تعمیر پاکستان بلاگ (ایل یو بی پی) اور خرم ذکی کا قتل – طاہر مجتبیٰ

13094321_1025031987589671_1952660875022434379_n

تعمیر پاکستان بلاگ نے اس وقت دہشتگردی کیخلاف ایک منظم فورم بنایا جب انتہاء پسندی کے مقابلے کیلئے غیر سنجیدگی اور غیر یقینی فضا قائم تھی۔ ملک کی بڑی جماعتیں قاتلوں سے مذاق رات کا راگ الاپ کر انہیں مہلت دے رہی تھیں۔ الجھاؤ، ابہام اور اپالوجسٹ رویوں کی فضاء میں دشمن اور اسکا نظریہ ہی واضح نہ تھا اور دہشتگردوں کے نظریے پر بات کرنے والی آوازیں انتہائی کمزور اور دبی ہوئی تھیں۔

دہشتگرد پاکستانی اور مسلمان نہیں ہو سکتے، امریکہ و بھارت کے ایجنٹ ہیں، دہشتگردی لال مسجد آپریشن یا ڈرون حملوں کا رد عمل ہے، نائن الیون سے پہلے کوئی دہشتگردی نہ تھی، خودکش دھماکوں والے جعلی طالبان ہیں جبکہ اصلی طالبان صرف افغانستان میں لڑتے ہیں اور بیگناہوں کا قتل عام نہیں کرتے، جنہوں نے ڈالر جہاد کیا وہی اصلی مجاہد تھے، مجاہدین اور دہشتگردوں کا آپس میں کوئی نظریاتی تعلق نہییں وغیرہ وغیرہ۔ اگر آج دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی اس قسم کی تاویلات کمزور ہیں اور محض ایک چھوٹے سے طبقے کو ہی مطمئن کر سکتی ہیں تو انکا زور توڑنے اور دہشتگردوں کی دیوبندی و سلفی جہادی تشریحات اور اسلامسٹ نظریات کو واضح کرنے کی آوازوں کو تقویت دینے میں ایل یو بی پی کا بھی بہت حصہ ہے۔ اسکی قیمت انہوں نے اپنے دو بلاگرز عرفان علی اور ایڈیٹر خرم ذکی کے خون سے ادا کی۔

ایل یو بی پی والے دہشتگردوں اور انکے نظریات کا دھڑلے سے نام لیتے اور بیانیے میں اگر مگر چونکہ چنانچہ لیکن کی گنجائش نہ چھوڑنے کی سعی کرتے۔ دہشتگردی کی دیوبندی و سلفی جڑوں کا واضح نام لینے سے اسے مسلک پرستی کا رنگ بھی سمجھا جاتا لیکن خرم ذکی خود دیوبندی گھرانے سے تھا اور اس نے بارہا واضح کیا کہ وہ سب دیوبندیوں کیخلاف نہیں، بلکہ آئیڈیالوجی کیخلاف ہے اور دہشتگردی کیخلاف جانیں دینے والے دیوبندی علماء کو سراہا جسکی ایک مثال ایل یو بی پی کی ٹیم کے مؤقف پر یہ پوسٹ ہے

https://www.facebook.com/khurramzaki4/posts/200454290306305

سوشل میڈیا پیجز اور بلاگ کے علاوہ اے پی ایس حملے کے بعد جب سول سوسائٹی سڑکوں پر دہشتگردی کیخلاف سامنے آئی تو خرم ذکی نے شدید دھمکیوں اور جان کو خطرات لاحق ہونے کے باوجود اس میں فعال کردار ادا کیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ دہشتگرد انتہائی طاقتور ہیں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو تحفظ حاصل نہیں، وہ سڑکوں پر اپنے خاندان سمیت موجود ہوتے۔

شیعہ بطور اقلیتی کمیونٹی شدت پسندی کی لہر کا سب سے زیادہ نشانہ بنے اور تین دہائیوں سے نشانہ بن رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بیس ہزار سے زائد شیعہ اس لہر میں مارے گئے۔

 جب خرم ذکی کو قتل کر کے ظلم کیا گیا تو انکے اس طرز عمل کا نشانہ بننے والوں میں سے اکثر نے نفرتیں اور اختلافات بھلا کر اصولی بنیادوں پر غیر مشروط مذمت کی، جبکہ جنہوں نے اختلافات کو نفرت و بغض کی حد تک پالا تھا، انہوں نے تاویلات کیساتھ مذمت یا خوشی بھی منائی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قلم کا استعمال کرنے والے کے کسی خراب طرز عمل کی بنا پر نفرتوں میں قلم اور بندوق اور ظلم و تشدد کا فرق بھول جانا چاہیے۔ خرم ذکی اور تعمیر پاکستان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، تعمیر پاکستان کے طرز عمل کا نشانہ بننے والے بعض نفرت بھی کرتے ہیں، خیالات و نظریات میں کہیں کہیں مسلکی آمیزش کی بنا پر انہیں سیکولر و لبرل یا سوشلسٹ و مارکسی بھی تسلیم نہ کریں، بریلوی اسلام ازم کو پرامن اور ممتاز قادری کو دیوبندی ثابت کرنے کی کوششوں کی بھی مخالفت کریں، لیکن کیا ان اسباب کی بنا پر اس فورم کی دہشتگردی کیخلاف ان خدمات کو بھی فراموش کیا جا سکتا ہے جنکو وجہ بنا کر دہشتگردوں نے خرم ذکی کو قتل کیا۔

کیا نفرتوں میں مظلوم کو ہی لعن طعن کر کے آزادیٔ اظہار رائے کے حق کو ہی بالائے طاق نہیں رکھا جائے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خرم ذکی کی جدوجہد تو ٹھیک ہے مگر معاشرتی حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا اور دہشتگردی کیخلاف اس حد تک خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا، ان سے سوال بنتا ہے کہ کیا اصلی شناخت والی یا قلمی سوشل میڈیا آئی ڈیز سے دہشتگردی کیخلاف آواز بلند کرنے سے دہشتگردی ختم ہو جائے گی۔ کسی کو تو میدان میں سامنے آنا ہو گا اور فی الوقت یہ ہمت زیادہ لوگوں میں نہیں اور نہ ہی کوئی بڑی سیاسی جماعت اس عفریت کیخلاف متحرک ہے۔ سوچنا چاہیے کہ دہشتگرد انکے نظریات سے خوفزدہ ہو کر انکو دبا دینا چاہتے ہیں، کیا نفرتوں میں انکی آواز کی خاموشی پر بغلیں بجانا دہشتگردوں کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہو گا۔

یہ بات یقینی ہے کہ ملحد سیکولرز اپنی شناخت کیساتھ کئی دہائیوں تک بالکل بھی میدان میں نہیں آ سکتے، لہٰذا یہ روشن خیال مسلمان یا ظلم کا نشانہ بننے والی اقلیتی کمیونٹیز سے لوگ ہوں گے جو شدت پسندی کیخلاف میدان میں آئیں گے اور آتے ہیں۔ دہشتگردی کیخلاف میدان میں آنے والی سول سوسائٹی کی آوازیں پہلے ہی انتہائی کم ہیں، اس صورت میں سو فیصد پرفیکشن ایک انتہائی خیالی اور غیر حقیقی تصور ہی ہو سکتا ہے۔

عقائد و نظریات اور طرز عمل سے اختلافات کیوجہ سے دہشتگردی کیخلاف آواز اٹھانے کی بدولت ظلم کا شکار لوگوں کیساتھ کھڑا نہ ہو کر ان آوازوں کی حوصلہ افزائی اور تقویت دینے کی بجائے کمزور ہی کیا جا سکتا ہے۔  جنید جمشید انتہائی زن مخالف خیالات کا حامل ہے اور تقریبا سبھی سیکولر اس سے اس بنیاد پر اختلاف کرتے ہیں، لیکن توہین کے الزامات کیوجہ سے اس پر کسی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس نے خیالات کا اظہار الفاظ میں کیا جو ظلم کا جواز نہیں بن سکتے یا تشدد کے برابر نہیں ہو سکتے۔ خرم ذکی کے قتل کی تاویلات کے طور پر بھی چند صحابہ کی بلاسفیمی کے الزامات لگائے جاتے ہیں جو کہ جنید جمشید کیلئے بھی درست نہیں ہو سکتے۔

یہی حال منور حسن، مفتی نعیم اور ممتاز قادری کے حامی ملاؤں کا ہے، جب تک وہ تشدد پر نہیں اتر آتے اور محض دہشتگردوں کی حمایت میں الفاظ کے ذریعے اظہار سے کام لیتے ہیں، ان پر کسی قسم کا اقدام تشدد ظالمانہ ہو گا۔ منور حسن تو سیکولرز کو اقلیت قرار دینے کا بھی کہتا ہے لیکن یہ اسکی رائے ہے جسکے خلاف قلم اور زبان سے اظہار کیا جا سکتا ہے، گولی سے نہیں اور انکے خلاف بھی زبان بندی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ قلم اور گولی کے فرق اور آزادیٔ اظہار رائے میں تشدد کی لکیر کو سمجھنا آخر کیا مشکل ہے۔

خرم ذکی کے قتل سے دہشتگردی و انتہاء پسندی کیخلاف اٹھنے والی آوازیں کمزور ہوں گی۔ سول سوسائٹی کے لوگ مزید عدم تحفظ کا شکار ہوں گے اور سوشل میڈیا پر اصلی شناخت کیساتھ آواز بلند کرنے والے اپنی شناخت چھپانے اور قلمی آئی ڈی سے خیالات کے اظہار میں زیادہ عافیت محسوس کریں گے۔

نوٹ: اس تحریر میں اعتدال پسند اور انسان دوست احباب کو مخاطب کیا گیا ہے۔

Comments

comments