طالبان کے آنجہانی امیر مُلا منصور دیوبندی کی وصیت
– جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں کوئی کیانی، حمید گل یا اسلم بیگ آپ سے کہے کہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں اُس دِن سے اپنی وصیت لکھنی شروع کر دینا۔
– جب اِنھی میں سے کوئی کہے کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں تو یہ مت کہنا کہ اِس بھائی چارے کے اب تک کتنے ڈالر ہوئے۔ پاکستانی حساس قوم ہیں۔
– کوئٹہ سے کبھی گاڑی کرائے پر مت لینا۔ خلیفہ مُلاّ عمر دیوبندی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر سفر کرنا۔ طبعی عمر پاؤ گے۔ بلکہ شہادت کے کئی سال بعد بھی لوگ زندہ ہی سمجھیں گے۔
– پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں خاص طور پر اوریا مقبول بغدادی، جاوید چ، سلیم صافی اور حامد میر سے بچ کر رہنا۔ اگر ڈرون سے بچ گئے تو یہ دانشور چوم چوم کر مار دیں گے۔ جب تک آپ زندہ ہیں آپ کو تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو کہیں گے شہادت کے بعد کہیں گے امن کی آخری اُمید دم توڑ گئی۔ اچھے خاصے تکفیری مجاہد کو خصی بنا دیں گے یہ دفاعی تجزیہ نگار ۔
– ہر ریاست کی پالیسی دوغلی ہوتی ہے لیکن یہ ہمارے میزبان بھائی ایک ہاتھ سے فاتحہ پڑھتے ہیں، دوسرا ہاتھ خنجر پر رکھتے ہیں۔
– میرا خیال تھا ہمارے پاکستانی دوست لطیفے بہت اچھے سُناتے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے ایک پنجابی دیوبندی مجاہد نے ایک دفعہ بتایا کہ ہمارے چوکیدار رات کو صدا لگاتے ہیں’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘۔ اب پتہ چلا کہ کم بختوں نے ایک جگت کو قومی دفاعی پالیسی بنا لیا ہے۔
– پاکستانی دیوبندیوں، جماعتوں اور ان کے ہمدردوں کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی آپ کی شہادت ہو گی تو پہلے سکتے میں آ جائیں گے پھر کہیں گے ہماری خود مختاری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ ہمارے گھر میں گھُس کر مارا، پھر کہیں گے ہمارے گھر میں تو تھا ہی نہیں اُُس کے بعد پھر کہیں گے لیکن تمہاری جرات کیسے ہوئی ہمارے گھر میں گھسنے کی۔ تو آپ نے دیکھا آپ کی جان جائے گی اور اِن کی خود مختاری پِھر دنیا میں اٹکھیلیاں کرتی پھرے گی اور کہے گی پتہ نہیں مجھے دُنیا والے اِتنا کیوں چھیڑتے ہیں۔
– یہ جو پاکستان کے علما اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے والی پارٹیاں خاص طور پر جماعت اسلامی، سپاہ صحابہ اور جماعت الدعوہ ہیں اِن سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ساری عمر آپ کے کانوں میں ’شہادت ہے مطلوب و مقصود و مومن‘ گنگناتے رہیں گے جب وقت شہادت آئے گا تو اِن کی گنگا جمنی تہذیب جاگ اُٹھے گی اور کہیں گے’نہیں حضور پہلے آپ‘۔
– اگلا امیر منتخب کرتے وقت اِن کے مشورے مت سُننا، کچھ سال پہلے ہمارے پاکستان بھائی خالد سجنا کو امیر منتخب کروانے والے تھے کہ کسی نے گانا لگا دیا ’سجنا وی مر جانا‘۔ وہُ امیر نہ بن سکے۔ میری نظر میں اوریا مقبول، رانا ثنا الله اور سراج الحق دیوبندی کا حق سب سے فائق ہے
– سرحدی علاقوں، پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے کے دِن گئے۔ اب پکی پناہ کے لیےکراچی میں مفتی نعیم یا تقی عثمانی کے مدرسے میں تہ خانہ میں کمرہ بُک کراؤ وہاں تمہیں امریکہ کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ سکے گا۔
(ماخوز از محمد حنیف)