مڈل ایسٹ : مسلکی چورن فروش ٹولے کے مغالطے – حیدر جاوید سید

Haider-Javed-Syed-300x225

یہاں پاکستان میں مسلکی چورن سے عبارت دانش کی جگالی کرنے میں مصروف خواتین و حضرات کی عراق و شام کے حالات پر بحث اٹھاتے ہوئے تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ دونوں ملکوں مین شیعہ سنی بنیادوں پر خانہ جنگی برپا ہے۔ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ نابغہء صحافت بنے ان اہلِ دانش کو کون سمجھائے کہ عراق کے جیش الامہ، القاعدہ، جہادِ اسلامی نامی تینوں گروپ ہوں یا پھر مصر میں سرگرمِ عمل داعش اور شام میں النصرہ، جیشِ اسلام، القاعدہ، النصرہ اور احیائے خلافت کے نام سے برسرِپیکار گروپوں میں سے کوئی بھی سنی نہیں۔ سنی سے مراد صوفی سنی ہیں جنہیں برصغیر کے تقسیم شدہ ممالک میں بریلوی سنی کہا جاتا ہے۔ بات بہت واضح ہے وہ یہ کہ دونوں پڑوسی ممالک عراق اور شام میں برسرِ پیکارمسلح تنظیموں کا فکری تعلق سخت گیر سلفی عقائد سے ہے۔ ان عقائد کے بانی مصر سے تعلق رکھنے والے امام ابن تیمیہ ہیں۔ سعودی عرب کی مذہبی بادشاہت کو کو فکری غذا فراہم کرنے والے محمد بن عبدالوہاب متاثرینِ ابنِ تیمیہ تو تھے لیکن بعض معاملات میں وہ اپنے فکری رہنما سے چند ہاتھ آگے کے شدت پسند تھے۔

ہمیں یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہیے کہ شام کے صدر بشارالاسد شیعہ ہیں۔ ان کے والد حافظ الاسد ایک علوی عقیدے کے شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور سیاسی نظریات کے حوالے سے کٹر سوشلسٹ تھے۔شام کی بعث پارٹی قوم پرست سوشلسٹ پارٹی ہی ہے۔ اسی طرح عراق کے مرحوم آمر صدام حسین بھی اپنے گرو حسن البکر کا تختہ الٹ کرعراق میں برسرِ اقتدار آئے تھے وہ خاندانی اعتبار سے قدرے نرم خیال سلفی خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر سیاسی طور پر سوشلسٹ تھے۔ ان کی بعث پارٹی بھی سوشلسٹ جماعت تھی۔ ان کے دور میں عراق میں شیعہ وسنی اہلِ دانش اور علماء کے ساتھ یکساں طور پر ناروا سلوک ہوا البتہ سلفی عقیدے کے علماء ہوں یا عیسائی آبادی دونوں ان کے فطری اتحادی تھے۔ آج بھی عراق میں حکومت اور شیعہ سنی آبادیوں کے خلاف برسرِ پیکار مسلح لشکروں القاعدہ، جیش الامہ، داعش اور جہاد اسلامی میں سابقہ حکمران بعث پارٹی کے کارکنان بڑی تعداد میں دیکھائی دیں گے۔ جیش الامہ کے ولید حمان بن طیب ہوں یا جہاد اسلامی کے حسن الحادی ابوبکر دونوں صدام دور کی بعث پارٹی کے یوتھ ونگ کے سرگرم رہنما ہوا کرتے تھے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عراق اور شام میں شیعہ سنی خانہ جنگی نہیں بلکہ بلادِ عرب کی سلفی عقیدے والی ریاستوں سعودی عرب، قطراور بحرین کے حکمران خاندان (بحرین میں آبادی کا 70 فیصد شیعہ، 15 فیصدصوفی سنی 5 فیصد مالکی اور 10 فیصد محمد بن عبدالوہاب کے پیرو کار ہیں۔ حکمران خاندان کا تعلق اسی دس فیصد سے ہے۔) اس وقت شامی النصرہ کو سب سے زیادہ مالی امداد قطر کی حکومت دیتی ہے۔ امریکہ سمیت یورپی خفیہ ادارے مانتےہیں کہ النصرہ کو قطر کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد6 سے 7 ملین ڈالر سالانہ ہے۔ قطر کا بروکنگ انسٹی ٹیوٹ نہ صرف النصرہ کو خطیر رقم دیتا ہے بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ قطر یہ چاہتا ہے کہ حلب اور ملحقہ علاقوں کو ملا کر شام کے اندر سےایک نئی ریاست برآمد کی جائے۔یہ وہ خواہش ہے جو کویت اور بحرین کے حکمران خاندانوں کا خواب ہے۔ اس خواب میں رنگ بھرنے کے لئے اسرائیل سے قطر تک انسانی محبت کے عظیم دعویداران متحد ہیں۔۔ آپ بھولے تو نہیں ہوں گے کہ داعش کے جنگجوؤں کے لئے اسرائیل نے جو ہسپتال قائم کیا تھا وہ اسرائیل کے زیرِ قبضہ شامی علاقے گولان کی پہاڑیوں کے قریب کی ایک وادی میں تھا۔

بطورِ خاص سمجھنے والی بات یہ ہے کہ داعش یا اس سے قبل القاعدہ کے قیام میں بھی سلفی عقیدے والی عرب ریاستیں پیش پیش تھیں۔پاکستان کے اردو میڈیم پریس کا بڑا حصہ یمن سے شام تک بحرانی صورتحال کو سعودی اور ایران کی پراکسی وار کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔ آدھی بات پر سر دھننے والے اس تلخ حقیقت پر غور نہیں کرتے کے ایرانی انقلاب کے بعد عراق کو ایران پر حملہ کرنے کے لئے کس نے آمادہ کیا اور کیوں سعودی عرب و کویت نے عراق کے جنگی مصارف کا بوجھ اٹھایا؟عجیب بات بلکہ عدم توازن سے شاہکار دانش ہے جو سننے اور پڑھنے والوں کو پورا سچ نہیں بتاتی۔ بدقسمتی سے وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ 2006ء میں جب حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری تھی تو عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں سعودی عرب اوراردن کی تحریک پر حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ لیبیا، شام ، عراق اور لبنان نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی یمن غیر جانبدار رہا تھا۔ 2006ء کے بعد سے اب 2016 تک کے درمیانی دس برسوں میں لیبیا، عراق، شام اور یمن کے ساتھ سلفی عقیدے والی عرب ریاستوں کا حسنِ سلوک سب کے سامنے ہے۔ لیبیا کے اور جرائم ممکن ہے کہ ہوں لیکن سب سے بڑا جرم سعودی عرب کے مذہبی عقائد کے مخالف صوفی سنیوں کو دنیا بھر میں تعاون فراہم کرنا تھا۔ یمن کی انصار الامہ کو تعاون فراہم کرنے میں قذافی کا نام سب سے نمایاں تھا۔

ہمارے پیارے پاکستان میں عراق و شام کے حالات کو شیعہ سنی اختلافات کے تناظر میں پیش کرنے والے دانشور، علماء، صحافی اور چند دیگر حضرات کا اصل مقصد برصغیرپاک و ہند میں روائتی شیعہ سنی افہام و تفہیم کے خاتمے کی کوششوں میں حصہ ڈالنا ہے تاکہ پروپیگنڈہ کی دھول میں سچائی چھپ جائے۔ ہم پاکستان کے اند مختلف طبقات کے تضادات اور دیگر امور پر بات کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ انجمن سپاہ صحابہ جنرل ضیاء الحق نے سعودی عرب کی ہدایت اور مالی تعاون پر قائم کروائی تھی۔ جس بنیادی سوال کو چھپایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ سلفی عقیدوں والی عرب ریاستوں کو اگر پورے بلادِ عرب کو عقیدے کی بنیاد پر فتح کرنے کا حق ہے تو عرب ممالک میں 14 سو سال سے موجود دیگر غیر سلفی مکاتبِ فکر کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کا حق کیوں نہیں؟ عجیب دوغلہ پن ہے کہ القاعدہ، داعش اور النصرہ وغیرہ انسانوں کو زندہ جلائیں ،گلے کاٹیں پھر بچیوں کو منڈیوں میں فروخت کریں تو ان کی اسلامی غیرت دھنیا پی کر سوئی رہتی ہے لیکن اگر شام کی حکومت اپنے باغیوں کے خلاف کاروائی کرے ”تو حلب پکار رہا ہے” کے سلوگن سے ماتم برپا کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اسلامی غیرت اس وقت کہاں تھی جب داعش کے درندے معصوم انسانوں کے گلے کاٹ رہے تھے یا انسانی بستیاں تاراج کر رہے تھے؟

Source:

http://www.qalamkar.pk/middle-east-sectarian-war/

Comments

comments