افغانستان کی موجودہ صورت حال پر حامد میر کا من مانی تشریحات پر مبنی کالم – عامر حسینی
حامد میر نے اپنے نئے کالم میں پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان نے ایران سے اپنے تعلقات پاکستان سے مایوس ہونے کے بعد استوار کیے اور اس حوالے سے انہوں نے ملا عبداسلام ضعیف کی کتاب کا حوالہ دیا ہے .
حامد میر نے ایک پیچیدہ صورت حال کا اپنی من مرضی سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ….. ان ہو اگر اس صورت حال کا معروضی تجزیہ پیش کرنا ہی تها تو وہ اپنے پڑهنے والوں کے سامنے سارے امکانات اور شواہد رکهتے ، ایران سے طالبان کے تعلقات بارے دو بڑے مفروضات سامنے آئے ، ایک مفروضہ تو یہ تها کہ جب دوحہ قطر میں تحریک طالبان افغانستان کا دفتر طالبان کمانڈر آغا طیب آقا کی سربراہی میں کهل گیا تو طالبان کے نمائندہ وفد نے کئی ممالک کے دورے کئے ، ان ممالک میں جہاں سعودی عرب شامل تها ، روس بهی شامل تها تو ساته ہی اس میں ایرانبهی شامل تها اور یہ مئی 2015ء کے اندر انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا میں خبریں آنا شروع ہوئیں کہ افغان طالبان کا ایک وفد آغا طیب آقا کی قیادت میں تہران پہنچا ہے اور اس نے تہران میں ایرانی قیادت سے ملاقاتیں شروع کی ہیں اور اس وفد کی ایران یاترا کا زکر افغان طالبان کے ترجمان قاری زبیح اللہ مجاہد نے بهی کی اور اس بارے میں ایکسپریس ٹرائبون نے ایک خبر 20 مئی 2015ء کو شایع کی
http://tribune.com.pk/…/reaching-out-afghan-taliban-negoti
اب حامد میر مئی 2015ء میں افغان طالبان مذاکرات کاروں کے وفد کی تهران آمد والی خبر کا زکر نہیں کرتا بلکہ وہ 11 جون 2015ء کو وال سٹریٹ جرنل کی قدرے سنسی پهیلانے والی نیوز سٹوری جوکہ
MARGHERITA STANCATI
نے فائل کی کا زکر کرتا ہے جس میں ایران کی جانب سے تحریک طالبان افغانستان کو ایران کی جانب سے کیش اور اسلحہ دیا جانے کا انکشاف کسی عبداللہ نامی افغان طالبان کے زریعے سے کیا گیا جسے ایران 580 ڈالر ماہانہ تنخواہ بهی دے رہا تها اور اس نیوز سٹوری میں ایران کی سب سے طاقتور سیکورٹی تنظیم پاسداران انقلاب کے تحریک طالبان افغانستان سے تعلقات گہرے ہونے کا زکر بهی موجود تها جبکہ ایران کے چار شہروں میں طالبان کے تربیتی کیمپوں کا انکشاف بهی تها ،
حامد میر اس رپورٹ پہ تحریک طالبان افغانستان کی قیادت کے ایران سے روابط کو ‘پاکستان ‘سے طالبان کی بداعتمادی پہ محمول گردانتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ 26 مئی کو حامد میر اپنے کالم میں طالبان کی ہمدردی میں پاکستان کی افغان پالیسی کے زمہ داران کو کوسنے دیتا ہے تو اس سے ایک دن پہلے محمد حنیف بی بی سی ڈاٹ کوم میں ‘ملا منصور کی وصیت ‘نام کے ایک مضمون میں طنزیہ انداز میں یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے حکام نے دوستی کے نام پہ طالبان کی پیٹه میں چهرا گهونپا ہے اور ملا منصور کو خود پاکستانی حکام نے مروایا ہے اور حامد میر نے بهی اپنے کالم میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے
حامد میر ایک باخبر صحافی ہے اور اس سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں اس کو پاکستانی انٹیلی جنس زرایع اور پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ سے یہ خبر نہ ملی ہو کہ پاکستانی عسکری قیادت کو تحریک طالبان کے وفود کے دورے ایران ، سعودی عرب ، چین ، روس کے دوروں پہ کوئی اعتراض نہیں تها بلکہ پاکستان نے تو قطر میں طالبان کے دفتر کے قیام اور طالبان مذاکرات کاروں کے وفود کی نقل و حمل کو آسان بنانے میں اہم کردار اداکیا تها اور اس سے یہ بات بهی پوشیدہ نہیں ہوگی کہ 2014ء سے ہی پاکستان کے فوجی حکام طالبان کو پیس پروسس کے لیے تیار کرنے میں لگے ہوئے تهے ،
کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ مری میں ہوئے امن مذاکرات کے فوری بعد ملا عمر کی ہلاکت کی خبر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے آفس سے لیک ہوئی تهی اور اس کے بعد سے سے اس پیس پروسس کو تباہ کرنے میں شمالی اتحاد کے کئی ایک گروپ لگے ہوئے تهے ، پاکستان ‘امن پروسس ‘میں طالبان کو بٹهانے میں سنجیدہ نظر آیا تها لیکن اس کے کردار کو بری طرح سے مسخ کرنے کی کوشش ہوئی ، حامد میر بچگانہ باتیں کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ افغان پالیسی تیار کرنے والے پاکستانی حکام کو طالبان بارے غلط فہمی ہے کہ وہ ‘پنجابی دیہات کے ملا’کی طرح ہیں کیونکہ اسے اچهی طرح سے علم ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا’افغان ڈیسک ‘کتناپرانا اور ان کے پاس طالبان کمانڈر سے لیکر نچلی سطح کی قیادت تک کی پروفائل موجود ہے اور اسے ان کی کیپسٹی کا بهی معلوم ہے
حامد میر کے ایک پروپیگنڈسٹ ہونے کا پتہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک جانب یہ تاثر دیتا ہے پاکستان کو یا توطالبان سے تعلقات نہیں رکهنے تهے یا امریکہ اور افغان رجیم سے نہیں رکهنے تهے لیکن جو بات پاکستانیوں کو بے اعتبار بناتی ہے وہی ایران پہ بهی صادق آئے گی ، ایران ایک طرف تو ہندوستان -ایران-افغانستان ٹریڈ کوریڈور کی تعمیر کررہا ہے تو دوسری طرف طالبان سے بهی ہاته ملائے ہوئے ہے لیکن اسے تو ایرانی وزرات خارجہ کی نااہلی نہیں کہا جارہا ، کیا سعودی عرب سے افغان طالبان کے تعلق نہیں ہیں ؟ کیا قطر میں طالبان کا دفتر کا کهلنا خود حامد میر کی دلیل سے پاکستان سے بداعتمادی کی علامت تها تو افغان طالبان کا انتہائی طاقتور گروہ مری مذاکرات میں کیسے آیا ؟ ملا منصور بلوچستان ، کراچی سنده کے زریعے سے ایران ، دبئی اور دیگر ملکوں میں آتا جاتا رہا اگر وہ پاکستان سے متنفر تها تو یہاں کیوں تها ؟
حامد میر اصل میں اپنی کاورڈ نکالنے کے چکر میں ہے ، پاکستان ، ایران ، چین ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، ترکی یہ وہ ممالک ہیں جن کے تحریک طالبان افغانستان سے کنفرم تعلقات ہیں جبکہ یہ بات ایران ، چین کے بارے میں اس لیے ٹهیک ہے دونوں ملک افغانستان سمیت اس خطے میں امریکی اثر کو کاونٹر کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کا اعتراف خود وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ بهی کرتی ہے
سوال یہ بهی جنم لیتا ہے کہ کیا خود امریکی انتظامیہ نے ہی تو طالبان اور افغان رجیم کے درمیان مذاکرات کی شروعات نہیں کی ؟ اور طالبان سے امریکیوں کے روابط نہیں ہیں کیا ؟
مجهے ‘جہادی پراکسی ‘ اور ‘تزویراتی گہرائی ‘ کی اعلانیہ مخالفت پہ کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کیا بهارت ، ایران سمیت دوسرے علاقائی طاقتور کردار اپنی پراکسیز ترک کرنے پہ تیار ہیں اور کیا وہاں کا مین سٹریم میڈیا اتنا بے باک لکه سکتا ہے جتنا یہاں مفروضے بناکر لکها جارہا ہے
حامد میر کے تکفیریوں سے کیا تعلقات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہے ، سلیم صافی کے عزائمنکیا ہیں اور یہاں کی جماعت اسلامی تحریک طالبان پاکستان کی عذر خواہ بنی رہتی ہے وہاں گلبدین حکمت یار کی افغان رجیم میں شمولیت پہ گونگے کا کردار ادا کررہی ہے
وال سٹریٹ کی رپورٹ کا لنک
http://www.wsj.com/…/iran-backs-taliban-with-cash-and-arms-…