خرم – اک امید کا دیا تھا – معاذ بن محمود
جب سے بیوی بچے امارات آئے، میرا کراچی آنا جانا بہت کم ہو گیا. جب چکر لگتا اسلام آباد ہی کا لگتا کہ والد کی وفات کے بعد والدہ کا مجھ پہ حق زیادہ ہو چلا تھا. سوشل میڈیا پہ میرے احباب کی تعداد کثیر ہے. نبیل اور حارث سے ملاقات سے پہلے تک میں ایسی غیر حقیقی سلام دعا کو حقیقی دوستی میں بدلنے کا قائل نہ تھا لیکن مذکورہ بالا اشخاص کے ساتھ تجربہ اتنا اچھا رہا کہ اس کے بعد گویا سوشل میڈیا کے توسط سے ملنے والے دوستوں کی ایک فہرست ہی تیار ہو گئی. یوں تو پاکستان جب بھی چکر لگتا ایسے کئی احباب ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا تھا جو متواتر محبت، شفقت اور خلوص کے ساتھ ہر بار دعوت دیتا اور میں ہر بار اس کی دعوت قبول نہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا. اس شخص کا نام تھا خرم ذکی جس کا قلم اور زبان چند دن قبل بہیمانہ طریقے سے 5 گولیاں داغ کر خاموش کروا دیا گیا
خرم کی مین سٹریم و سوشل میڈیا پہ جاری سرگرمیوں کو دیکھتے ہوے میرا بدترین خدشہ یہی تھا کہ اسے جلد قتل کر دیا جائے گا لیکن یہ موقع اتنی سرعت سے قریب پہنچ جائے گا یہ اندازہ نہ تھا. پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت ہر طبقے میں سرایت کر چکی ہے اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے خرم کے قتل کا مآخذ فقط شدت پسندی ہی نکلتا ہے.
ہمیں اچھا لگے یا برا، آج ہمارا معاشرہ شدت پسندوں سے بھرا پڑا ہے. ان طالبانی سوچ کے حامل افراد کی تعداد زیادہ نہ بھی ہو تب بھی اتنی ضرور ہے کہ ان کے ہوتے ہوے ان کے مخالفین قتل ہوتے رہیں گے. خرم کا قصور یہ تھا کہ وہ مملکت پاکستان میں پچھلی 2 دہائیوں سے ہونے والی منظم شیعہ نسل کشی کے خلاف آگاہی اجاگر کر بیٹھا تھا. اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اس معاشرے کے منافق، متشدد اور مذہب کے چند بیوپاریوتوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا سیکھ چکا تھا. سول سوسائٹی نام کی کوئی چیز جانے بنا ہی ہم خود کو پڑھے لکھے اور باشعور مانتے تھے، خرم نے ہمیں بتایا کہ ہم خاموش اکثریت ہوتے ہوے کسی سپاہ اور کسی جیش کو خوفزدہ کرنے کہ اہلیت رکھتے ہیں. خرم نے ہمیں بتایا کہ میڈیا پہ شدت پسند ملاؤں کے سامنے بیٹھ کے بھی حق کا ساتھ دیا جا سکتا ہے. خرم بے ثابت کیا کہ مذہب کسی کے باپ کی جاگیر نہیں بلکہ اس پہ ہر مسلمان کا حق ہے
خرم کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پہ جو طوفان اٹھا اس سے چند ایک باتیں جو میں نے سیکھیں وہ کچھ یوں ہیں
– لوگوں کی اکثریت کوفہ والوں کی طرح فقط باتیں کرنا جانتی ہے. خرم کی شہادت پہ فیس بک پہ مچنے والا طوفان بمقابلہ جنازے میں شریک ہونے والوں کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق تھا
– اپنے ارد گرد انسان کے بھیس میں چھپے بھیڑیے ڈھونڈنے ہوں تو خرم کی شہادت پہ ہونے والے سوشل میڈیا تبصروں پہ نظر ڈالیے. یہ اپنے دل و دماغ کا فضلہ جگہ جگہ نکالتے دکھائی دینگے
– خرم کی شہادت سے یہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ثابت ہوا کہ ہمارے معاشرے میں شدت پسندی کافی گہرائی تک سرایت کر چکی ہے. بظاہر پڑھے لکھے نفیس حضرات بھی خرم کو شہید کرنے والوں کی تعریف و تسبیح کرتے اور توجیہات دیتے دکھائی دیے
– آپ کو شدت پسندوں کی سوچ سے لاکھ اختلاف صحیح-اس پہ زبان کھولی تو کم از کم 5 گولیاں خرم کی طرح آپ کے سینے میں داغ دی جائینگی
– نیشنل ایکشن پلان محض ایک ڈھکوسلا اور قوم کے لیے ٹرک کی ایک بتی سے بڑھ کے کچھ نہیں. سپاہ صحابہ، جیش محمد، طالبان یہ تمام تحریکیں آج بھی نئے ناموں سے اپنے اپنے ایجنڈے پہ عمل پیرا ہیں. قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ معلوم ہونے کے باوجود ان “سریٹیٹیجک اسیٹس” کی غنڈہ گردیوں کے آگے بے بس ہیں
اللہ تعالٰی خرم ذکی نے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے چاہنے والوں کو ان کا مشن پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے. بحیثیت فرد مجھے اس معاشرے سے کوئی خاص امید وابستہ نہیں جہاں بیت اللہ محسود کو تو شہید کا درجہ دیا جائے مگر خرم ذکی کی موت کے بعد بھی ان کی بھرپور کردار کشی جاری رکھی جائے
Source:
http://www.qalamkar.pk/khurram-ik-umeed-ka-dia/