دی جون ایلیا – حسنین جمال

husnain-jamal-3-6

جون ایلیا ظلمین کا انسانی روپ تھے۔ ظلمین ایک جن تھا جو ان کی والدہ پر آیا کرتا تھا اور وہ جن دراصل ہسٹیریا کی ایک کیفیت تھا جو ان کی والدہ میں تمام عمر کی بے توجہی اور ظلم سہنے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ جون لوگوں کو چڑا کر خوش ہوتے تھے، ان کا رویہ لڑکوں سے ہتک آمیز ہوتا تھا، وہ بیماریوں کو باقاعدہ پسند کرتے تھے، دق ان کے نزدیک رومان کی علامت تھی اور بواسیر انہیں اس لیے پسند تھی کہ وہ ان کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کو بھی لاحق تھی۔ جب انہیں ہوئی تو یہ بہت خوش ہوئے کہ بھائی کو جو بیماری ہے وہ ہمیں بھی ہو گئی۔ خود اذیتی باقاعدہ لذت آمیز ہو چکی تھی ان کے لیے۔

“اماں کے اندر جو محرومیاں گھاؤ بن گئی تھیں، گھٹن، غصہ اور اداسیاں تھیں، وہ سب مل ملا کر جون اصغر کے روپ میں پیدا ہو گئیں۔ گویا اماں کے یہاں جون کی شکل میں ظلمین پیدا ہو گیا۔ جو انتہائی کڑوا اور زہریلا تھا۔ اماں صدائے احتجاج نہ بلند کر سکیں مگر تم سراپا احتجاج بن گئے، اماں اپنی تمام تر ناکامیوں اور بدنصیبی کو اوڑھ کر منوں مٹی کے نیچے جا سوئیں اور تم ان کے دکھوں کے مجاور بن گئے۔”

یہ کتاب اس حد تک جون ایلیا کی ذاتی زندگی پر بحث کرتی ہے کہ بعض اوقات آپ کو لگے گا کہ جون آپ کے سامنے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں، بالے، یہی تھے ہم، جاؤ کر لو جو کرنا ہے! پوری کتاب جون ایلیا کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہے جو کہیں ایک خط کا سا تاثر دیتی ہے، کہیں مکالمے کا اور کہیں خود کلامی کا۔ کہیں فلیش بیک در آتا ہے، یوں سمجھیے ایک فلم ہے جس کے ٹکڑے آپ الگ الگ دیکھ رہے ہیں۔ اور فلم ہی کی طرح یہ کتاب دو سے تین گھنٹے میں ختم ہو جاتی ہے۔

jaunتین کتابیں گذشتہ دنوں اوپر تلے پڑھیں۔ ایک ستیہ جیت رے کی “My years with Apu”، دوسری کنال نائیر کی “Yes, my accent is real” اور تیسری “چچا جون” تھی۔ اب ہوتا کیا ہے کہ ستیہ جیت رے پوری کتاب میں یہی بتاتے ہیں کہ ہر مرحلے پر ناکام ہونے کے باوجود انہوں نے پاتر پنچالی جیسی فلم کیسے بنا ڈالی۔ کوئی فنانسر نہیں ملتا، چھتیس جگہوں پر جا کر پلاٹ سناتے ہیں، شوٹ کی ہوئی فلم دکھاتے ہیں، اگر کبھی کوئی پروڈیوسر حامی بھرتا تو ایک چوتھائی فلم کے بعد ساتھ چھوڑ جاتا، بیوی کے زیور تک بیچنے پڑے اور فلم ابھی ایک تہائی مکمل ہوئی تھی، مشکلیں تابڑ توڑ آئیں لیکن آخر کار فلم مکمل ہوگئی۔ دنیا کی تاریخ میں بنائی گئی بہترین فلموں میں سے ایک قرار پائی۔ نیشنل فلم ایوارڈ جیتا، کینز فیسٹیول میں انعام جیتا۔ تاریخ میں اپنا نام ستیہ جیت رے نے اس حیثیت میں لکھوایا کہ انڈین پیرلل سینیما کے بانی قرار پائے، اسی سیریز کی دو فلمیں مزید بنائیں اور دنیا کی فلمی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کر گئے۔

دوسری کنال نائیر کی کتاب تھی۔ پینتیس برس کے یہ اداکار مشہور زمانہ Big Bang Theory نامی سٹ کام میں کام کرتے ہیں۔ یہ کتاب دو قسم کے واقعات کا مجموعہ ہے۔ ایک تو وہ واقعات جو ہماری نسل کے تمام نوجوانوں کو انڈیا اور پاکستان میں پیش آتے ہیں، ہمارے عمومی روئیے، لڑکیوں سے متعلق ہماری سرگرمیاں، ہمارے تیوہار اور دوسری کئی چیزیں زیر بحث لائی گئیں۔ دوسری قسم پھر انہیں واقعات کی ہے جو مسلسل جدوجہد دکھاتے ہیں۔ کس طرح کنال نے اداکاری سیکھی، کیسے انہوں نے تھیٹر پر کام کیا، کیسے وہ کئی برس رومیو کا کردار ادا کرنے کا خواب دیکھتے رہے لیکن وہ کردار ہر بار ان سے بہتر کسی اداکار کو ملتا رہا، اور پھر قسمت کی ایک موج نے انہیں ایسے تھیٹر میں پہنچا دیا جہاں آمدن نہ ہونے کے برابر تھی مگر اسے دیکھنے والے انڈسٹری کے بڑے بڑے نام تھے۔ وہاں سے وہ اس سٹ کام کے لیے چنے گئے لیکن اس چنے جانے میں بھی کئی دن گار گئے، ہر نیا دن ایک طویل انتظار ایک نئی بے قراری، نئی مایوسی، اور آخر کار انہیں یہ شو مل گیا۔ پہلے سیزن سے ہی جو شہرت ملی تو آج نویں سیزن تک کامیابی کا سفر جاری ہے، اسی دوران یہ کتاب بھی لکھی گئی۔

تیسری کتاب جون ایلیا پر تھی۔ یہی کتاب جس کا ذکر چل رہا ہے۔ کہاں تو وہ دو لوگ ان تھک جدوجہد کی داستان سناتے ہیں اور کہاں بے کاری سی بے کاری۔ کہاں اپنے خوابوں کو دیوانہ وار کوششوں کے بعد پانے کا ذکر ہے اور کہاں چھوٹے چھوٹے خواب، اور وہ بھی پورے نہ ہوئے کہ استطاعت نہ تھی۔ پہلی دو کتابوں میں ماں باپ کا رشتہ مثالی تھا، جان چھڑکتے تھے، بچوں میں اپنی زندگی دیکھتے تھے، چچا جون والی کتاب اس جذبے سے بھی خالی تھی۔ نہ ان کے والد، نہ ان کے بھائی رئیس امروہوی اور نہ ان کا رویہ اپنے بچوں سے مشفقانہ رہا۔ گویا رویے بھی نسل در نسل چلے۔ پہلی دو کتابوں کے مصنفین آخرش اپنی منزل کو جا لیے، جون ایلیا سر تا پا شاعر، ہمارے روائتی ہندوستانی شاعر، پھٹے حالوں، بانکے دیہاڑے تمام عمر گزار گئے۔ ان دو کتابوں میں کامیاب ازدواجی زندگی ہے، محبت کرنے والے میاں بیوی ہیں، ہنسی خوشی دکھ درد مل بانٹ کر سہہ لیتے ہیں، ادھر بیس سال کا ساتھ ہے اور اس کے بعد ایک اذیت ناک علیحدگی اور زوال جو موت پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں کامیابی کی لازوال داستان ہے، ادھر زندگی میں زوال کی ناکام کہانی ہے۔ لیکن مشہور جون ایلیا بھی بہت ہوئے، شہرت ستیہ جیت رے کو بھی ملی اور کنال نائیر کے حصے میں بھی بہت آئی۔

ان تینوں کا مقابلہ کسی بھی سطح پر نہ بنتا ہے اور نہ کرنا مقصد ہے۔ بس یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جون ایلیا جو خود کو دونوں سروں سے جلا کر مشہور ہوئے اور باقی دو حضرات جو نسبتاً بہتر بلکہ کافی اچھے حالات میں رہے اور مشہور بھی ہو گئے اور شہرت سے لطف اندوز بھی ہوئے تو ایسا کیوں تھا۔ جون ایک مشہور شاعر تو ہوئے لیکن کامیاب انسان کیوں نہ ہو سکے، کامیاب زندگی کیوں نہ بسر کر سکے، کامیاب مرے کیوں نہیں، سوالات یہ ہیں۔

آپ میر کی بات کر لیجیے، غالب کی زندگی دیکھ لیجیے، یاس یگانہ چنگیزی کے حالات دیکھیے، جوش کی سوانح پڑھ لیجیے، حفیظ جالندھری کی گزران جان لیجیے یاجون صاحب کے واقعات پڑھ لیجیے، ایک مراق ہے نرگسیت کا، ایک عالم ہے خود پسندی کا، اور ہمارے تمام شاعر اس میں فنا ہوتے جاتے ہیں۔ ہمچو ما دیگرے نیست کا ایک عالم بپا ہے اور دما دم صدائے کن فیکون آتی جا رہی ہے۔ اپنی عظمت کا خیال دماغ پر اس قدر زیادہ طاری ہے کہ معاشرے میں گزر بسر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جون ایلیا کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہے، فقیر کے پسندیدہ ترین شعرا میں سے ہیں لیکن ذاتی زندگی دیکھیے تو تضادات کا ایک تکلیف دہ مجموعہ ہے جس کی جھلک اس کتاب میں بھی آپ کو بہت حد تک نظر آئے گی۔ یہ خواہش ہونا کہ کوئی لڑکی آپ کی خاطر خود کشی کر لے، اپنے بچوں پر بھائی کے بچوں کو ترجیح دینا، ساری محبت ان پر نچھاور کر دینا، اپنے علم و فضل میں اس حد تک محو رہنا کہ دنیاوی معاملات سے کنارہ کشی بے دردی کی حد تک بڑھ جائے اور پھر خود اپنے پیدا کردہ انہی حالات کا شکار ہو جانا اور ان میں تا عمر مبتلا رہنا ایک اذیت ناک زندگی کے مراحل ہیں۔

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جون ایلیا ایک بڑے عالم اور شاعر لیکن ایک تکلیف دہ انسان کی حیثیت سے اس کتاب میں پیش ہوئے ہیں، پیش کرنے والی ان کی بھتیجی ہیں جو ان کی باضابطہ شاگرد بھی رہ چکی ہیں۔ کتاب کیا ہے ایلیا خاندان کی خواتین کا مستقل نوحہ ہے۔ کئی چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو بہت دل چسپ ہیں اور مستقبل کے جون شناسوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ زبان و بیان عمدہ ہے، اچھی نثر پڑھنے والوں کے لیے بلاشبہ ایک تحفہ ہے۔ امروہے کا ذکر اسی والہانہ شدت سے ہے کہ جیسا جون صاحب کے باب میں ہم سنتے آئے ہیں۔

چاند سورج کا علم اور واپسی

وہ ہوا ماتم کہ سینے پھٹ گئے

(چاند سورج امام باڑہ امروہہ میں واقع ہے)

محترم بزرگ ابو زریون سے مصنفہ کی ایک شکایت ہے کہ ان کے والد رئیس امروہوی کی شہادت گاہ کو بیچ کر اور اپنا حصہ لے کر جون صاحب نے کچھ اچھا نہیں کیا۔ وہ جائیداد کے معاملات میں پڑے تو بھتیجی کی نظر میں چچا کا عالی مرتبت بت پاش پاش ہو گیا۔ وہ بت جو ایک عالم کا تھا، وہ بت جو ایک بے نیاز درویش کا تھا۔ ساتھ میں وضاحت بھی کر دی کہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر ان کا حصہ چاہتے تھے۔ دیکھیے، زمین جائیداد کے معاملات زندگی کے ساتھ جڑے ہیں، اگر ایک بوڑھا شاعر، جس کا معاش کچھ اور نہیں ہے، جو اپنے بچوں کا دیکھنے اور ان سے ملنے تک کو ترسا ہوا ہے، جسے معلوم ہے کہ اس عمر میں وہ اپنی اولاد کو شاید ہی کوئی مالی فائدہ دے پائے، اور جو جانتا ہے کہ اس کی تمام عمر کی کمائی اس کا نام ہے اور یہ کمائی بہرحال مالی طور پر بچوں کی کفالت نہیں کر پائے گی، تو وہ اگر موروثی جائیداد بیچ کر حصہ لینا چاہتا ہے تو اس کا کیا قصور؟ گھر کی حیثیت شہادت گاہ کے طور پر آپ کی نظر میں ہے لیکن جون ایلیا کی نظروں کے سامنے صرف اپنے بچے ہیں جن کے لیے تمام عمر وہ کچھ نہ کر پائے، اور وہ اس کا مداوا چاہتے تھے۔ تو یہاں ان کے اس قصور سے صرف نظر کرنا بہتر تھا۔ بہرحال مصنفہ ان کی بھتیجی ہیں اور آپ اسے ان کا شکوہ کہہ لیجیے یا صاف گوئی، معاملہ تشنہ ہرگز نہیں رہا، انتہائی وضاحت بلکہ بہادری سے بیان کیا گیا ہے۔

نثر کی کتاب میں مصنف اگر اپنی ذاتی شاعری شامل کر دے تو یہ بات ذوق جمال کو ذرا کھٹکتی ہے اور یہ کھٹکن کہیں کہیں موجود ہے۔

جون ایلیا کی ازدواجی زندگی کی چند تکلیف دہ تفصیلات بھی موجود ہیں جو سراسر ان کے ذاتی معاملات تھے، تو ان کو یہاں بیان کرنا نامناسب ہے، کتاب دیکھیے گا تو سب سامنے ہو گا۔

مجموعی طور پر ایک دل چسپ کتاب جس میں اپنے آپ کو پڑھوانے کی تمام صلاحیت موجود ہے۔ عاشقان حضرت جون ایلیا کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ بس مختصر اتنی ہے کہ تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/15329/husnain-jamal-58/

Comments

comments