شہید ہوگئے کچھ اور تیرے لعل یا حسینؑ ‘‘ تحریر: سیّد تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ ۔ برطانیہ”

13233144_10154219088062028_1099629657845109162_n

13230097_10201742342557065_5155248745444676858_n

عرصہ دراز سے مملکتِ خداد اد پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔تکفیریوں کی طرف سے ۸۰ ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو شہید کیا گیا۔پاکستان آرمی، پولیس، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، انسانی حقوق کے نمائندوں، صحافیوں ، ڈاکٹرز ، انجینئرز سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکی شہادتوں کی ایک طویل داستان ہے ۔ اس طویل داستان میں ایک اور داستان گو بھی شامل ہوئے، ایک اور شہید کا اضافہ ہو ا،ایک اور لاش گری ،ایک اور چراغ گل ہوا، ایک اور مو ٗ ثر اور توانا آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا، وحشت اور دہشت نے ایک اور قیمتی جان کو نگل لیا،

کل تک شہدا کا مرثیہ لکھنے اور کہنے والا آج خود بھی اسی راہ کو اختیار کر چلا۔پنجتن کو اپنا رہبر و پیشوا ماننے والے کاسینے پر پانچ گولیاں کھا کر پنجتن پر قربان ہونے کا ارمان پورا ہوا،نسلِ یذیدنے ایک اور حسینی کو آوازِ حق بلند کرنے کی پاداش میں شہید کردیا۔سیّد خرم زکی تمہارے استقبال میں حیاتِ برزخی سے سرفراز کی گئی تمام روحیں حاضر ہیں اور خدائی کو تم پر ناز ہے ۔تمہارے جانے کے بعد خلقِ خدا کی زباں نقار ۂ خداوندی بن گئی ہے اور ظالموں کو بھی تمہارے خونِ ناحق کا جواز پیش کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔

یہ سفاک قا تلین شائد یہ بھول چکے ہیں کہ شہادت اس قوم کا ورثہ ہے اورشہادت کی آرزو و جستجواِ سکے خون میں شامل ہے۔ حسینیت کے پیروکاروں کو جسمانی موت سے اُنکی سوچ و فکر اور مشن و مقصد کو شکست نہیں دیجا سکتی۔ ظلم و بربریت اور قتل وغارت سے حسینیوں کا رشتہ کربلا سے توڑا نہیں جا سکتا بلکہ ہر ایک شہادت کے بعد یہ رشتہ اور بھی مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے قیامت تک کے یذیدوں کے مقدر میں ذلت، رسوائی ، پسپائی اور لعنت لکھ دی ہے اور یہ رسوائی اور ذلت ہمیشہ کے لیے ان کے گلے کا طوق رہے گی۔

کوفہ و شام کی منافقت آمیز غلاظتوں کو صدیوں سے کربلا اور کربلا کے پیروکاروں نے اپنے پاک وپاکیزہ خون سے دھویا ہے اور یہ سلسلہ ظہور امام مہدی عجج تک جاری رہے گا۔حسینیت گلے کٹوا کر بھی زندہ باد ہے اور یذیدیت زندہ رہ کر بھی مردہ باد ہے۔ حسینی کل بھی سرخرو تھے ، آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ حسینیت کے پیروکار وں کا ان ظالم سفاک درندوں کو آج بھی یہی پیغام کہ ’’ اے وقت کے یزید سن لے تو کیا سمجھتا ہے کہ ہمیں مار کر تو فتح پا لے گا۔ ہماری آواز کو دبا دے گا۔

تو یاد رکھ ’’ قتل ہونا ہماری روایت اور اللہ تعالی کی راہ میں مرنا سعادت ہے‘‘۔ شہید سیّد خرم زکی جس راہ پر چلا ، بخوبی آگاہ تھا کہ انجام کیا ہوگا اسی لئے تواُ س نے اپنی ڈائری کے ایک ورق پر ۱۵ مارچ ۲۰۱۶ ء کو اسلام آباد میں کچھ یوں لکھا تھا کہ ’’ میں ان تکفیری دہشت گردوں سے نہ تو خو فزدہ ہوں نہ کبھی ہوں گا، میں ان فرقہ واریت کی آگ پھیلانے والے مولویوں، دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچا کے چھوڑوں گا۔ میں اگر نہ بھی رہا تواپنی فکر منتقل کر جاؤں گا،

میں اسی قبیلہ سے ہوں جو حق کے سامنے موجود بڑی سے بڑی قوتوں سے نہیں ڈرا کرتے، سرفروشی جن کا مقصد حیات ہے۔ کم از کم مجھے میرے بیٹے سے بات کر کے یہ یقین ہو چلا کہ کسی اور میں نہ سہی میں نے اپنا عزم ، حوصلہ اور بہادری اپنے خاندان میں تو منتقل کردیا ہے۔‘‘ وہ ایک جری، بہادر، نڈر ، حق گو، اور آزاد منش مرد تھا جس نے تکفیریوں، داعشیوں، طالبان، دشمنان پاکستان و اسلام کو سرِ عام للکارا۔ وہ اس دھرتی سے پیارکرنے والا اورامن کا متلاشی تھااوراختلافِ رائے کے مہذب اظہار کی مثبت روایات قائم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

جب وہ نیوز ون میں انفوٹینمنٹ اور مذہبی پروگرامز کا انچارج تھا تو اس نے نے سعودی عرب کی جانب سے توسیع حرم کے نام سے تاریخ و آثار اسلامی مٹائے جانے کے پروجیکٹ پہ ایک تنقیدی پروگرام نشر کیا تو اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ لیکن اس نے کسی بھی طرح کے پریشر کو قبول نہیں کیا اور اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا۔وہ بنیادی طور پر ایک سکالر اور محقق تھا۔ ملک گیر ہونے والی شیعہ نسل کشی،تکفیری فاشزم، دہشت گردی و انتہا پسندی، کرسچن، احمدیوں ،سکھوں اور ہندوؤں پر ہونے والے حملوں اور انکے حقوق کی صلبی کی تیز ہوتی لہردیکھ کر اس نے ذمہ دار عناصرکی شناخت اور انکا پس منظر اور ان کے پاکستان میں اتحادیوں کو بے نقاب کرنا شروع کردیا۔وہ ایک ایسی ریاست میں آواز حق بلند کر رہا تھا کہ جہاں موثر اور طاقتور قاتل ، اسکے پس منظر میں چھپے نقاب پوشوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اُسکا قصور یہ تھا کہ وہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی اور فرقہ پرستی کو چیلنج کرتے ہوئے مذہبی اورنسلی فسطائیت کے خلاف بلا خوف و خطر آواز بلند کر رہا تھا۔وہ پاکستان میں ایک جاندار سول رائٹس کی تحریک چلانا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کی نسلی اور مذہبی برادریوں کو تکفیری سوچ و فکر اور فاشزم کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر متحدکیا جا سکے۔ وہ ایک بلاگ کا ایڈیٹر تھا جسکی ایڈمن ٹیم میں وہ واحد پاکستان میں رہنے والا رکن تھا جو اپنے اصل نام سے وہاں موجود تھا۔

اس نے سول سوسائیٹی کے ساتھ مل کر شدت پسند اور کالعدم تنظیموں کے خلاف لاتعداد مظاہرے کئے اور انکی شدت پسندانہ کاروائیوں کے خلاف انتظامیہ اور عدلیہ کے دروازے بھی کھٹکھٹائے۔اسے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا جنون تھا۔حق گوئی، حق شناسی، حق پرستی اسکا جرم تھا ۔وہ اس ملک کے نوجوانوں کے لئے ایک امید کی کرن تھااور اس ملک کی ماؤں کی گودوں کو اجڑنے اور سہاگوں کو لُٹنے سے بچانا چاہتا تھا۔ وہ اس ملک کے بچوں کو مدرسوں میں بد فعلی کا شکار ہونے سے بچانا چاہتا تھا۔ وہ اس ملک کی اگلی نسل کو دہشت گردی، فرقہ واریت،انتہا پسندی، لاقانونیت کے عفریب سے نجات دلانا چاہتا تھا۔ وہ شیعہ ، سنی، عیسائی، ہندو، سکھ ہر ایک کے خلاف ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑا ہوا اور ثابت کیا کہ وہ علیؑ کا پیرو کار ہے۔

وہ مختار سی شجاعت رکھنے والاایک ایسا مرد مجاہد تھا جو ظلم کے خلاف ہر محاذ پر سینہ سپر تھا اوردشمن کے دروازے پر جاکر دشمن کو للکارنا اُسکا شیوہ تھااور ملعون قاتلوں کے ٹولے کو اُنکے نام لیکر للکارنا اُسکی زندگی کا نصب العین تھا۔شہید سیّدخرم زکی پاکستان کی وہ دلیر آواز تھا جس نے کسی قسم کی مصلحت اور منافقت کا لبادہ اوڑھنے یا انتہا پسندوں کے خوف سے خاموش رہنے کے بجائے شدت پسندوں کا آگے بڑھ کر مقابلہ کیا۔’’مسجد ضرار‘‘کے برقعہ پوش مولوی، کالعدم سپاہ صحابہ ، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم اہلسنت والجماعت ، داعش اور طالبان کے خلاف سینہ تان کر میدان میں آیا اور تکفیری دہشت گردوں کو ہر جگہ بے نقاب کیا۔ وہ ایک پٹیشن لیکر انصاف کی غرض سے دنیاوی عدالت میں گیا لیکن اسے عدالت کی طرف سے پٹیشن خار ج کرتے ہوئے جواب ملا کہ ’’ آپ کیا منہ اُٹھا کر آگئے کراچی سے پٹیشن کرنے۔۔۔! ‘‘ شہید سیّدخرم زکی وہی پٹیشن لیے آج اللہ تعالی کی بارگاہ میں انصاف لینے کے لیے پہنچ گیا جہاں سے اُسے ضرور انصاف ملے گا۔

آج اس عظیم انسان کو شہید کردیا گیا لیکن اسکی مظلومانہ شہادت نے کئی سوئے ہوئے خرم زکی بیدار کر دیئے۔اُسکے جانے سے اُس کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ ایک نئے جوش وجذبے اور ایمانی قوت و طاقت سے جاری ہوا ۔ شہید کے مشن پر چلنے والوں کا اُنکی روح سمیت ہزاروں شہدا ء کی ارواح سے عہد ہے کہ ان تکفیریوں کے اجداد نے پاکستان بننے کی مخا لفت کی تھی لیکن ہمارے اجداد نے پاکستان بنایا تھا اسی طرح پاکستان کو بچانے اور اسکی تعمیر وترقی ا ور استحکام ، سنی شیعہ اتحاد اور تمام مذاہب ، مسالک اور رنگ و نسل کے افراد کے حقوق کے تحفظ کے لئے آپکی گراں قدر کاوشوں و قربانیوں کو جاری رکھیں گے ۔

قائد اعظم اور علامہ اقبال کے روشن پاکستان کو نفرت ، تشدد اور دہشت گردی و انتہا پسندی میں دھکیلنے والی تاریک تکفیری و خارجی قوتوں، طالبان، سپاہ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، کالعدم اہلسنت والجماعت اور اِنکے پشت پناہوں، حلیفوں، سہولت کاروں، ہمدردوں، نظریاتی و فکری ہم آہنگی رکھنے والوں کے خلاف ہمارا قلمی و علمی جہاد جاری رہے گا اوریہ وعدہ ہے کہ شہید سیّد خرم زکی کے مشن و مقصد اور جدوجہد کو ایک نئی قوت کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور ہر حق پرست و محبِ وطن پاکستانی خرم زکی کی مظلومانہ شہادت کے مرتکب سفاک درندوں ، دہشت گردو ں اور ملک و اسلام دشمن قوتوں کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کرے گا اورا نسانی خون کے پیاسے ان دھندناتے بھیڑیوں کے مکروح چہرے بے نقاب کرتے رہیں گے۔

Comments

comments