سنی شیعہ وحدت کی جانب اہم قدم – شامی اہلسنت محقق کی کتاب “فقہ الآل” پر تبصرہ – از علامہ عمار خان ناصر
چند دن قبل جامعہ الکوثر اسلام آباد کے استاذ جناب امجد عباس نے کسی ملاقات میں والد گرامی کو ایک کتاب کا ہدیہ پیش کیا جو شام کے ایک سنی محقق الشیخ امین بن صالح ہران الحداء کی تصنیف کردہ ہے اور اس پر شام ہی کے پانچ جید سنی علماء کی تقریظات بھی درج ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ’’فقہ الآل بین دعوی الاہمال وتہمۃ الانتحال‘‘ اور ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب سوریا کے دار الایمان للطباعۃ والنشر کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ جیسا کہ عنوان سے واضح ہے، مصنف نے اس کتاب میں ائمہ بیت کے فقہی اجتہادات کے حوالے سے طرفین کے موقف کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اہل تشیع کو یہ شکایت ہے کہ اہل سنت کے فقہی ذخیرے میں ائمہ اہل بیت کے اجتہادات کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس ذخیرے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جبکہ سنی علماء (جن میں امام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ) سر فہرست ہیں، یہ رائے رکھتے ہیں کہ فقہ جعفری کے عنوان سے فروعات ومسائل کا ذخیرہ مستند نہیں اور اسے گھڑ کر ائمہ اہل بیت سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
مصنف نے ان دونوں دعووں کی تحقیق کے لیے جو طریقہ اختیارa کیا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام ابواب فقہ میں سے امہات مسائل منتخب کر کے ان سے متعلق پہلے ائمہ اہل بیت سے مروی ان روایات کی نشان دہی کی گئی ہے جو سنی مآخذ میں نقل ہوئے ہیں۔ اس کے بعد فقہ جعفری کی کتب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امام جعفر صادق ودیگر ائمہ کا فتویٰ بھی اسی قول کے مطابق ہے جو سنی مآخذ میں سیدنا علی یا اہل بیت کے دیگر ائمہ سے مروی ہیں۔ اس طریقہ تحقیق کے تحت مصنف کل ایک ہزار اڑتالیس (۱۰۴۸ ) امہات مسائل کا جائزہ لیا ہے اور تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں سے نو سو نواسی (۹۸۹) مسائل میں سنی مآخذ میں ائمہ اہل بیت کا جو مسلک منقول ہے، بعینہ وہی موقف فقہ جعفری کی کتب میں بھی نقل کیا گیا ہے، جبکہ اکیاون (۵۱) مسائل میں دونوں مآخذ کا باہم اختلاف ہے، یعنی شیعہ مآخذ میں جو موقف نقل کیا گیا ہے، سنی مآخذ میں ائمہ اہل بیت کا فتویٰ اس سے مختلف مروی ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ مسائل میں طرفین کے مآخذ کا جزوی اتفاق اور جزوی اختلاف ہے۔
اس تحقیق سے مصنف نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نہ تو اہل تشیع کا یہ الزام درست ہے کہ سنی ذخیرۂ روایات میں ائمہ اہل بیت کے فقہی اجتہادات کو نظر انداز کیا گیا ہے او رنہ سنی علماء کی یہ بدگمانی مبنی بر تحقیق ہے کہ فقہ جعفری کا زیادہ تر ذخیرہ غلط نسبت پر مبنی اور ناقابل اعتماد ہے۔
مجھے مصنف کے یہ نتائج تحقیق درست اور وزنی معلوم ہوتے ہیں، البتہ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سنی مآخذ میں ائمہ اہل بیت کے اقوال کا شاید اسی، نو ے فی صد حصہ سیدنا علی اور سیدنا عبد اللہ بن عباس یعنی فقہائے صحابہ تک محدود ہے۔ بعد کے ائمہ، خاص طو رپر امام محمد باقر، امام جعفر صادق، امام زید بن علی رحمہم اللہ کے فقہی اجتہادات سنی فقہی روایت میں زیادہ بار نہیں پا سکے، خاص طور پر ان ائمہ کو ’’فقہ جعفری‘‘ کے عنوان سے ایک خاص مذہبی عصبیت میسر آ جانے کے بعد قابل فہم وجوہ سے اس ذخیرے سے عدم اعتناء کا رویہ غالب آتا چلا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب