اکابرین دیوبند کی طرف سے وہابی، نجدی سعودی فرقے کی مذمت کا اعلان – تاریخی حقائق اور حوالوں کے ساتھ

13226877_634628440034732_6384836249363813743_n13239030_634628550034721_1892693292179686699_n

حضرات علمائے دیوبند نے اپنی کتب میں باربار وہابی، سلفی اور سعودی نجدی عقائد کی زبردست تردید کی ہے ۔مثلاً:

مولانا خلیل احمد اینٹھوی دیوبندی (۱۸۵۲ء۔ ۱۹۲۷ء) لکھتے ہیں:

’’ ان کا ( محمد بن عبدالوہاب نجدی او ر اس کے تابعین) عقیدہ یہ ہے کہ بس وہ ہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ مشرک ہے اوراس بناء پر انہوں نے اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھاتھا‘‘۔(المسند علی المفند، مطبوعہ کراچی صفحہ ۲۲)

(نوٹ)۔۔۔اس کتاب پر شیخ الہند و شیخ الدیوبند مولانامحمود حسن(۱۸۵۱ء ۔ ۱۹۲۰ء) حکیم الامت دیوبند مولانا اشرف علی صاحب تھانوی (۱۸۶۳ء ۔ ۱۹۳۴ء) مولانا المفتی کفایت اللہ دہلوی (۱۸۷۵ء۔ ۱۹۵۳ء ) جیسے اکابر کے تصدیقی دستخط موجود ہیں۔

مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری (۱۸۷۵ء۔ ۱۹۳۴ء) سابق شیخ الحدیث دیوبند لکھتے ہیں کہ ’’اما محمد بن عبدالوہاب النجدی فانہ کان رجلا بلیدا قلیل العلم فکان یتسارع الی الحکم بالکفر‘‘ ۔(فیض الباری مطبوعہ قاہرہ ۱۹۳۸ء)

ترجمہ:’’یعنی محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک کم علم اور کم فہم انسان تھا۔ اس لئے کفر کا حکم لگانے میں اسے باک نہ تھا‘‘۔

۳– الشہاب الثاقب: اس کتاب کا پورا نام”الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب“ ہے ۔ یہ کتاب حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کی پہلی تصنیف ہے اور آپ رحمة اللہ علیہ نے یہ کتاب قیام مدینہ منورہ کے دوران تحریر فرمائی۔ پس منظر اس کتاب کی تالیف و تصنیف کا یہ ہے کہ جب ہندوستان کے ایک عالم مولوی احمد رضا خان صاحب نے اکابر علماء دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ، مولانا رشید احمدگنگوہی رحمة اللہ علیہ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمة اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ و دیگر چند اکابر اہلسنّت و الجماعت کی کتابوں سے عبارتیں ان کے سیاق وسباق سے الگ کرکے علماء حرمین کے سامنے پیش کیا، غرض یہ تھی کہ (معاذ الله) ان حضرت کے ایسے کفریہ عقائد ہیں، لہٰذا آپ ان کے کفر کا فتویٰ دیدیجئے۔ چونکہ اہل عرب، ہندوستان کے علماء سے زیادہ واقف نہ تھے اس لئے انہوں نے سوالات ہی کو سامنے رکھ کرجواب دیدیا کہ اگر واقعی یہ عقائد انہی کے ہیں جن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں تب وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ مولوی احمد رضا خان صاحب نے یہ فتاوی حاصل کئے اور بعد میں انھیں حسام الحرمین کے نام سے شائع کردیا

حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو انہوں نے علماء حرمین سے رابطہ کیا اورانہیں اصل صورت حال سے آگاہ کیا۔ علماء حرمین حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ سے بخوبی واقف تھے بلکہ بعض اعیان وعلماء کے صاحبزادے حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کے شاگرد بھی تھے۔ جب انہیں یہ صورتحال معلوم ہوئی تو وہ بہت پریشان ہوئے کہ ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ غرض اس خوفناک سازش کی صورت میں حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ نے مسلک حق مسلک دیوبند اہلسنّت والجماعت کی حمایت و نصرت، وہابیت و سلفیت کی مذمت اور اظہار حقیقت احوال واقعیہ کیلئے ایک تفصیلی کتاب بنام”الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب“ تحریر فرمائی۔ اس کا سب سے عمدہ اور حامل افادیت ایڈیشن ”دارالکتاب لاہور“ سے شائع ہوا ہے۔

مولانا حسین احمد مدنی (۱۸۷۹ء۔ ۱۹۵۷ء) شیخ الحدیث دیوبند رقم طراز ہیں:

—(الف):’’ محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل عالم و تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل و قتال کرنا اور ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے۔ (الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند صفحہ ۲۳)

۔۔۔(ب)’’زیارت رسول مقبول ﷺ وحضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو یہ طائفہ بدعت حرام وغیرہ لکھتا ہے۔ (ایضاً صفحہ ۴۵)

۔۔۔(ج):’’ شان نبوت و حضرت رسالت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلا م میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مماثل ذات سرور کائنات خیال کرتے ہیں۔۔۔ توسل دعا میں آپ کی ذات پاک سے بعد وفات ناجائز کہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کامقولہ ہے کہ معاذاللہ معاذاللہ ۔ نقل کفر کفر نباشد۔ کہ ہمارے ہاتھ کی لاٹھی ذات سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم کوزیادہ نفع دینے والی ہے، ہم اس سے کتےّ کو بھی دفع کر سکتے ہیں ، اور ذات فخر عالم ﷺ سے تو یہ بھی نہیں کر سکتے‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۴۷)

۔۔۔(د):’’وہابیہ کثرت صلوٰۃ و سلام و درود برخیرالانام علیہ السلام اور قرات دلائل الخیرات و قصیدہ بردہ و قصیدہ ہمزیہ وغیرہ۔۔۔ کو سخت قبیح ومکروہ جانتے ہیں‘‘(ایضاً صفحہ۶۶)

’’الحاصل وہ (محمد بن عبدالوہاب نجدی) ایک ظالم و باغی خو نخوار فاسق شخص تھا‘‘۔(ایضاً صفحہ ۴۲)

مولانا حسین احمد مدنی کتاب ’’ الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب‘‘ کے مندرجہ ذیل اقتباسات وہابیہ نجدیہ کے متعلق سواد اعظم اہل سنت کے نقطہ نگاہ کو بالکل واضح ، غیرمبہم اور صاف لفظوں میں پیش کرتے ہیں:۔

*۔۔۔’’وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالۃ جانتے ہیں اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ واہیہ ، خبیثہ استعمال کرتے ہیں اوراس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہو گئے ۔ چنانچہ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعویٰ حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل درآمد کا ہرگز جملہ مسائل سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر نہیں ہے۔ بلکہ وہ بھی اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالف فقہ حنابلہ خیال کرتے ہیں اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑ دیتے ہیں، ان کابھی مثل غیرمقلدین کے اکابر امت کی شان میں الفاظ گستاخانہ بے ادبانہ استعمال کرنا معمول بہ ہے‘‘۔(الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب صفحہ۶۲،۶۳)

*۔۔۔’’ان وہابیہ نجدیہ کا اعتقاد یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے واسطے حیات فی القبور ثابت نہیں بلکہ وہ بھی مثل دیگر مسلمین کے متصف بالحیوۃ البرزخیہ اسی مرتبہ سے ہیں۔ پس جو حال دیگر مومنین کا ہے وہ ہی ان کا ہوگا۔ یہ جملہ عقائد ان کے ان لوگوں پر بخوبی ظاہر وباہر ہیں جنہوں نے دیار نجد عرب کا سفر کیاہویا حرمین شریفین میں رہ کر ان لوگوں سے ملاقات کی ہو یاکسی طرح سے ان کے عقائد پر مطلع ہواہو۔ یہ لوگ جب مسجد شریف نبوی میں آتے ہیں تو نماز پڑھ کر نکل جاتے ہیں اور روضہ اقدس پر حاضر ہو کر صلوٰۃ وسلام و دعا وغیرہ پڑھنا مکروہ و بدعت شمارکرتے ہیں۔ ان ہی ا فعال خبیثہ و اقوال واہیہ کی وجہ سے اہل عرب کو ان سے نفرت بے شمار ہے‘‘۔(ایضاً صفحہ ۶۵، ۶۶)

شہاب ثاقب میں مولانا حسین احمد مدنی نے عقائد نجدیہ وہابیہ کی نہ صرف شدت و غلظت کے ساتھ تردید کی بلکہ ان کے عقائد مردودہ کے جواب میں ذات رسالت مآب ﷺ ، اولیائے کرام کی بابت اپنے عقائد، سواد اعظم اہل سنت والجماعت کے مطابق پیش کرتے ہیں۔

(۱)۔۔۔حضور ﷺ کی حیات دنیا تک محدود نہیں بلکہ ہرحال میں زندہ و پائندہ ہیں ۔ (الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب صفحہ ۴۵)

(۲)۔۔۔ دربار رسالت ؐ میں حاضری کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے اورہمارے اکابر نے اس کے لئے سفر کیا ہے۔(ایضاً صفحہ ۴۶)

(۳)۔۔۔ہم توسل بالنبی ﷺ کے قائل ہیں (ایضاً صفحہ ۵۷)

(۴)۔۔۔ہم اشغال باطنیہ کے قائل وعامل ہیں۔(ایضاً صفحہ ۶۰)

(۵)۔۔۔ذکر رسالت مآب ﷺ بلکہ اولیاء اللہ کے ذکر کو بھی ہم مستوجب برکت سمجھتے ہیں۔(ایضاً صفحہ ۶۷)

(۶)۔۔۔ہم ہر قسم کے درود کو جائز سمجھتے ہیں۔(ایضاً صفحہ ۶۶)

(۷)۔۔۔مسجد نبوی ؐ یا کسی اور مقام پر یارسول اللہ کہنا بھی ہمارے نزدیک جائز ہے۔(ایضاً صفحہ ۶۵)

حکیم الامت مجد د دین و ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے ملفوظات میں لکھتے ہیں کہ اگر وہابیت سے مراد محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار مراد لئے جائیں یا غیر مقلدین جیساکہ ہمارے ہاں اب جماعت اسلامی اور غیر مقلدین اہل حدیث کو وہابی کہا جاتا ہے بلکہ ہمارے پشاور و افغانستان کے علاقوں میں تو ان کو ان کے ان ناموں سے کوئی نہیں جانتا ہے انہیں ان دیار میں وہابی ہی کہاجاتا ہے تو اس معنی میں ہمارے اکابر نے اپنے وہابیت کا انکار پہلے بھی کیا اور اب بھی ہم کرتے ہیں ۔آج کل ہمارے دیار میں وہابی ان کو کہا جاتا ہے جو:
(۱)تصوف اور بیعت طریقت اور اسکے اشغال ذکر مراقبہ توجہ کے سخت مخالف و منکر ہیں جبکہ الحمد للہ علمائے دیوبند ان پر کاربند ہیں۔
(۲)تقلید شخصی کے مخالف ہیں مگر ہمارے اکابر اسے واجب کہتے ہیں اور خو د سراج الآئمہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔
(۳)توسل کے منکر ہیں ہم قائل ہیں ۔
(۴)بزرگان دین و محترم شخصیات سے تبرکات کے منکرہم قائل۔
(۵)حیات النبی ﷺ کے منکر ہیں جبکہ ہم زور و شور سے اس کے قائل ہیں اب تک اس عقیدے کے ثبوت پر ہمارے علماء کئی مناظرے کرچکے ہیں۔
(۶)روضہ مبارک ﷺ کیلئے سفر کو ممنوع قرار دیتے ہیں جبکہ ہم اسے افضل المستحبات جانتے ہیں۔
(۷)نبی کریم ﷺ کے روضہ مبارک کے سامنے سلام و تشفع کے منکر ہیں ہم اس کے قائل ہیں ۔

غرض اس معنی میں ہمیں ’’وہابی ‘‘ کہنا یا سمجھنا تہمت صریح و کذب بیانی ہے اور ہمارے اکابر نے بھی اس معنی میں خود پر وہابیت کی تہمت کی سختی سے تردید کی ہے

چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کتنے غضب اور ظلم کی بات ہے کہ ہمارے بزرگوں کو بدنام کرتے ہیں اور وہابی کے لقب سے یاد کرتے ہیں ہمارے قریب میں ایک قصبہ ہے جلال آباد وہاں پر ایک جبہ شریف ہے جو حضور ﷺ کی طرف منسوب ہے اس کی زیار ت حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا شیخ محمد صاحب کیا کرتے تھے اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق میرے خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا کہ اگر منکرات سے خالی وقت میں زیارت میسر آنا ممکن ہو تو ہرگز دریغ نہ کریں بتلائے یہ باتیں وہابیت کی ہیں ان بدعتیوں میں دین تو ہوتا نہیں جس طرح جی میں آتا ہے جسکو چاہتے ہیں بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں خود تو بد دین دوسروں کو بد دین بتلاتے ہیں‘‘ ۔ ( ملفوظات ،ج4،ص32،ملفوظ 55)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

’’ایک جماعت ہے جو ہم لوگوں کو وہابی کہتی ہے لیکن ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ ہمیں کس مناسبت سے وہابی کہتے ہیں کیونکہ وہابی وہ لوگ ہیں کو ابن عبد الوہاب کی اولاد میں سے ہیں یاوہ لوگ ہیں جو اس کا اتباع کرتے ہیں ابن عبد الوہاب کے حالات کتابوں میں موجود ہیں ہر شخص ان کو دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے کہ وہ نہ اتباع کی رو سے ہمارے بزرگوں میں ہیں نہ نسبت کی رو سے البتہ آج کل جن لوگوں نے تقلید چھوڑ کر غیر مقلدی اختیار کرلی ان کو ایک اعتبار سے وہابی کہنا درست ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے اکثر خیالات ابن عبد الوہاب سے ملتے ہیں ہم لوگ حنفی ہیں کیونکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اصول چار ہیں کتاب اللہ حدیث رسول اجماع امت اور قیاس مجتہد سوا ان چار کے اور کوئی اصل نہیں اور مجتہد بہت سے ہیں لیکن اجماع امت سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چار امام یعنی امام ابو حنیفہ امام شافعی امام احمد بن حنبل اور امام مالک رحمھم اللہ کے مذاہب سے باہر ہوجانا جائز نہیں نیز یہ بھی ثابت ہے کہ ان چاروں میں جس کا مذہب رائج ہو اس کا اتباع کرنا چاہئے تو چونکہ ہندوستان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب رائج ہے اس لئے ہم انہیں کا اتباع کرتے ہیں ہم کو جولوگ وہابی کہتے ہیں قیامت میں اس بہتان کی ان سے باز پرس ضرور ہوگی ‘‘۔( اشرف الجواب )

نوٹ: دیوبندی علما کے علاوہ اہل حدیث اور بریلوی علماء نے بھی گمراہ گن وہابی اور نجدی نظریات کی مذمت کی

برصغیر کے بڑے اہلحدیث عالم نواب محمد صدیق حسن خان (۱۲۴۸ھ۔ ۱۳۰۷ھ) اورمولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری (م۔ ۱۹۴۸ء) نے طائفہ نجدیہ وہابیہ سے نہ صرف بیزاری و لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی شخصیت اور تعلیمات کو درخور اعتناء بھی نہیں سمجھا اور اسے مسترد کر دیا – چنانچہ انہوں نے سرکار انگلشیہ سے پورے شدومد کے ساتھ التجاء کی تھی کہ بجائے فرقہ وہابیہ کے ان کواہل حدیث لکھا جائے ۔ پس بموجب چٹھی گورنمنٹ انڈیا بنام پنجاب گورنمنٹ نمبر ۱۷۵۸ مورخہ ۳؍ دسمبر ۱۸۸۹ء سرکاری دفتروں میں انہیں وہابی فرقہ کی بجائے ’’اہل حدیث‘‘ لکھنے کا حکم جاری کیا گیا اور وہابی لکھنے کی قانوناً ممانعت کر دی گئی۔

چند مزیدحوالے درج ذیل ہیں۔

*۔۔۔’’ جو کتاب مَیں( صدیق حسن خان) نے ۱۲۹۲ہجری میں لکھی ہے اور اس کانام ہدایۃ السائل ہے۔ اس ۔۔۔ میں وہابیہ کے حال میں لکھا ہے کہ ان کی کیفیت کچھ نہ پوچھو ۔۔۔ سراسر نادانی اورحماقت میں گرفتار ہیں۔ ‘‘۔ (محمدصدیق حسن خان،ترجمان وہابیہ مطبوعہ لاہور ۱۳۱۲ھ صفحہ ۲۱)

*۔۔۔پھرآگے چل کر نواب صاحب موصوف ’’ترجمان وہابیہ‘‘ میں وہابی مذہب کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ مسلمان ہند میں کوئی مسلمان وہابی مذہب کا نہیں ہے اس لئے کہ جو کارروائی ان لوگوں نے ملک عرب میں عموماً اور مکّہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں خصوصاً کی اور جو تکلیف ان کے ہاتھوں سے ساکنان حجاز و حرمین شریفین کوپہنچی وہ معاملہ کسی مسلمان ہند وغیرہ کے ساتھ اہل مکہ و مدینہ کے نہیں کیا۔ اوراس طرح کی جرأت کسی شخص سے نہیں ہو سکتی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فتنہ وہابیوں کا ۱۸۱۸ء میں بالکل خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد کسی شخص امیر وغریب نے اس ملک میں بھی پھر سر نہ اٹھایا‘‘۔(ایضاً صفحہ۴۰)

’’۔۔۔ مشہور ہے کہ اہل حدیث کے مذہب کا بانی عبدالوہاب نجدی ہوا ہے مگر حاشا و کلا ہمیں اس سے کوئی بھی نسبت نہیں ۔۔۔ آج تک کسی نے نہ دیکھا ہوگا کہ اہل حدیث نے کبھی بھولے سے بھی عبدالوہاب نجدی کے اقوال کو سنداً پیش کیا ہو کہ ھذا قول امامنا عبدالوھاب و بہ ناخذ (یہ قول ہمارے امام عبدالوہاب کا ہے اور اس سے ہم اخذ کرتے ہیں) ۔(ثناء اللہ امرتسری، مولانا۔ اہل حدیث کا مذہب مطبوعہ لاہور ۱۹۷۵ء صفحہ ۱۰۸، ۱۰۹)

سعودی ریالوں اور امریکی ڈالروں کی چمک

وہابی نجدی ریاست کی بنیاد برطانیہ نے لارنس آف عریبیہ اور سعودی خاندان کی مدد سے رکھی تھی جنہوں نے مسلمانوں کی آخری خلافت عثمانیہ سے غداری کی اور حجاز میں لاکھوں اہلسنت حنفی، مالکی اور شافعی کا خون بہایا – اسی ریاست کی پشت پناہی آج امریکہ اور اسرئیل کر رہے ہیں – بد قسمتی سے آج کے دور میں پیٹرو ڈالرز کی چمک نے بعض بد بختوں کی آنکھوں کو چکا چوند کر دیا ہے – *۔۔۔انقلاب روزگارملاحظہ فرمائیے کہ آج بعض نادان و لالچی دیوبندی اور اہل حدیث خود محمد بن عبدالوہاب کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں ۔ کتاب التوحید وغیرہ کی اشاعت میں سرگرم ہیں ۔ اس کا ترجمہ پشتو اوراردو زبان میں کروا کر پاکستان، بھارت اور افغانستان میں تقسیم کر رہے ہیں اوراس کے نام سے کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں ۔ اس باب میں بعض نادان یا ریال خور اہل حدیث، دیوبندی اورمودودی جماعت کے لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حکومت سعودیہ نجدیہ کی خوشنودی مزاج کے لئے مستعد ہیں۔ تاویلات گھڑ ی جا رہی ہیں کہ حسین احمد مدنی اور صدیق حسن خان کو غلط فہمی ہوئی تھی یا پر ان اکابرین پر تہمت بازی کی جارہی ہے یر ہے اور یہ سب بکواس لکھنے والے سعودی وہابی حکومت کے تنخواہ دار یا وظیفہ خوار ہیں

گردش دوراں سے اب بعض ریال خور مولویوں کو ’’فیصل ایوارڈ ‘‘ ملتے ہیں اور حکومت سعودیہ نجدیہ کے زیر اہتمام مساجد کی عالمی تنظیم کے معتبر رکن بنے ہوئے ہیں۔ نجدیت پرستی میں یہاں تک غلو کیاہے کہ اہل سنت کی دینی سرگرمیوں کے خلاف جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور عام سنی مسلمان کو وہابی تعلیمات کی طرف راغب کر رہے ہیں

ہمیں ان کی اقتدار نجدیت کے سامنے جبہ سائی اور مدح سرائی سے کوئی غرض نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں اس امرکا احساس نہیں کہ ذات رسالت ماب ؐ ، اہلبیت عظام، صحابہ کرامؓ اور اولیاء اللہ ؒ کے خلاف وہابیوں نے جو گل افشانیاں کی ہیں، جنت البقیع میں حضرات صحابہ کرام اور اہلبیت کے مزارات کو بلڈوز کی گیا، اس پر بھی ذرا توجہ فرمائیں۔ حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے فیصلہ ہفت مسئلہ اوراپنے مجموعہ عقائد موسومہ المہند کی سفارشات کو بھی نافذالعمل کریں ۔ نیز جہاں جماعت اسلامی کے بعض ریال خور بھی اپنے بانی مودودی صاحب کی نگارشات بسلسلہ نجدیت وہابیت سے رجوع کر کے آج سعودی وہابی کی نمائندگی اور گماشتگی کے فرائض ادا کر رہے ہیں – کیونکہ اہل سنت کے پاس قوت و شوکت کا وہ سامان نہیں جو حکومت نجدیہ سعودیہ کے پاس موجود ہے۔ یاد رہے کہ مولانا مودودی نے حج کے ناقص انتظامات اور دیگر رسومات کی ادائیگی میں کوتاہی پر بھی سعودی وہابی حکومت پرشدید تنقید کی تھی

Comments

comments