پنجاب میں عسکریت پسند گروہ – محمد عامر رانا – بی بی سی اردو
پنجاب میں جس قسم کے آپریشن کی ضرورت ہے، اس کے تناظر کو سمجھنے کے لیے عسکریت پسند گروہوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
پنجاب میں تین طرح کے شدت پسند گروہ کام کر رہے ہیں۔ اول کالعدم تنظیمیں ہیں، جیسے جیشِ محمد، سپاہِ صحابہ، لشکرِ طیبہ وغیرہ۔ ان میں سے پہلے دو گروہ جو تحریک طالبان پاکستان کے بھی اتحادی ہیں کا تعلق دیوبندی مسلک کے ساتھ ہے جبکہ لشکر طیبہ سلفی یا اہلحدیث ہے
دوسرے، ان تنظیموں کے بعض انتہا پسند افراد یا گروپ نے بڑی تنظیموں جیسے القاعدہ، داعش، تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار سے اتحاد کیا ہے اور صوبے میں بڑی دہشت گرد تنظیموں کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔
تیسرے وہ عسکریت پسند جن کا ماضی شدت پسندانہ نہیں ہے اور اس میدان کے نئے کھلاڑی ہیں اور کسی بڑے گروپ میں شامل ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ بڑے گروپوں کو متاثر کرنے کے لیے اپنے طور پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی میں پائے جانے والے چند تکفیری ذہن کے لوگ شامل ہیں
ان تینوں گروہوں کا پھیلاؤ پورے پنجاب میں ہے۔ جنوبی اور شمالی پنجاب کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ تنظیموں نے بڑے گروپوں سے الحاق کیا ہے، ان گروہوں کے نیٹ ورکس کی بنیاد پر پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جنوب میں فرقہ وارانہ تنظیموں اور تحریک طالبان پاکستان کا گٹھ جوڑ موجود ہے۔ شمالی حصے میں ان کے علاوہ جماعت الاحرار بھی حصہ دار کے طور پر نمایاں ہے اور وسطی پنجاب میں تینوں طرح کے گروپ صورت حال کو پیچیدہ بناتے ہیں۔