مجھے گمشدہ پاکستان چائیے
دو روز پہلے جب اسلام آباد کے سرمئی ماحول میں سورج شام کے آنگن میں چھپ رہا تھا اور چاند آنگن کی زینت بن رہا تھا تو دھیمے لہجے کے علامہ راجہ ناصر عباس لب کشا تھے کہ مجھے دکھ ہوتا ہے ، میرے وطن میں دہشتگردی ہورہی ہے ، بدقسمتی سے دہشتگردوں نے ذہیں لوگوں کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے ، مجھے کسی مسلک کا نہیں ، اقبال اور قائداعظم کا پاکستان چاہیے ، ایسا پاکستان جہاں ہندو ، سکھ اور عیسائی بھی اپنی عبادت کر سکیں ۔
میں گم شدہ پاکستان ڈھونڈرہاہوں ، وہ پاکستان جو مسلمانوں کا پاکستان تھا جو فرقوں کا پاکستان نہیں تھا ، یہ کیسا معاشرہ ہے کہ محض ناموں پر قتل و غارت ہو رہی ہے ، کل عمران خان آئے تو انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ روزانہ کتنے افراد صرف فرقہ واریت کی بنیاد پر ڈی آئی خان اور پشاور میں موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں ، رہا پنجاب تو وہاں تو کام ہی نرالا ہے ، وہاں درود و سلام پڑھنا جرم ہے یہ کام صرف بریلوی اور اہل تشیع کرتے ہیں ۔ ان دونوں کے ہزاروں افراد کے خلاف پنجاب میں ہزاروں مقدمات ہیں ، کل ایک نوجوان آیا ، اس پر مقدمہ یہ تھا کہ اس نے نوحہ کیوں لمبا پڑھا ہے ، ایک عورت آئی ، کہنے لگی کہ میں بیوہ ہو گئی تھی میرے خاوند کو فرقہ واریت کی آگ نگل گئی تھی پھر میرے پاس چھوٹا سا بیٹا تھا ، میں نے اسے جوان کیا ، اس کی شادی کی ، جب میرا پوتا پیدا ہوا تو دہشتگردوں نے میرا بیٹا شہید کر دیا ، صرف اس لئے کہ اس کے نام میں حسین شامل تھا ، میں اب بڑھاپے میں پوتے کو کیسے پالوں ۔
گفتگو کرتے کرتے راجہ ناصر عباس کی آنکھیں بھیگ گئیں اور پھر کہنے لگے
ہم نے اس ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں ، ارض وطن کو جہاں ضرورت پڑی ، ہم نے خون دیا ، ہمارے جوانوں نے فوج میں بھی بہت قربانیاں دیں ، مثلا ً راجہ نادر پرویز میرا کزن ہے ، وہ بھی اس ملک کے لئے جنگیں لڑتا رہا ، میرے والد کی عمر صرف 42 سال تھی کہ انہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کی خبر سنی تو انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا ، وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ، میں نے یتیمی میں بھی وطن سے محبت جاری رکھی کیونکہ وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، ہماری صرف ایک استدعا ہے کہ ہمیں ہمارا گمشدہ پاکستان چاہیے ، ہمیں اقبال اور قائداعظم کا پاکستان چاہیے ، ہمیں مسلمان ملک چاہیے ، دہشت گردی نہیں چاہیے ۔ میں اپنی قوم سے قربانیاں نہیں مانگوں گا ، اس لیے میں خود بھوک ہڑتال کر کے بیٹھ گیا ہوں ، میں نے اپنے بیٹے مصطفی کو بھی بلا لیا ہے کہ اگر میں مر گیا تو میرے بعد میرا بیٹا بھی وطن پر قربان ہو جائے ۔ خدارا نیشنل ایکشن پر عمل کرو
اب میں کیا لکھوں ۔ جب راہزن رہنما بن جائیں اور چور لٹیرے ایک دوسرے کے تحفظ میں ایک ہو جائیں تو پھر میرے لئے اصل پاکستان ڈھونڈنا محال نہیں ، مشکل ضرور ہو تا ہے کیونکہ اصل پاکستان کے لوگ تو ایماندار ہیں ، وہ لٹیرے نہیں ، وہ راہزن نہیں ، وہ تو غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔
جاتے محسن نقوی کا شعر ضرور پڑھتے جائیے
مرے وطن کے مصور میں تجھ سے نادم ہوں
ترے شعور کے خاکے گنوا دئیے میں نے