میں اس قبیلے کا آدمی ہوں – عامر حسینی

_87382726_715d0fe4-8f59-436d-bb9b-e9302880bcbf

مرا ایک شامی دوست جوکہ ‘بہار شام ‘ کا زبردست کارکن تھا اور وہ ایک عرصے سے بشار الاسد رجیم کے خلاف جدوجہد کررہا تھا اب ترکی ، خلیج ریاستوں کے حمایت یافتہ سلفی جہادیوں اور نام نہاد آزاد شامی فوج کے خلاف ہتھیار بدست ہوچکا ہے کل وہ اچانک بہت عرصے بعد فیس بک پہ آن لائن ہوا اور اس نے مجھے یہ اندوہناک خبر دی کہ ہمارا مشترکہ دوست کامریڈ حسام نے بھی موت کا جام پی لیا ہے اور اس نے محمود درویش کی نظم کا ابتدائی مصرعہ مجھے بھیجا
إنني عدت من الموت لأحيا وأغني
Red Salute to comrade Hassam
مجھے تھوڑی دیر تک سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہوں ، مرے سامنے کامریڈ حسام کا ہنستا مسکراتا چہرہ تھا جو بیروت میں امریکن یونیورسٹی میں انتھرپولوجی کا طالب علم تھا ، اسے گٹار بجانے اور نئی نئی دھنیں کمپوز کرنے کا جنون تھا اور یہ وہی تھا جس نے مجھے شام میں ‘بہار شام ‘ کی تباہی کے بعد تکفیری فاشزم کی غارت گری کے سامنے ڈٹ جانے کا سفر بیان کیا تھا اور کیسے ایک نوجوان اپنے رومان پرور حال اور ایک خوش کن مستقبل کو چھوڑ چھاڑ شام میں سماجی انصاف اور برابری کی جدوجہد میں شامل ہوگیا تھا اور اس نے مجھے ایک روز پیغام بھیجا تھا کہ شام کے عوام ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انقلاب شام کی سرحدوں پہ دستک دے رہا ہے
اور نوجوان اب اپنا راستہ خود بنانے کے سفر پہ چل نکلے ہیں لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے سعودی عرب کی قیادت میں وہابی ریاستیں اور مرتاض عثمانی خلافت رجب طیب اردوگان کی مدد سے سلفی جہادی قصائی شام کی عوام پہ پل پڑے اور انھوں نے سب سے پہلے ان علاقوں پہ شب خون مارا جہاں شامی انقلاب کی آواز سب سے طاقتور تھی اور اقتدار عوامی کمیٹیوں کے پاس آگیا تھا اور ریاست کی طاقت منتشر ہوچکی تھی اور ایک دن خبر آئی کہ کامریڈ حسام اور احمد مصطفی دونوں اپنے انقلابیوں ساتھیوں سمیت داعش ، جبھۃ النصری کے خلاف لڑنے کے لئے بننے والی ایک مسلح ملیشیا میں شامل ہوگئے اور اب وہ شامی فوج کے ساتھ ملکر مادر وطن کا دفاع کررہے ہیں اور مرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کہ ان کامریڈوں کو کیا ہوگیا کہ کل تک جس ‘عطار ‘( شامی بعث پارٹی ) کو یہ شامی عوام کی بیماریوں کا سب سے بڑا زمہ دار قرار دے رہے تھے اور آج اسی کے لونڈے ( بشار الاسد ) سے دوا لینے پہنچ گئے ہیں اور اسی عطار کے لونڈے کے ساتھ ملکر لڑتے ہوئے شہید راہ وفا ہوگیا کامریڈ حسام ، ویسے کبھی بھی عطار کے لونڈے سے دوا لینے ہی پڑجاتی ہے
مری حیرت اس وقت دور ہوگئی تھی جب میں نے دیکھا کہ رابرٹ فسک ، پیٹرک کوک برن جیسے صحافی (جن کی زندگیاں مڈل ایسٹ پہ رپورٹنگ کرتے گزر گئیں تھیں اور جن کے ہاں حروف قابل فروخت نہیں ہوئے تھے – ان کے ہاں رپورٹنگ کسی کی پراکسیز کو غلط اور کسی کی پراکسیز کو شیطان بناکر دکھانے کا چلن غائب تھے ) نے تکفیری فاشزم پہ لکھنا شروع کیا اور انھوں نے اس بربریت اور بربادی کا چہرہ بے نقاب کیا جو سلفی تکفیریت نے شامی عوام پہ مسلط کردی تھی اور شامی انقلاب کو بدترین خانہ جنگی کا شکار کردیا تھا،کامریڈ احمد مصطفی مجھے کہنے لگے کہ مذہبی فسطائیت نے مرے وطن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ساتھ ، اس کی روشن ثقافتی روایات اور گونا گوں صدیوں کے ارتقاء سے وجود میں آنے والی شکل و صورت کو ہی برباد کرنا شروع کردیا تھا
اور ایسے میں کسی بھی انقلاب کی امید دم توڑ گئی تھی ، یہاں تو زندگی کو ہی ناممکن بنادیا گیا تھا اور ہم اہل شام کو نجد سے اٹھنے والی سلفیت کی بربریت کو ‘انقلاب ‘ کہہ کر قبول کرنے پہ مجبور کیا جارہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے شامیوں کی اکثریت کے لئے سلفیت سے اختلاف کرکے جینے کو ناممکن بنادیا گیا تھا اور ہم شامی تو جیسے سارے کے سارے اچھوت بنکر رہ گئے تھے اور ہمارا ادب ، کلچر ، فن ، ثقافت ، شناختوں کا تنوع سب کے سب دیکھتے دیکھتے کفر ، شرک ، بدعت اور ان کے ساتھ جڑا رہنا قتل ہونے کو لازم ٹھہرادیے گئے تھے
میں نے احمد مصطفی کے یہ الفاظ پڑھے تو مجھے بے اختیار ‘ داغ داغ اجالا ، شب گزیدہ سحر ‘ یاد آئی اور سوچا کہ احمد مصطفی کو فیض احمد فیض کی یاد دلاؤں تو اس نے ‘ مسکرانے ‘ کا سائن مجھے بھیج کر بتایا کہ ایک اسٹڈی سرکل میں فیض احمد فیض کی جن نظموں کا عربی ترجمہ انھیں پڑھایا گیا تھا ان میں یہ نظم بھی شامل تھی ، میں نے یہ پڑھ کر سوچا کہ پوسٹ کالونیل دور میں آزادی کے بعد تیسری دنیا کی اقوام کو بار بار آزادی کا اجالا داغ داغ ، اور صبح شب گزیدہ ہی لگی اور اب جہاں جہاں ‘بہار عرب ‘ چلی اسے خزاں میں بدل دیا گیا اور یہاں یار لوگ تکفیری فاشزم کے اندر سے مسلم تاریخ کے تنازعوں کے کاسٹیوم برآمد کرنے پہ لگے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ جو مادر وطن اور اپنے طرز زندگی کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ان کی جنگ کو تکفیری جہادیوں کی جنگ کے برابر ٹھہرانے والوں کی کمی نہیں ہے ،
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب فلسطینی عرب نژاد امریکی دانشور ایڈورڈ سعید پہ دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا تو انھوں نے کہا تھا کہ ان کے ناقدین کی اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر مزاحمت کو ‘دہشت گردی ‘ کہتے ہیں اور مجھ سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ میں ‘ خاموش ‘ ہوجاؤں یا فلسطینی عربوں اور صہیونیوں دونوں کو ایک ہی بائنری میں اکٹھا کرتا ہوں ، وہ جو مادر وطن کا دفاع کرے ، اپنی بے دخلی پہ احتجاج کرکے ، مزاحمت کرے اور اپنی شناخت اور بقاء کی جنگ لڑے وہ بھی دہشت گرد اور جو ان کی زمین پہ باہر سے آکر قبضہ کرے ، ان کی شناخت کو دفن کرے اور ان کو جلاوطن کرکے اور مہاجر کیمپوں میں لاکر پھینک دے دونوں برابر ٹھہرادئے جائیں ، آج ایسی ہی صورت حال کا ہمیں سامنا ہے
، شام والے ، یمن والے اپنے ملک کے خلاف بیرونی جارحیت اور سلفی ازم کو زبردستی نافذ کرنے کی کوششوں کے خلاف جو مزاحمت کرتے ہیں اسے دہشت گردی قرار دینے والوں کی کمی نہیں ہے اور گمراہ کن غیرجانبداری کے علمبردار اپنی دانشوری کا رعب جھاڑنے موجود ہیں ، یہ مظلوموں کی لاشوں اور ان کی مہاجرت پہ مگرمچھ کے آنسو بھی بہاتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے لئے کھڑے ہونے والے مزاحمت کاروں کو دہشت گرد قرار دیتے بھی نہیں تھکتے اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جن ہاتھوں ميں گٹار تھا اور وہ بیروت ، دمشق ، بغداد کی جامعات میں فزکس ، میڈیسن ، بشریات ، نفسیات ، تاریخ پہ تحقیق اور تخصص کرنے میں مصروف تھے
اور ان کی آنکھوں میں ایک خوبصورت رومان پرور مستقبل کے خواب سجے تھے کیسے خاکی وردیاں پہنے ، کاندھے پہ کلاشنکوف لٹکائے محاذ جنگ پہ پہنچ گئے اور صرف نوجوان مرد ہی نہیں بلکہ نوجوان عورتیں بھی محاذ جنگ پہ پہنچ گئیں ، کیونکہ ان کے رومان پرور مستقبل تکفیری اندھیرے حملہ آور ہوگئے تھے اور ان سے اپنی مرضی سے جینے کا حق چھیننے کے لئے ایسے جنونی میدان میں اترے جنھیں نہ تو کسی کی صدیوں کی ثقافت کے آثار سے کچھ لینا ہے اور نہ ان کو شناختوں کا تنوع ایک آنکھ بھاتا ہے اور وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کے فکری جد ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب ، سید قطب اور دیگر کی خارجیت کو من و عن اپنالیا جائے اور جو اس سے بھاگے ، انکار کرے اس کا سر بیچ چوراہے پہ قلم کردیا جائے اور جو ان کے مسلک کے نہ ہوں ان کی عورتوں کو کنیزوں و لونڈیوں میں بدل کر پہلے اپنی ہوس مٹائی جائے اور پھر بازار میں ان کی بولی لگائی جائے ،
ایسے زومبی درندوں کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے تو مجھے کہنے والے بھی زومبی لگنے لگتے ہیں اور پھر ان کے وکیل صفائی بن جانے والے ‘ دانش کے مہان دیوتا ‘ کئی طرح کے ماسک چڑھا کر آتے ہیں اور وہ دودھ کو کالا اور شہد کو کڑوا کہنے پہ اصرار کرتے ہیں اور اس کش مکش کی زرا بھی تپش محسوس کرنے سے عاری ہیں جو وہاں شام ، عراق ، لبیا میں تکفیری آگ کے شعلوں میں جلنے والوں کے لئے روز کا معمول بن گئی ہے ،
زرا شامیوں ، لبنانیوں ، عراقیوں اور افغانستان کے مادر وطن کے محافظوں اور عوام دوست قوتوں کی جدوجہد اور وہاں جنم لینے والی ٹریجڈی سے متاثر ہوکر شاعروں کی شاعری ، ادیبوں کی کہانیوں کو پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ کس عذاب روز وشب سے ان کے حساس ذہن گزرتے ہیں –لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جن بے حسوں اور خودغرضوں کو یہاں پاکستان میں اپنے پیاروں کی لاشوں پہ گریہ، مرثیہ ، نوحہ پڑھنے والی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں ، بیواؤں کی آہوں ، چیخوں اور نالوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا تو اتنی دور کی ٹریجڈی کو کیسے فرقہ پرستانہ عینک ہٹاکر دیکھنے کی کوشش کریں گے ، یہاں محض شناخت اور نام پہ قتل کردئے جانے والوں کی ایک لائن لگی ہوئی اور پھر ان شناختوں اور ناموں پہ صدائے احتجاج اٹھانے والوں کے مارے جانے والوں کی فہرست بھی طویل ہوتی جاتی ہے لیکن یہ اموات ایسے لوگوں کو جگانے میں ناکام رہی ہے اور یہ غیر جانبداری کی ڈگڈگی بجائے جارہے ہیں اور ایسی غیرجانبداری اصل میں ظالموں کے کیمپ میں شمولیت کرنا ہے کامریڈ حسام نے ایسی غیرجانبداری کو لات ماری اور وہ معرکہ حق و باطل میں حق کی طرف کھڑا ہوگیا اور اس نے محمود درویش کی طرح بوقت شہادت یہ کہا ہوگا
انني عدت من الموت لأحيا وأغني
إنني مندووووب جرح لا يساوم
لا يساوم
علمتني ضربة الجلاد أن أمشي على الجرح وامشي ثم امشي
وأقاوم .. وأقاوم .. وأقاااااااااااااوم
میں موت سے زندہ اور گاتا ہوا پلٹا ہوں میں زخمیوں کا مندوب ہوں ، کیسے سمجھوتہ کرلیتا باطل سے نہیں کیا نا سمجھوتہ جانتا ہوں کہ جلاد کی ضرب کا مقصد یہی ہے میں زخموں پہ چلوں تو میں چلا ، پھر چلا اور میں نے مزاحمت کی ، پھر کی اور تب کی اور اب کرتا ہوں کامریڈ حسام یقینی بات ہے کہ بوقت شہادت مسکرا رہا ہوگا اور اس کی یہ مسکراہٹ اس کے دشمنوں پہ ایک گہرا طنز ہوگی اور تکفیری جنونیوں کے سینے پہ چھری کی طرح لگی ہوگی اور ان کو زبردست خفت کا شکار کرگئی ہوگی اور اسی لئے تو حسام کہہ رہا تھا کہ وہ تو موت کے دروازے سے ہنستا ، مسکراتا ، بے نیاز پلٹ آیا ہے اور کہہ رہا ہے
میں‌اس قبیلے کا آدمی ہوں
جو اپنے پیاروں کے, دوست یاروں کے، سر بریدہ, بے کفن لاشوں کے درمیاں‌بھی ڈٹا ہوا ہے
جو اپنے دامن کی دھجیاں
علم بناے کھڑا ہوا ہے
کہ جس کا سر
تمام بے حس مزاج لوگوں کی خم زدہ گردنوں سے اونچی سنان کے منبر پر رجز پڑھتا , چڑھا ہوا ہے
میں اس قبیلے کا آدمی ہوں
کہ جس کے بازو عدو کی تیغ جفا نے کاٹ ڈالے ہیں
کہ جس کے سوکھے لبوں کی بے خوف مسکراہٹ نے
خود سمندر کے بند سارےبھی پاٹ ڈالے ہیں
میں‌اس قبیلے کا آدمی ہوں
جو ظلم کی غلام گردش میں ,
نظام کہنہ کے مفتیوں کی فریب خوردہ سرزنش میں
یزید کے احمریں محل میں گونجتی منافقانہ اذاں کی ہر بازگشت میں,
خوف کے پجاریوں کوامیر شام کو, حواریوں کو بلند لہجے میں ,
اپنے درماندگی کے سب ترانےسنا رہا ہے
میں‌اس قبیلے کا آدمی ہوں
جو ظلمتوں کے مسافروں کو امید کی راہ دکھا رہا ہے
جو اپنے ذخموں سے رسنے والےلہو کی سرخی کو دیکھ کرمسکرا رہا ہے
جو وقت کے ہر یزید کے سامنے حسین بن کرکھڑا ہوا ہے
ڈٹا ہوا ہے کھڑا ہوا ہے
میں‌اس قبیلے کا آدمی ہوں
( شاعر : اختر عباس )

Comments

comments