خرم زکی منزل مراد پاگیا – توقیر ساجد
انسانیت پہلے بھی سسکتی تھی، اب بھی سسک رہی ہے، بلکہ اب پہلے سے زیادہ گھائل ہے۔ ناانصافیاں پہلے بھی ہوتی تھیں، آج بھی ہو رہی ہیں اور عالمی پیمانے پر ہو رہی ہیں۔ طاقت ور کمزور کو پہلے بھی نگل جاتا تھا، آج بھی نگل رہا ہے اور آج اس کے جبڑے پہلے کی نسبت بہت چوڑے اور طاقت ور ہیں۔ مظلوم کی حمایت پہلے کسی درجے میں ہوتی تھی، آج اس کا مدار مفادات پر ہے، اگر اپنا مفاد ہو تو آواز اٹھائی جاتی ہے ، نہ ہو تو مظلوم کو بھاڑ میں جلتا دیکھ کر تماشا دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں تین دہائیوں سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ آئے روز دہشتگردی کے واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ہی مرد مجاہد کی آواز بلند ہوتی تھی، ایک ہی شخص ہوتا تھا جو پاکستانی قوم کو پاکستانی کی سلامتی کے دشمنوں اور اسلام کے حقیقی چہروں سے کو مسخ کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب کرتا رہا۔
خرم زکی کے نظریہ میں انسانیت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس حوالے سے عوامی شعور پیدا کرنا تھا، بہت سے ایسے مواقع دیکھنے کو ملے کہ جب کچھ احباب مصلحت پسندی کا شکار ہو جاتے تھے، لیکن خرم زکی حق گوئی سے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوتے تھے۔ عوامی حلقوں میں انہیں ایک خاص مسلک سے منسوب کیا جاتا رہا ہے اور انکی مظلومیت کی داستان بھی یہی نوحہ سناتی ہے کہ ان کی شہادت پر لوگوں نے ان کی جہد مسلسل کو ایک مسلک سے منسوب کر دیا۔
مسلک جو پتہ چلا مسافر کی لاش کا
چپ چاپ آدھی بھیڑ گھروں کو چلی گئی
شہید سید خرم زکی نے ہمیشہ مظلومین کی حمایت کیلئے آواز بلند کی۔ انہوں نے انسانیت و حق گوئی کو اپنی ترجیحات میں رکھا۔ شیعہ، صوفی، سنی، احمدی، ہندو، سکھ، عیسائی اور وہ تمام طبقات جنہیں پاکستان میں دبانے کی کوشش کی جاتی رہی، کے لئے ہر ممکن آواز بلند کی۔ یہ خرم زکی ہی تھا کہ جنہوں نے جنوری 2013ء میں ہزارہ کمیونٹی کے 130 افراد کی شہادت پر وزیراعظم سے ہونے والے مذاکرات میں بھی بے باکی کا مظاہر ہ کیا تھا۔ خرم زکی نے بارہا اس بات کو دہرایا تھا کہ پاکستان کے اندر اس وقت جو مذہبی دہشت گردی ہے، وہ مسالک کی باہمی خانہ جنگی کا نتیجہ ہے اور یہ کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں ہے، بلکہ وہ اس فکری مغالطے کو دور کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان میں آج جو دہشت گردی ہے، یہ ایک انتہائی مختصر گروہ کی ہے۔
جو ملک کے شیعہ، صوفی، سنی بریلوی، اعتدال پسند دیوبندی، اہلحدیث، ہندو، مسیحی اور دیگر مذہبی برادریوں، فوج، پولیس، ریاستی، غیر ریاستی اداروں اور معصوم شہریوں کے خلاف ہے اور اس مائنڈ سیٹ کا مقابلہ سب متاثرین دہشت گردی ملکر اور اجتماعی جدوجہد کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں، یعنی خرم زکی قائداعظم کے پاکستان کے خواب کو حقیقی طور پر عملی جامہ پہنانے کیلئے کوشاں تھے۔ سوشل میڈیا اور ان کے قریبی عزیز و احباب ان سے اس بات کی تکرار کرتے تھے کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے، اپنے موقف میں نرمی کا مظاہرہ کریں، لیکن خرم زکی پاکستان و اسلام دشمن عناصر کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ پاکستانی پرچم میں لپٹا سید خرم زکی اپنی منزل مراد پا گیا اور اپنے پیغام کو اپنے خون سے اس پاکستانی عوام کو منتقل کرکے منوں مٹی تلے ابدی نیند سوگیا
Source:
http://www.qalamkar.pk/khurram-zaki-got-destination/