ایک شخص ـــــ ایک تحریک – ناصر عباس گوندل
رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف — اسے مار دیجئے
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی بار بار درخواستیں لے کر شہر شہر،سڑک سڑک،تھانے در تھانہ،ملک دشمن،اسلام دشمن لال مسجد آپریشن کے دوران برقعہ پہن کے بھاگنے والے مولوی عبدالعزیز اور کا لعدم جماعت کے راہنما اورنگزیب فاروقی کے خلاف پر امن انداز میں آواز اٹھانے اور ایف-آئی-آر کی درخواستیں لے کر جانے والا خرم زکی کون تھا،وہ ہمارے ملک کے مٹھی بھر حق گو لوگوں کا ترجمان تھا،وہ نوجوان طبقہ کی امید تھا،وہ ماؤں کی گودوں کو اجڑنے سے بچانا چاہتا تھا،وہ اسلام اور پاکستان کے چہروں پر لگے ہوئے دہشتگردی،لاقانونیت،فرقہ واریت کے داغوں کو دھونا چاہتا تھا
–
خرم زکی ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جو کہ 1976ء کو کراچی میں پیدا ہو اور وہاں ہی پڑھا کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کی اور اسکے بعد میڈیا کا شعبہ جوائن کیا،انہوں نے مشرف دور میں وکلاء تحریک مین بھرپور حصہ لیا اور مشرف کی آمیریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اسکے بعد وہ دہشتگرد جماعتوں کے خلاف نکلا اور انکی اس تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور ہوا اور لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز نے عجیب و غریب قسم کے بیان دیے اور کھلے عام ظالمان کی حمایت کی۔اس وقت یہ مرد بہادر اکیلا نکلا سر پے کفن باندھ کے اور لال مسجد کے باہر سرد راتوں میں پرامن انداز میں احتجاج کیا کہ مولوی کے خلاف ایف-آئی-آر درج ی جائے زکی کے اس انداز احتجاج نے پورے ملک مینن لوگوں کو دہشتگردون اور انکے ساتھیوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا جس پر ملک کے بڑے شہروں سے نوجوانو نے ان سے رابطہ کیا اور انکا ساتھ دینے کا اعادہ کیا
انکی کی اس تحریک میں انکے ایک اور ساتھی جبران ناصر بھی انکے ساتھ ساتھ رہے اور ان سول سوسائٹی کے لوگوں نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشتگردی کے خلاف بھرپور انداز میں تحریک چلائی، تعمیر پاکستان (Let us bulid Pakistan) کے نام سے فیس بک پر ایک پیج بنایا جس کے زریعے عوام کے سامنے معاشرہ کے اندر چھپے دہشتگردوں کو بے نقاب کیا-
خرم زکی وہ پہلا شخص تھا جس نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس کے سامنے درندہ صفت دہشتگرد لوگ ہیں نام لے کر دہشتگرد جماعتوں (تحریک طالبان،لشکر جھنگوی،سپاہ صحابہ) کے خلاف آواز اٹھائی
–
خرم زکی ایک بہادر شخص تھا وہ ڈٹا رہا حلانکہ مولوی عزیز اور اورنگزیب فاروقی ی جانب سے اس کو سر عام دھمکیاں دی جاتی رہیں لیکن اس نے اپنا مشن جاری رکھا میں نے ایسے بہادر لوگ بہت کم دیکھے ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر صدائے حق بلند کریں اس نے بلا تفریق مذہب و مسلک،رنگ و نسل مظلوم لوگوں کا ساتھ دیا اور ظالم کے سامنے ڈٹ گیا،
اس نے سانحہ اے-پی-ایس پر آواز بلند کی اس نے سانحہ حیات آباد،اس نے شکار پور اور صفورا گوٹھ کے سانحات پر آواز اٹھائی اوہ اداروں کی غلط پالیسیوں پر بھی بلا خوف بولا،وہ کشمیراور فلسطین کی عوام کے حق میں بولا اس نے شیعہ مسلک کے علماء کی کلنگ پر آواز اٹھائی تو دیوبندی علماء مولانا حسن جان کی شہادت اور مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حملوں پر بھی اٹھائی،وہ بریلوی مسلک کے علامہ راغب نعیمی کی شہادت پے بولا تو اہلحدیث کے مولانا اسحاق مدنی کا بھی چاہنے والا تھا اس نے جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اتحاد امت کی جد وجہد کو سراہا تو اس جماعت کے منور حسن کے غلط بیان پر آواز اٹھائی
اس نے ایک مسلمان کے قتل پے صدائے احتجاج بلند کی تو وہ ایک عسیائی شہباز بھٹی اور ایک سکھ سردار سورنگ سنگھ کے قتل پر بھی خاموش نہ رہا،
اس نے پیپلز پارٹی کے سلمان تاثر کے قتل اور اسکے اور سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغواہ ہونے پر بھی ان سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا تو نواز لیگ کے وزیر شجاع خانزادہ کی شہادت پر بھی اس کو سلام پیش کیا،اس نے تحریک انصاف کے ایم-پی-اے سردار سورنگ کے قتل پر بھی آواز اتھائی،اس نے ایم کیو ایم کے کارکن آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں تشدد سے ہونے والی موت پے بھی آواز اتھائی،وہ قصور میں ہونے والے زیادتی کے شرمناک واقعے پے کراچی سے قصور آیا اور ان بچوں کو سہارا دیا،اس نے مساجد،امام بارگاہوں اور مزارات پے ہونے والے دہشتگدری کے واقعات پر چپ نہ اپنائی
خرم زکی شہید جب نکلا تو وہ اکیلا تھا لیکن وہ اکیلا ان منظم دہشتگرد گرہوں کے سامنے ڈٹا رہا وہ ایک شخص نہیں ایک تحریک تھا اس نے کبھی گولی کی زبان استمعال نہیں کی اس نے امن کی بات کی اس نے دلیل سے دشمنان اسلام و پاکستا کو بے نقاب کیا،وہ جب میڈیا پے ان دہشتگردؤں اور ان کے حامی ملاؤں کو کو بے نقاب کرتا تھا تو یہ لوگ دلیل سے اس کو جوان دینے کے بجائے اس کو گالیاں دیتے اس کو دھمکیاں دیتے لیکن اس شخص نے جوابا کبھی گالی نہ دی بلکہ دلیل سے ان کو زیر کیا اس نے اپنے اوپر ان ملاؤں کی جانب سے لگنے والے الزامات کہ یہ کسی ملک کا ایجنٹ ہے ،کسی این-جی-او کے لیئے کام کرتا ہے اور اس طرح کے دیگر ازامات کا جواب اپنے کردار سے دیا جب شہید ہوا تو اس کے تابوت پر سبز ہلالی پاکستانی پرچم تھا جو ان لوگوں کو منہ توڑ جواب تھا جو اسے کسی اور ملک کا ایجنٹ کہتے تھے وہ روشنی کی طرح پھیلا،اس نے تمام پاکستانیوں کو ایک ہونے کا درس دیا، وہ ڈرا نہیں اس نے ہر کسی کی ناکامی پر اس نے جوا مانگا،اس نے نیشنل ایکشن پلان کو دہشتگردی سے زیادہ سیاسی مقاصد کے لیئے استمعال ہونے پر احتجاج کیا
لیکن ہمارا معاشرہ بے حس تھا ہم تمہیں نہ پہچان سکے ہم نے تم ہی کو مجرم بنا دیا کیونکہ قصور تیرا تھا خرم زکی قصور تیرا تھا تم نے ان لوگون کو اصول پرست سمجھا تم نے آئین کی پاسداری کی بات کی تم نے قانون پر عملدرآمد کی بات کی تم نے فتنہ پرست ملاؤں عزیز اور فاروقی کے خلاف آواز بلند کی تم نے پرامن اور خوشحال پاکستان کی بات کی
زکی قصور تمھارا ہے
! کیوں کہ تم نے اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی ،تمھارا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ تم نے ریاستی اداروں کے دوغلے پن پے بات کی کیوں کی ان کی نظر میں تم اور اقرار الحسن (اینکر) جیسے لوگ تو مجرم ہیں وہ تم لوگوں کو تو جیل میں ڈالتے ہیں لیکن مولوی عزیز اور اورنگزیب فاروقی جیسے لوگ جو طالبان اور داعش کو کھلے عام سپورٹ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو وہ ازاد رکتے ہین انکو پروٹوکول دیتے ہیں لیکن تم نے تو پاکستانیت کا نعرہ لگایا
ایک دفعہ جب خرم زکی اسلام آباد ہائی کورٹ میں مولوی عزیز کے خلاف درخواست لے کر گئے تو وہاں جو جواب انکو جج کی جانب سے ملا ایک قانون کا طالب ہونے کی وجہ سے میرا سر شرم سے جھک گیا،اس جج نے زکی شید کو کہا کہ تم لوگوں کو اور کوئی کام نہیں کراچی سے اٹھ کے آ جاتے ہو ہمارا وقت ضائع کرنے،اس طرح کے جملے اور مشکلات کا سامنہ کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے مشن سے پیچے نہ ہٹا
خرم زکی تم ایک عظیم انسان تھے تم نڈر اور بہادر تھے،لوگ ان کو اکثر کہتے تھے کہ اپ کی جان کو خطرہ ہے احتیاط کریں وہ جواب دیتے تھے میں کیا کروں خاموش ہو جاؤں؟
گھر بیٹھ جاؤں یہ جلتا پاکستاں دیکھتا رہوں ،نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا اس نے اپنی شہادت کی صورت مٰیں جو اقدامات کرنے تھے وہ اپنےگھر والوں اور دوستون کو وصیت کی صورت مین بتا چکا تھا
سوچو جس کو اس قدر موت کا یقین ہو لیکن پھر بھی ڈٹا رہے کتنا بہادر تھا وہ اس نے اپنی بہادری کی موت سے پڑھے لکھے لوگوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا جن لوگوں نے زکی کو شہید کیا وہ خوش ہوں گے کہ ہم مشن میں کامیاب ہو گے لیکن شائد ان کو معلوم نہیں کہ کتنے اور خرم زکی بنے ہیں مجھے یقین ہے کہ ان دہشتگردوں کو یہ پزیرائی دیکھ کے ضرور پرشانی ہو گئی جو خرم زکی کی جد وجہد اور انکی شخصیت کو انکی شہادت کے بعد ملی وہ پرشان ہوں گے کہ لوگ حکیم اللہ کو شہید،مولوی عزیز کو جو برقعہ پہن کے بھاگ رہے تھے انکو مرد مجاہد اور ملک اسحق کو شہید اعظم کیوں نہیں کہتے ان لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ عزت اور زلت اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے اور عزت مظلوم اور مظلوم کے ساتھی کا مقدر ہے اور زلت ظالم اور ظالم کے ساتھی کا مقدر ہے-
کہا سچ اور میں سچ ہی کہوں گا-
لہو بن کر رگوں میں اب بہوں گا-
میرے قاتل تو مر جائیں گے اک دن-
میں زندہ تھا میں زندہ یہ رہوں گا-
پاکستان زندہ باد