پاکستانی عدالتوں میں بیٹھے دہشت گردوں کے حمایتی
پاکستان میں اب کسی کا بھی محفوظ رہنا نا ممکن ہو چکا ہے کیونکہ دہشت گرد اور ان کے حامی ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکے ہیں حتی کہ سیکورٹی اداروں اور عدالتیں بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں – کیا آپ یقین کریں گے کہ اسامہ بن لادن کا وکیل آج اسلام آباد کی ایک عدالت میں بطور جج بیٹھا ہوا ہے – کیا آپ جانتے ہیں کہ دا عش کو پاکستان آنے کی دعوت دینے والے مولوی عبدلعزیز اور کالعدم تکفیری دیوبندی سپاہ صحابہ کا وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیٹھا ” انصاف ” بانٹ رہا ہے –
کیا آپ کو معلوم ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بھائی کالعدم تکفیری دیوبندی گروہوں کے سرگرم رکن ہیں اور اسی سلسلے میں جیل کاٹ چکے ہیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام آباد انٹی ٹیررازم ہائی کورٹ کا جج شوکت عزیز صدیقی ہے جو سپاہ صحابہ کا وکیل اور مولوی عبدل عزیز کا وکیل رہ چکا ہے – اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس جج کو ہی روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف رپورٹس جمع کرا رہے ہونگے – یہ جج منظور احمد صاحب خاندانی دیوبندی ہیں اور ان کے بھائی اور تبلیغی جماعت کے اجتماع میں معمول کے مطابق شرکت کرتے ہیں – انھیں جج کا رجسٹرار صفدر سلیم سیال سپاہ صحابہ کی مجلس شورا کا رکن اور ریاض بسرا کا قریبی دوست رہا ہے – کچھ ماہ قبل یہ دونوں جج عمرے پر بھی ایک ساتھ گیے تھے –
مولوی عبدلعزیز کے خلاف ہونے والے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایک جج عامر فاروق کا کہنا تھا کہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف مولانا عبدلعزیز کے نفرت انگیز بیانات اور شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی ایک معمول کا معاملہ ہے اور اس معاملے کو لے کے عدالت کا قیمتی وقت برباد نا کیا جائے – ایک اور جج پرویز اسماعیل جوییہ بھی سپاہ صحابہ کا رکن اور ہمدرد رہا ہے
جج محسن اختر کیانی نے خرم زکی کی درخواست پر بیان دیا کہ آپ لوگ بغیر کسی وجہ کے عدالتوں میں بھاگے پھرتے ہو ، اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سو رہے ہیں تو آپ بھی جا کے سو جایں
پاکستانی عدالتوں میں تکفیری دیوبندی لابی بہت مضبوط ہے اور کم سے کم اکیس سیشن ، ڈسٹرکٹ اور سنئیر جج ہیں جن کا اپنا یا انکے خاندانوں کا تعلق سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گرد گروہ سے رہ چکا ہے –
میرا سوال یہ ہے کہ آپ دہشت گردی پر اس سوچ کے ساتھ کیسے قابو پانا چاہتے ہیں ؟