زندان کی چیخ – پہلی قسط – حیدر جاوید سید
زندان کی چیخ ایک دلخراش داستان ہے اس زمانے کی جسے پاکستان کی سیاست کا سب سے پرآشوب اور خوفناک جبر کا زمانہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، اس زمانے میں شاہی قلعے کی جیل محض ایک جیل نہ تهی بلکہ حیدر جاوید سید نے اسے بالکل ٹهیک ‘بوچڑ خانہ ‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس جیل کے اندر کیا کیا ستم ڈهائے جاتے تهے اور ظلم کے کیسے کیسے پہاڑ توڑے جاتے تهے ان کاجاننا آج کی نوجوان نسل کے لیے اس لیے بهی ضروری ہے کہ ان دنوں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے چند رہنماوں کی پهانسیوں پہ بہت شور مچا ہوا ہے اور جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ انسانی ضمیر ایسے واقعات پہ خاموش نہیں رہا کرتے اگر مردہ نہ ہوگئے ہوں تو …. مگر جس زمانے کی داستان اسیری حیدر جاوید سید بیان کرنے لگے ہیں اس زمانے میں جماعت اسلامی کے صحافیوں ، دانشوروں اور رہنماوں کے ضمیر جنرل ضیاء الحق کی مراعات کے ڈی فریزر میں جمے پڑے تهے یا انکل سام کے جہادی ڈالروں کے بوجه تلے دبے ہوئے تهے اس لیے شاہی قلعے کے بوچڑ خانے میں حیدر جاوید سید کی چیخیں ، بیگم رانا شوکت محمود کی برهنگی اور زهنی توازن کهونے پہ ہمیں کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر نہیں آئی اور آج تک کسی نے معافی بهی نہیں مانگی
حیدر جاوید سید جیسے صحافیوں ، دانشوروں ، سیاسی کارکنوں ،شاعروں اور ادیبوں کا کیا قصور تها کہ ان کو شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں اذیتیں سہنے کے لیے ڈال دیا گیا اور اس پرآشوب دور کو ہماری نصابی کتب ہائے تاریخ و مطالعہ پاکستان میں شاندار اسلامی دور لکها جاتا ہے
حیدر جاوید سید کی داستان اسیری سرکاری و درباری بیانیہ تاریخ کے مقابل عوامی تاریخ کا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش ہے اور بالواسطہ یہ پیغام دینے کی بهی
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخرشب
ہمارے بعد اندهیرا نہیں اجالا ہے
پسِ نوشت
حیدر جاوید سید کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرگذشت لکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کو کتابی شکل میں شائع وہ اپنی موت کے بعد اس شرط پہ چاہتے ہیں کہ ان کی قبر کو گمنام رکھا جائے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ دور حاضر کے اموی اپنے جرائم کا پردہ فاش ہونے کی سزا ان کی قبر کی بے حرمتی کرکے لینے کی کوشش کریں گے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘ آل مروان ‘ آج بھی اپنے بزرگوں کے طور طریقوں پہ چل رہی ہے کیونکہ جو ان کو ‘قیصر و کسری ‘ کی سنت کا پیروکار کہے یہ اسے مارنے کو دوڑتے ہیں اور اسے حجرہ ام المومنین میں پناہ لینا پڑجاتی ہے
حیدر جاوید سید ان معدودے چند قلم کاروں میں سے ہیں جن کے ہاں قلم کی آبرو اور الفاظ کی حرمت کے لیے فاقہ کشی اور افلاس بڑی قیمت نہیں ہے اور جنھوں نے ‘سچ کی آبرو ‘ کے لیے ‘بیروزگاری مسلسل ‘کا عذاب سہا ہے اور اس پہ وہ ذرا شرمندہ نہیں ہیں، پاکستان کا کوئی بڑا میڈیا گروپ ان کی ‘سچائی ‘ کی تاب نہیں لاسکتا اور وہ جو دن رات صحافت کو مقدس پیشہ کہتے نہیں تھکتے ان کی دیانت کا سانس بھی ‘سچ بیانی حیدر جاوید سید ‘ تک آتے آتے پھول جاتا ہے مگر مجھے ان سے عشق ہے اور میں ان کے ‘انداز بیاں ‘ کا عاشق ہوں اور یہ مرا وہ معشوق ہے جس کے قلم کی کاٹ سے ‘مولوی فضل اللہ ‘ کی جان جاتی تھی اور اس نے اس کی برطرفی کی شرط پہ روزنامہ مشرق پشاور کے مالکان کو اماں بخشی تھی، لفظ کیسے باطل کو ڈراتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے حیدر جاوید سید کو پڑھنا ہوگا
محمد عامر حسینی
اب پڑھئے زندان کی چیخ کی پہلی قسط
موسم کی شدت ، شدت سے اثر انداز ہوئی ۔ لکھنے پڑھنے سے جس کا رزق بندھا ہوا ہو وہی جانتا ہے کہ شب روز کیسے بسر ہوتے ہیں ۔ پچھلے دودن سے کچھ لکھ نہیں پایا ، البتہ کتابوں کے اوراق ان لمحوں میں خوب الٹے ،جب ادویات کی مسلط شدہ غنودگی سے نجات ملی تو بستر پر پڑے آدمی کو یادیں بھی آن دبوچتی ہیں۔ سو ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ۔
ایم کیو ایم ایم رہنما آفتاب احمد کے ریاستی تحویل میں جاں بحق ہونے کی اور نو شہرو فیروز سندھ میں جسقم کے جواں سا ل کارکن ارشاد چنا اور ان کے ساتھیوں پر سرکاری اہلکاروں کی فائرنگ اور پھر ارشاد چنا کے جاں بحق کی اطلاع نے36سال پیچھے 15جنوری 1981کے دن میں لے جا کر کھڑا کیا ۔ 7جنوری 1981کو ملتان سے خفیہ اداروں کی سال بھر کی کوششوں کے بعد گرفتار ہوا تھا ۔ملتان کینٹ تھانہ حرم گیٹ میں مارشل لاء کے ضابطہ 33-36-38-3اور43کے تحت میرے خلاف ایک مقدمہ درج تھا ۔ نوعیت مقدمہ یہ تھی کہ میری ادارت میں کراچی میں شائع ہونے والے ہفت روزه جدوجہد میں ایک مضمون شائع ہوا تھا ‘وہی قاتل جو مسیحا ٹھہرے’ کے عنوان سے ( مضمون میری تحریر تھی) رسالے کے ایک مستقل خریدار نے جو وفاقی ایجنسی کے مخبر تھے یہ مقدمہ درج کروایا تھا۔
ملتان چونکہ میرا آبائی شہر تھا اس لیے خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کو یقین تھا کہ کسی نہ کسی دن ملتان ضرور آؤں گا ۔1980 ء میں بہاولپور ملتان اور سکھر میں اس طالب علم کے خلاف متعدد مقدمات درج ہوئے ۔ الزامات تقریباً ایک ہی نوعیت کے تھے۔ عوام کو فوج کے خلاف اکسانا,,اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف تقاریر کرنا اور مضامین لکھنا سکھر والی ایف آئی آر بڑی دلچسپ تھی ۔ اس میں لکھا تھا کہ کراچی سے شائع ہونے والے ہفت روز ہ، بصیرت ، میں لکھے گئے مضمون میں، میں نے حضرت محمد بن قاسم کا تمسخراڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ عربوں کا سندھ پر حملہ اموی خزانے کو بھرنے اور اپنی راجدھانی کی حدود وسیع کرنے کے لیے تھا ۔ اگر تبلیغ اسلام مقصود تھی تو ہند و سندھ میں محمد بن قاسم کے لشکر کے حملہ سے قبل ہی ایسی مسلم شخصیات موجودتھیں جن کے اخلاق و اوصاف سے مقامی لوگ متاثر تھے ۔ سال بھر چھپن چھپائی کے بعد بالآخر 7جنوری1981کو ہم ملتان پولیس کے ہاتھ چڑھ ہی گئے ۔لگ بھگ آٹھ دن تک ملتان میں حساس اداروں کا تختہ مشق بننے کے بعد 15جنوری 1981کو پولیس اور ایک حساس ادارے کی بھاری نفری کی حفاظت میں ملتان سے لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعہ پہنچا دیا گیا ۔
لاہور کے شاہی قلعہ کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ مغلوں نے تعمیر کیا اس کے اندر زندان کا حصہ بعد کے ادوار میں بھی ریاست کے خطرناک مجرموں کو قید رکھنے کے کام آیا ۔ یہ بدنام تفتیشی مر کز کامریڈ حسن ناصر کی جائے شہادت بھی ہے۔ 15جنوی کی صبح جب ملتان سے لانے والی گارڈ نے شاہی قلعہ کی انتظامیہ کے حوالے کیا تو استقبالیہ منظر ایسا روح پرور تھا کہ آج 36سال بعد بھی اس کی یادوں نے آنکھیں نم کر دی ہیں۔شاہی قلعہ کے رجسٹروں میں نئے قیدی کا اندراج مکمل ہوتے ہی ملتان سے آنے والی پولیس گارڈ اور حساس ادارے کے اہلکار واپس چلے گئے البتہ ایک میجر وہیں رک گئے۔انہیں شاہی قلعہ کے انچارج کرنل رفیق لغاری (یہ صاحب بعد میں پپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے) سے اس ملزم بارے کچھ خصوصی گفتگو کرنا تھی ۔ رات بھر کے سفر کی تھکان سے آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں کہ اچا نک گدی ( گردن ) پر پڑنے والے شاندار مکے نے نہ صرف نیند اڑا دی بلکہ بہت زور سے سر دیوار کے ساتھ جا لگا جس سے سر پھٹ گیا ۔
میں نے خون روکنے کی لئے ہتھکڑیوں میں بندھے ہاتھ بڑی مشکل سے ماتھے پر رکھے تو ایک کرخت آواز سنائی دی۔ بچو جی ! یہ شاہی قلعہ ہے تمہارا سسرال نہیں کہ نیند کے مزے لوٹنے لگے ہو۔ ماتھے سے بہنے والا خون بند نہ ہوا تو مکے سے تواضع کرنے والے نے کسی رحمت نامی شخص کو بلانے کیلئے کہا ۔ رحمت چند منٹوں میں آیا اور اس نے زخم پر پٹی کر دی ۔ زخم پر پٹی ہوگئی تو کر نل رفیق لغاری کے حضور پیشی کے لیے لے جایا گیا ۔
اس کے کمرے میں ملتان سے ساتھ آیا ہوا میجر اور دو اور فوجی افسروں کے علاوہ سادہ کپڑوں میں ایک اور شخص بھی موجود تھا ۔ اس کمرے میں پہلا حکم یہ صادر ہوا کہ اس کی گردن سے بانس لگاؤ ۔ ابھی اس حکم کو سمجھنے کی کو شش ہی کررہا تھا کہ ایک اہلکار پانچ فٹ لمبائی والی بانس نما لاٹھی لیے کمرے میں آیا اس نے ہتھکڑیوں میں بندھے ہوئے ہاتھ سر کی طرف بلند کیے اور پھر دونوں بازوؤں اور گردن کے درمیان اس لاٹھی کو پھنسا دیا ۔ رات بھر کے سفر کی تھکاوٹ سے سر پھٹنے پر خون کے ضیاع سے پیدا ہوئی نقاہت اور اب یہ اذیت کہ ہاتھ ہتھکڑیوں سمیت بلند ہیں اور دونوں بازوؤں اور گردن کے درمیان ایک لاٹھی پھنسی ہوئی ہے۔ کرنل لغاری کے حکم کی تعمیل ہو چکی تھی تو اس کے اشارے سے ایک وردی پوش نے سوالات کا آغاز کیا ۔ مجھ سے میر ا نام دریافت کیا گیا ۔ بتلا ہی رہا تھا کہ دوسرا افسر بولا رحمت اس کے کپڑے اتارو یہ خود کو سید کہتا ہے مگر شکل سے تو ہندو لگتا ہے۔
کوئی مسلمان تو محمد بن قاسم کے خلاف مضمون نہیں لکھ سکتا میں کیا احتجاج کرتا ۔ قیدی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے ؟ رحمت نامی اہلکار نے افسروں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شلوار کا ازار بند کھینچ لیا اور قمیض کو دونوں طرف سے اٹھا کر آپس میں باند ھ دیا۔ سات آدمیوں کی موجودگی میں آدھا بلکہ تین حصہ ننگا قید ی وقفے وقفے سے پڑنے والے تھپٹر سہتا اور سوالوں کے جواب بھی دیتا رہا ۔ ایک مرحلہ پر کرنل لغاری نے سرائیکی زبان میں مجھے کہا تمہارے والد تو فوج میں اچھے منصب پر رہے ہیں۔تو تم نے نہیں سوچا کہ اسلام کی محافظ فو ج کی مخالفت صرف ہندو یا ان کے ایجنٹ ہی کرتے ہیں؟
مجھے یاد ہے کہ میں نے کہا یہ ملک مارشل لاؤں کیلئے نہیں بنا اقتدار پر فوج کا حق نہیں بلکہ حکومت کرناعوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ یہ جواب سن کر سات کا ٹولہ آگ بگولہ ہوگیا اور تین اہلکار مجھ پر ٹوٹ پڑے کچھ دیر تو ہوش و حواس قائم رہے پھر ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا ہوش میں آیا تو ایک نیم اندھیرے والے سیل کے فرش پر پڑا ہوا تھا۔ بانس اور ہتھکڑیاں نہیں تھی اور شلوار پاس ہی پڑی تھی ۔ بڑی مشکل سے کپڑے پہنے سارا جسم درد کی شدت سے دکھ رہا تھا۔ سیل ( کوٹھڑی) کے باہر کھڑے گارڈ نے مجھے ہوش میں آتے اور کپڑے پہنتے دیکھ لیا تھا کچھ دیر بعد ایک آدمی نے مجھے ایک روٹی اور چائے کا کپ لا کر دیا ۔ ملتان سے روانگی کی شام سے قبل کی دوپہر کو کھانا کھایا تھا اب جو روٹی چائے ملی توغنیمت محسوس ہوئی ۔
کچھ دیر کے بعد دو افراد نے مجھے نام لے کر بلایا ۔ اٹھ کر کوٹھڑی کی سلاخوں کے پاس گیا توان میں سے ایک نے ہاتھ اندر کی سمت لاکر مجھے ہتھکڑی لگائی ۔ پھر باہر نکال کر ایک ہال نما کمرے میں لے گئے جہاں ایک میز کی دوسری طرف دو آدمی براجمان تھے ان میں سے ایک ودری پوش تھا اور دوسرا سادہ لباس میں۔ ودری والے نے کسی تاخیر کے بغیر اپنا بھاشن شروع کیا ۔ اسلام کے نام پر یہ ملک قائم ہوا ہے۔ اقتدار اللہ کی امانت ہے وہ جس کو چاہے اقتدار عطا کرے اللہ تعالیٰ چیف صاحب ( جنرل ضیاء الحق ) سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے ۔
اس قسم کی بہت ساری باتیں کرچکنے کے بعد کہنے لگا تمہارے والد صاحب سابق فوجی افسر ہیں ان کی وجہ سے تمہیں ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا اب بھی وقت ہے کہ تم اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے معافی مانگ لو تو ہوسکتا ہے۔ کچھ رعایت مل جائے ۔ گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے مانگی جاتی ہے یہاں کیا اللہ کی عدالت لگی ہوئی ہے جو معافی طلب کروں؟ میں نے جو مضامین لکھے یا تقاریرکیں ان میں لکھی باتیں ہی میرا موقف ہیں جمہوریت اور فقط جمہوریت ہی اس ملک کو قائم رکھ سکتی ہے۔ جوابی تقریر یہیں تک پہنچی تھی کہ اس کمرے میں کوٹھڑی سے لانے والے دونوں اہلکار مجھ پر ٹوٹ پڑے ۔ کافی دیر تک وہ مجھے مارتے رہے پھر ودری پوش افسر نے حکم دیا اسے لٹکا دو ۔
ان اہلکاروں نے میرے کپڑے اتارے اور مجھے رسوں سے باند ھ کر لٹکا دیا ۔ اور پھر تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جو مجھ ناتواں کی بے ہوشی تک جاری رہا یہ تھا لاہور کے بدنام زمانہ تحقیقاتی مرکز شاہی قلعہ میں پہلا دن ۔ باقی سارے دن بھی ایسے اور کچھ اس بھی بد تر تھے مگر میں اپنے اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے استقامت عطا کی ۔ شاہی قلعہ سال بھر سے کچھ اوپر کی اسیری کے باوجود قدم ڈگمگائے نہیں۔ مجھے جب بھی دن یاد آتے ہیں جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر ایمان مزید مستحکم ہوجاتا ہے۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-1/