صالح صحافی اور میراثی میں فرق – آصف محمود
جمعرات (بارہ مئی، 2016) کے روز نامہ جنگ میں صفحہ تین پر شائع ہونے والی محترم صحافی صالح ظافر کی اس خبر سے مجھے ارشاد حقانی مرحوم یاد آ گئے۔ اسلام آباد میں برادر محترم خورشید ندیم کی دعوت پر ارشاد حقانی تشریف لائے تو ان سے تفصیلی نشست رہی۔میں نے پوچھا آپ قارئین کے خطوط اہتمام سے شائع کرتے ہیں ۔گویا آپ کا اپنے قاری سے اچھا رابطہ ہے۔ یہ بتائیے کہ کبھی کسی قاری نے آپ سے کوئی ایسا سوال کیا جس نے آپ کو لاجواب کر دیا ہو۔ حقانی صاحب نیم
دراز تھے۔ اٹھ کر بیٹھ گئے ۔فرمایا
ہاں ایک سوال پوچھا تھا کسی نے کہ ’’ صحافی اور میراثی میں کیا فرق ہوتا ہے ‘‘۔
پھر آپ نے کیا جواب دیا ؟
کوئی جواب نہیں دیا۔ فرق تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
میرے ریکارڈ میں سولہ برس پہلے کی ایک خبر موجود ہے۔ اسی روز نامہ جنگ میں شائع ہوئی تھی۔ موضوع بھی نواز شریف کی ذات تھی۔ اب رحمت کے بادل گھر گھر آتے ہیں، تب ادبار کے بادل چھائے تھے۔ دونوں خبروں کا عکس شائع کر رہا ہوں۔ ارشاد احمد حقانی تو اپنے خالق کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ کم از کم آج کے پڑھنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ میراثی ایک محترم انسان ہوتا ہے جو رزق کے لئے دوسروں کا دل خوش کرتا ہے۔ میراثی میں کردار کی یہ بلندی ضرور موجود ہوتی ہے کہ گاؤں کے چوہدری پر مصیبت کا وقت آئے تو اس کے ذاتی راز چوراہے پر فروخت نہیں کرتا۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/15231/asif-mahmood-13/