سو لفظوں کی کہانی – کوفہ اور خرم – از ابو موسیٰ اشعری

13179422_10154163484499561_2235168386039954258_n

محرم کا مہینہ آتا ہے تو سب کو حسین یاد آجاتے ہیں

حسین کا نام بکتا بھی خوب ہے

نام تو خدا کا بھی بہت بکتا ہے

جب حسین بندھے احرام توڑ کر قیام کے لئے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو حجاج کی کثیر تعداد نے ان کی معیت اختیار نہ کی

شریعتی لکھتے ہیں کہ اس لمحے جو لوگ دمشق میں یزید کے محل کا طواف کر رہے تھے اور جو مکہ میں بیت الله کے گرد گھوم رہے تھے، ان میں چنداں فرق نہ تھا

کمی تو خیر کوفہ والوں نے بھی نہیں کی تھی، سنا ہے ہزاروں کی تعداد میں حسین حسین کر کے مسلم کی بیعت کی اور وقت آنے پر تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے، کیا سنی اور کیا شیعہ، سب کو اپنے اپنے باغات اور کھجور کا چننا یاد آگیا

چوتھے امام سے منسوب ہے کہ کوفہ کسی شہر یا قصبے کا نام نہیں، ہر خاموش قوم کا لقب کوفہ ہے

کوفہ کی جامع مسجد میں رات منادی ہوئی کہ معاشرے میں انتہاپسندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مقتول اپنے قتل کی مذمت بھی بندوق کے زور پر کروانا چاہتا ہے

خرم زکی، آپ نے مرنے کے بعد بھی ان بے چاروں کا پیچھا نہیں چھوڑ ا، ڈھنگ سے کھجوریں بھی نہیں چننے دیتے؟

Comments

comments