپ ذرا تردید تو کیجیئے صاحب۔ یہی تھے جو دو ہزار دس میں فتووں کی منجنیقیں سنبھالے نواز شریف کو تڑیاں لگا رہے تھے۔ کیا کچھ نہ کہا گیا؟ کچھ نہار منہ فتوے ردِ قادیانیت پہ سند کی حیثیت رکھنے والا پنجاب کا ایک ایسا عالم دے رہا تھا جو اپنی کتابوں میں جب احمدیوں کا ذکر کرتے ہیں تو ’’احمدی بھائیوں سے گزارش ہے‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ ان کی غیرت ایمانی بھی اس بات پہ بے قابو تھی کہ احمدیوں کو بھائی کیوں کہہ دیا گیا۔ اندازہ کیجیئے کہ احمدی خواتین و بچے بستر مرگ پہ ہیں، اور علمائے کرام ومشائخ عظام فرما رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے احمدیوں کو بھائی کہہ کر کروڑوں مسلمانوں کے دل زخمی کر دیئے ہیں۔ خدایا یہ کیسے دل ہیں جن کی ایک بھی دھڑکن انسانی چیتھڑے دیکھ کر تو خطا نہیں ہوتی، ہمدردی میں کہے گئے دو بول سے شعلہ بن جاتی ہے۔؟ یعنی خون پیجیئے، سیگریٹ نہ پیجیے؟
ایک بات تو بتائیں۔!
ریاست کے ایک شہری کا گھیراؤ کرنے کے لئے ریاست اور علما ومشائخ ایک صفحے کی ایک ہی سطر پہ ہوتے ہیں۔ احمدی قتل ہوجائے تو تعزیت نہیں کرتے۔ کوئی تعزیت کر لے تو توبہ استغفار اور تجدید ایمان و نکاح کے مطالبے کرتے ہیں۔ دعا دینے کو ناجائز کہتے ہیں۔ بھائی کہنے کو ناروا کہتے ہیں۔ رسمی مذمت تک کے گناہ سے بچنے کے لئے فون بند کر دیتے ہیں۔ قاتل کے لئے ایک حرفِ مذمت سننے کے لئے اخبار نویس آپ کو سونگھتا پھرے تو آپ عمرے پہ فرار ہو جاتے ہیں۔ ان تمام تر ایذا رسانیوں کے بعد آپ فرماتے ہیں
’’ہم تو ایسے کسی قتل کے حق میں نہیں‘‘
میاں یہ آپ نے ہمیں سیدھا سمجھ رکھا ہے کہ خود سیدھے ہیں؟ ذرا سمجھایئے تو سہی کہ قتل کے حق میں اور کیسے ہوا جاتا ہے۔؟ آپ سے یہ توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے کہ تحریک طالبان کی طرح آپ اپنا دل کھول کے سامنے رکھ دیں گے۔ محلے میں نہیں رہنا کیا؟
Source:
http://www.humsub.com.pk/17740/farnood-alam-42/