خرم زکی ! اچها ہوا تم چلے گئے – عامر حسینی

13227179_10209738738253564_7351187254399275662_n

ٹهہرو بهئی ‘عنوان دیکه کر ہی ابتذال کی تلوار مجه پہ سونت لی ہے ، اس کا مطلب اخذ کرنے میں عجلت سے کام مت لو ، ٹهیک کہہ رہا ہوں کہ اچها ہوا کہ وہ چلا گیا ، ورنہ آج ملامنصور دیوبندی کے نوشکی میں ڈرون حملے میں مارے جانے اور اس کے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بارے چوہدری نثار ہمارے وزیر داخلہ کم اور وزیرخارجہ زیادہ کی پریس کانفرنس میں انهیں ‘طالبان ‘کی صفائی دیتے دیکه کر تمہیں بہت ہی دکه اور رنج ہوتا اور تم بے اختیار پوچهتے کہ جب کچه انڈے اپنی ٹوکری میں بچاکر رکهے ہوئے تهے تو پهر سارے ‘انڈے ‘پهینک دینے کا شور کیوں مچایا جارہا تها –

تم ہوتے تو یہ سوال بهی ضرور کرتے کہ تمہارے دور میں ‘طالبان ‘سے بہتر کردار کے لیے جن لوگوں نے اثر ورسوخ استعمال کیا ان میں سے کوئی تو ‘اکوڑہ خٹک ‘بیٹها ہے اور کوئی کراچی کے بنوری ٹاون بیٹها ہے اور کہیں ‘پنج شیریوں ‘کے نشان وہاں پائے جاتے ہیں اور پهر زرا سرحد سے دور جائیے تو ریاض ، دوحہ والوں کے کردار بهی ہیں اور ان کے روابط یہاں کے ان تکفیریوں سے کیا ہیں جن کے خلاف ضرب عضب اور ضرب آہن ہورہا ہے اور کون ہے جن کے دم قدم سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت سب سے زیادہ مقدمات درج ان کے خلاف ہوئے جو تکفیریت کے خلاف سب سے بلند آواز میں بولنے والے تهے ، خرم زکی کی ڈائری کا ایک اور ورق ان کی اهلیہ نے شئیر کردیا ہے ،اس ابتدائیہ کے ساته پڑهئیے آپ بهی کہیں گے

اچها ہوا خرم تم چلے گئے
گرمئے نہ خوری طعنہ مزن مستاں را
گردست دہد توبہ کنیم یزداں را
تو فخر بدیں کنی کہ من نخونم
صدکارکنی کہ مے غلام اس ت آں را
سلیم واحد صاحب نے اس رباعی خیام کا منظوم ترجمہ یوں کیا تها
تقوی کے تفاخر رہنے دے اور زعم نہ بادہ پینے کا
اپنا بهی ارادہ رہتا ہے توبہ کے جہاں میں جینے کا
اے خون بشر کے متوالے ، بے رحم غلام حرص و ہوس
یہ بادہ کشی تو رستہ ہے معصوم خوشی کے دفینے کا

شہید خرم زکی کی ڈائری کا ایک ورق

22 February 2016

ابھی ایک روز قبل ہی اسلام آباد سے واپسی ہوئی، مولوی برقعہ کیخلاف ایف آئی آر کے انداراج کیلئے کئی روز سے خاندان سے دور، اکا دکا سچے یاروں کے ہمراہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چکر کاٹ رہا ہوں، لیکن ابھی تک نتیجہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ کی مثل۔۔۔۔ کوئی سنجیدہ پیشرفت نظر نہیں آرہی ، لیکن میری واپسی بھی اس راہ سے ممکن نہیں، ایف آئی آر تو کٹوانی ہے، چاہے اس کیلئے مجھے اپنی گردن کٹوانی پڑے۔

ویسے میرا یہ جملہ سن کر اہل خانہ تھوڑا گھبرا جاتے ہیں اس لئے ان کی اسی گھبراہٹ کو ختم کے واسطے میں ان کو سکھا رہا ہوں کہ ظلم اور ظالم کیخلاف آواز کیسے بلند کرنی چاہئیے، یہ عبد العزیز اور لدھیانوی اور فاروقی جیسے مولویوں اور نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے بھیس میں چھپے دہشتگرد، جو بے گناہ افراد کیخلاف نفرت پھیلاتے ہیں، قتل عام پر اکساتے ہیں، وحشی جانوروں سے بد تر یہ لوگ طالبان اور داعش کی کمر مضبوط کرنے والے، یہ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کو کوئی آئینہ نہیں دکھائے گا، یہ ان جیسوں کی غلط فہمی ہے، کم از کم جب تک میں زندہ ہوں ، میں ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا، ان کی سرگرمیوں سے نقاب اٹھاتا رہوں گا۔

اس لئے آج میں اپنے بیوی اور بچوں کے ہمراہ کالعدم اہلسنت والجماعت کے گڑھ کے سامنے مظاہرہ کر کے آیا ہوں، مسجد کی آڑ میں ایک کالعدم جماعت کیونکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے؟ کس حیثیت سے یہ مولانا اورنگ زیب فاروقی جیسا تکفیری سرغنہ اپنے ٹٹوؤں سمیت کانفرنس کا نام پر منافرت کا بازار سجا رہا ہے؟ کیا ریاستی اداروں کی آنکھیں بند ہیں؟ یا کوئی حکومتی پشت پناہی حاصل ہے جو یہ کالعدم تنظمیں نیشنل ایکشن پلان کے سختی سے نفاذ کے باوجود کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں؟

میرا بھی عزم ہے جب تک یہ سنگین مجرمانہ غفلت جاری رہے گی میں بھی اس کا پردہ چاک کرتا رہوں گا اور مجھ میں جتنی ہمت ہے ان کا مقابلہ کروں گا، اپنے محدود وسائل کے باوجود ان کیخلاف مزاحمت جاری رکھوں گا۔ اور کیا ہوا جو میرے سوشل میڈیا کے مجاہدین اس وقت احتجاج میں میرے ساتھ موجود نہیں، میرا خانادان، بیوی، بچے اور چند مخلص رفقا بھی کافی ہیں۔

میرے احباب خفا ہوتے ہیں کہ بچوں کو ان موذی اور بد بخت تکفیری دہشت گردوں سے دور رکھوں لیکن مجھے ان کی تربیت کرنی ہے تاکہ آئندہ اگر میں کل کو ان کے ساتھ نہ بھی موجود ہوں تو یہ عادی ہوں حق بات کہنے کے، میری تو ایک دلی خواہش ہے کہ کاش یہ فاروقی اور لدھیانوی علم کے میدان میں میرے حریف ہوتے، میں بھی در علم ؑ کی عطا سے وار کر کے ایک علمی مناظرے میں ان منافقین کی اصلیت کھول کر دنیا کو سمجھا دیتا کہ یہ علم اور جہل میں فرق پہچانیں ان فرقہ پرستوں کی حقیقت جانیں جو علم سے مانند ِ ابو جہل دور دور تک واسطہ نہیں رکھتے۔ یہ صرف فرقہ پرستی، انتشار اور نفرت پھیلا سکتے ہیں اور اس کے سوا ان سے کوئی توقع ہی عبث ہے۔ اب باقی حال دل جب فرصت میسر آئی تو سپرد کروں گا ڈئیر ڈائری

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.