خرم زکی کی ایک انکوائری زیر التواء تهی جو آج بند کردی گئی – عامر حسینی
فیض احمد فیض نے کہا تها
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جِگر ، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مَے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا ، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں
مجهے انتہائی باوثوق زرایع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے ایک ماہ قبل دو خفیہ ایجنسیوں کو انسانی حقوق کے علمبردار اور بلاگ تعمیر پاکستان کے ایڈیٹر خرم زکی کے بارے میں تحقیقات کرنے کا حکم دیا تها اور اس حکم میں یہ کہا گیا تها کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ لوئر مڈل کلاس پس منظر کا حامل شخص کیسے اتنی سرگرمی سے اور اسقدر جرآت و بے باکی سے اپنا ایکٹوازم جاری رکهے ہوئے ہے اور وہ اپنے سفری اخراجات ، طعام و قیام کی ضروریات کیسے پورے کررہا ہے اور یہ تحقیقات جاری تهیں کہ سید خرم زکی کو کراچی میں ایک چهپرا ہوٹل کے سامنے کهڑے قتل کردیا گیا اور جب اس کا قتل ہوا تو ایک سوزوکی میں اسے اور اس کے ساتهیوں کو ڈال کر عباسی شہید ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پہ جعفریہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ والے اپنی ایمبولینس لیکرنہ پہنچتے اور اسے جے ڈی سی والے اپنی تسلی کے لیے آغا خان ہسپتال لیکر نہ جاتے تو کوئی یہ کرنے والا نہیں تها ، جسے ایرانی ایجنٹ کہا جارہا تها اور جس کو امداد ملنے کے قصے کہانیاں گهڑی جارہی تهیں تو جب وہ مرا ہے تو اس کی حالت یہ تهی کہ اس کے بچوں کے معمولی سے کپڑے ماں کے گهر سے سل کر آتے تهے اور مجهے پتہ ہے کہ کراچی میں وہ کون سے اس کے عزیز دوست تهے جو اس کی خودداری کا بهرم اور پندار غرور برقرار رہنے دیتے تهے اور کیسے وہ تین سے چار مرتبہ اسلام آباد ، چار سے پانچ مرتبہ لاہور ، قصور پہنچا تها اور وہاں کن کے پاس رہا تها
چوہدری نثار صاحب ! آپ کو ‘ن ‘ نے بتادیا ہوگا کہ خرم زکی کے اکاونٹ میں ایک روپیہ بهی نہیں تها اور اس نے بیروزگاری کے دنوں میں کیسے اپنا گزارا کیا ، کیسے دن گزارے اور اس نے اپنی معاشی مجبوریوں کو اشتہار نہیں بنایا لیکن میں آپ سے پوچهتا ہوں کہ کیا آپ ان دو موقر ایجنسیوں کو یہ ٹاسک دیں گے کہ وہ یہ سراغ لگائیں کہ مولوی عبداللہ اور اس کا خاندان بستی قاضی سعید سے اٹه کر اسلام آباد جب آئی تو ان کے پاس کیا تها اور اب کیا ہے ؟ اور کیا تها اور کیا ہے کے درمیان کیا کیا ہوا؟ تاجی کهوکهر سے مولوی عبدالعزیز کی کیا رشتہ داری اور تعلق ہے ؟ یہ کیوں بنا ؟
اسی طرح کی تحقیقات کیا مولوی محمد احمد لدهیانوی ، اورنگ زیب فاروقی کے بارے میں کروائیں گے ؟ کیا طاہر اشرفی اور ضیاء القاسمی کے بیٹے زاہد القاسمی کے بارے میں تحقیق ہوگی ؟ کہ جو مشکل سے سائیکل خریدنے کی طاقت رکهتے تهے وہ اب اتنے وسائل کے مالک کیسے بن گئے ؟ مفتی محمود پرانے زمانے کی خستہ بسوں میں سفر کرتے تهے ، انتہائی خستہ کچی مٹی سے لپا ہوا گهر تها آج مولوی فضل الرحمان ، مولوی لطف الرحمان سمیت یہ سارا خاندان ارب پتی کیسے بن گیا؟ کیا چوہدری نثار بنوریہ ٹاون کے مولوی مفتی نعیم اور اس مدرسے کے درجنوں لوگوں کے خستہ حال ماضی اور حال کی خوشحالی کے درمیان فرق کو تلاشنے کا ٹاسک انٹیلی جنس بیورو اور انٹرسروسز انٹیلی جنس کو دیں گے ؟ کیا وفاقی وزیرداخلہ صوبائی وزیرقانون راناثناء اللہ کی زیر زمین سرگرمیوں کی جانچ کروانے کا ٹاسک ان دو ایجنسیوں کودیں گے ؟
مجهے کئی دوستوں نے مشورہ دیا تها کہ چپ رہوں ، یہاں تک کہ کل جنهوں نے مجهے یہ سب بتایا وہ بهی یہی ہدائیت کررہے تهے لیکن میں نے سوچا کہ مرتو ویسے ہی جانا ہے تو اس سچ کو اپنے ساته قبر میں لیکر کیوں جاوں
ہمارے جیسے لوگوں کے پاس نہ تو تیر و تفنگ ہے ، نہ بندوق ، نہ توپ ، یہ انگلیاں ہیں جو قلب و دماغ کے کہنے پہ حرکت میں آتی ہیں اور دیکهیے کہ ‘خرم زکی ‘ کے بارے میں چوہدری نثار کی پهرتیوں کی خبر مجهے موصول ہوئی تو بے اختیار مجهے لاہورجیل میں فیض احمد فیض صاحب کی نظم ‘شورش زنجیر ‘ یاد آگئی
شورشِ زنجیر بسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے ،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
گنو سب داغ دل کے ، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہورہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں ، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
آخری اطلاعات آنے تک خرم زکی کے بارے میں دو ایجنسیوں کی جاری تحقیقات بند کردی گئیں ہیں اور ان کا کیس داخل دفتر کردیا گیا ہے کیونکہ خرم زکی کو قتل کیا گیا تو ان کی نماز جنازہ خرم کی وصیت کے مطابق پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر پڑهائی گئی تهی
یہ عجیب ملک ہے جس میں لوگ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ وہ اس ملک سے پیار کرتے ہیں اور مرتے ہیں تو اس کے جهنڈے میں لیپٹے جاتے ہیں مگر ان کو غدار ، ایجنٹ کہنے والوں کی تعداد گهٹ نہیں ہوتی ، جبکہ پاکستان کی ‘پ’ بننے پہ پیشاب سے داڑهی منڈوانے ، پاکستان بننے کے گناہ میں شریک نہ ہونے پہ شکر خدا بجا لانے والے ، پاکستان کو درندے کی پیدائش ، قاید اعظم کو کافر اعظم کہنے والے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں