سو لفظوں کی کہانی – کوفہ اور خرم – از ابو موسیٰ اشعری
محرم کا مہینہ آتا ہے تو سب کو حسین یاد آجاتے ہیں
حسین کا نام بکتا بھی خوب ہے
نام تو خدا کا بھی بہت بکتا ہے
جب حسین بندھے احرام توڑ کر قیام کے لئے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو حجاج کی کثیر تعداد نے ان کی معیت اختیار نہ کی
شریعتی لکھتے ہیں کہ اس لمحے جو لوگ دمشق میں یزید کے محل کا طواف کر رہے تھے اور جو مکہ میں بیت الله کے گرد گھوم رہے تھے، ان میں چنداں فرق نہ تھا
کمی تو خیر کوفہ والوں نے بھی نہیں کی تھی، سنا ہے ہزاروں کی تعداد میں حسین حسین کر کے مسلم کی بیعت کی اور وقت آنے پر تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے، کیا سنی اور کیا شیعہ، سب کو اپنے اپنے باغات اور کھجور کا چننا یاد آگیا
چوتھے امام سے منسوب ہے کہ کوفہ کسی شہر یا قصبے کا نام نہیں، ہر خاموش قوم کا لقب کوفہ ہے
کوفہ کی جامع مسجد میں رات منادی ہوئی کہ معاشرے میں انتہاپسندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مقتول اپنے قتل کی مذمت بھی بندوق کے زور پر کروانا چاہتا ہے
خرم زکی، آپ نے مرنے کے بعد بھی ان بے چاروں کا پیچھا نہیں چھوڑ ا، ڈھنگ سے کھجوریں بھی نہیں چننے دیتے؟