خرم زکی بھائی کا اس دنیا میں اور میرے ساتھ آخری دن ۔ ولید محمود شیخ

13177295_126031097803010_3024719773291915749_n

سات مئی بروز ہفتہ شام، میں دفتر سے گھر آرہا تھا کہ میرے پاس خرم بھائ کی کال آئ مجھ سے پوچھا انھوں نے کہ “تم کہاں ہو؟” میں نے جواب دیا کہ میں دفتر سے گھر آرہا ہوں۔ خرم بھائ نے کہا کہ “مجھے سیدھا لینے آؤ” میں نے کہا کہ میں ابھی نہیں آرہا، پہلے کپڑے بدل لوں گھر سے ہو کر آؤگا۔ تو انھوں نے کہا “نہیں مجھے سیدھے لینے آؤ”۔ خیر میں سیدھا ان کے گھر گیا۔ وہ گھر سے باہر آۓ میں نے ان سے کہا ‘کیا بات ہے بھائ آج تو بڑے فریش اور اسمارٹ لگ رہے ہیں’ تو بس مسکرانے لگے۔ ہم بائک پر بیٹھے ذرا سا ہی آکے بڑھے تو کہنے لگے۔ “بھائ کیا کر رہا ہے؟ تجھے بائک چلانی نہیں آتی” (وہ بہت ہی حاضر دماغ تھے، گاڑی یا بائک چلانے والے کے گیر بدلنے کے انداز سے بتا دیتے تھے کہ چلانی آتی ہے یا نہیں)۔ میں نے کہا ‘بھائ اس کے اندر بریک نہیں ہیں۔ سو دی اس واٹ میکس اٹ آ ڈیڈلی رائیڈ ‘ وہ بس مسکراۓ

میں ان سے ایک نجی معاملے میں رہنمائ لینے لگا راستے بھر، راستے میں انھوں نے اپنی والدہ کے گھر رکنے کا کہا کیوں کے ان کے پاس اپنے سب سے بڑے بیٹے “علی” کے کپڑے تھے جو انھیں اپنی امّی کے گھر دینے تھے۔ ہم نیچے کھڑے ہو کر آوازیں دینے لگے ان کے بیٹے اور بھائ کو مگر کوئ نہیں آیا تو خرم بھائ نے مجھ سے کہا کہ “جا بھائ ہمت کر اپر دے کر آ” میں اپر ان کے بھائ کو وہ کپڑے دے کر آیا۔ پھر ہم دوبارہ بائک پر سوار ہو کر 11۔B کے ہوٹل روانہ ہوگۓ۔ جیسے ہی ہم ہوٹل کے قریب پہنچے تو انھوں نے کہا کہ “یہاں نہیں پہلے مسجد مصتفوی لو” (جو کہ قریب میں ہی واقعہ ہے)، میں نے بائک ادھر لے لی۔ جب وہاں پہنچے تو وہ کہنے لگے کہ “اب یہاں 10 منٹ انتظار کرو، میں اندر سے نماز پڑھ کر آتا ہوں” میں نے جواب دیا کہ بھائ یار اتنا تھکا ہوا ہوں میں گھر سے ہو کر آجاتا ہوں جب تک۔ انھوں نے کہا کہ “نہیں، یہی انتظار کرو یار”۔ کچھ 10 سے 15 منٹ بعد وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آۓ اور پھر ہم ہوٹل کی طرف چل دیے۔ ہم جب پہنچے تو خالد راؤ وہی پر پہلے سے بیٹھے تھے، ہم انہی کے ساتھ بیٹھ گۓ تو پھر تھوڑی دیر بعد میں نے کہا کہ خرم بھائ میں بس گھر سے کپڑے بدل کر آرہا ہوں صبح سے نکلا ہوا ہوں تو انھوں نے کہا کہ “اچھا۔ مارشل کہاں ہے؟” میں نے کہا کہ میں اسے بلاتا ہوں

میں خیر پھر تھوڑی دیر بعد گھر سے واپس آیا تو خالد راؤ کے پاس مزّمل کا موبائل تھا تو خرم بھائ نے بولا کہ “لاۓ یہ مزمل کا موبائل مجھے دیں” تو خالد بھائ نے جواب دیا کہ ‘بھائ یہ مزمل کا موبائل ہے’ تو انھوں نے طنزیہ مسکراتے ہوۓ کہا “کہ آپ کیا اس کے والد لگے ہوۓ ہیں” خالد راؤ ایک دم جھیپ گۓ۔ ہم سب ہنسنے لگے۔ اس وقت ٹوپک “میں” چل رہا تھا۔ خالد را‌ؤ نے مزاق میں کہا تھا کہ ولید بے وقوف ہے کیوں کے اسے تاش کھیلنا نہیں آتے۔ تو خرم بھائ ان کی ٹانگ کھینچ رہے تھے کہ خالد بھائ یہ آپ کیا بات کررہے ہیں۔ اور میری حمایت میں بولنے لگے

اس وقت میں فٹپات کی دوسری طرف کھڑا ہوا تھا اور خرم بھائ فٹ پاتھ پر کھڑے مجھ سے مخاطب ہو کر بات کررہے تھے۔ اسی وقت خرم بھائ کے پیچھے ایک موٹر سائکل پر دو لڑکے جنھوں نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئ تھی انھوں نے خرم بھائ پر 2 سے 3 گولیاں چلائ، جیسے ہی ان کو گولی لگی وہ سیدھا مجھ پر آکر گرے۔ میرے آگے ایک دم اندھیرا چھا گیا۔ گولیوں کی آوازیں گونجتی رہی۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی اور برابر میں کھڑے رکشہ کی طرف بڑھا اور کوئ پتھر ڈوھنڈنے لگا مجھے کوئ پتھر نہیں ملا ایک بڑی اینٹ ملی میں اسی اینٹ کو اٹھا کر ان قاتلوں کی طرف پھینکنے کے لیے آگے بڑھا تو آگے بیٹے موٹر سائکل سوار نے میری طرف بندوق تان کر مجھ پر سیدھی دو گولیاں چلائ۔ مجھے مگر ایک گولی بھی نہیں لگی۔ میری پھینکی ہوئ اینٹ تین چار فٹ سے دور بھی نہ جا سکی۔ اور وہ ملزمان فرار ہوگۓ۔

میں بھاگتا ہوا خرم بھائ کے پاس پہنچا تو خرم بھائ الٹا زمین پر پڑے ہوۓ تھے اس وقت تک ان کے قریب کوئ بھی نہیں تھا میں نے انھیں سیدھا کیا تو وہ اس وقت ہوش میں تھے اور میرا اور ان کا آئی کونٹیکٹ ہورہا تھا میں نے انھیں گود میں لے کر کہا کہ خرم بھائ کچھ نہیں ہوا ہے مگر وہ میری کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے۔ سواۓ کلمہ شہادت کہ ان کے منہ سے اور کچھ نہیں نکل رہا تھا اور نہ وہ نکالنا چاھ رہے تھے۔

مشکل سے پندرہ لمہوں تک یہ منظر رہا اور پھر انھوں نے اپنی آنکھیں بند کرلی۔ اس وقت تک لوگ ہماری طرف آگے بڑھنے لگے تھے۔ میرے ساتھ جاذب کھڑا تھا میں نے، جاذب نے اور ایک دو اور افراد نے انھیں اٹھایا اور گاڑی کے لیے چلّانے لگے کوئ بھی گاڑی نہیں لارہا تھا ہم ان کے جسم کو اٹھاۓ کبھی رکشہ کی طرف لے کر بھاگتے تو کبھی کسی جانب تب ہی ایک رفیق دوست “فاروق” نے آواز لگائ کہ “ادھر لاؤ سوزوکی میں لٹاؤ انھیں جلدی” ہم نے خالد راؤ اور سلطان صاحب جو کہ حملے میں زخمی ہوۓ تھے خرم بھائ کے ساتھ سب کو سوزوکی میں ڈالا، اور ہسپتال کی طرف روانہ ہوگۓ۔ سوزوکی میں، میں، جاذب اور ایک اور دوست بھی سوار ہوگۓ۔ خالد بھائ اور سلطان صاحب دونوں ہوش میں تھے مگر خرم بھائ ہوش میں نہیں تھے۔

ہم بار بار ان کی سانسیں چیک کر رہے تھے۔ ہم 5 اسٹار تک ہی پہنچے ہونگے کہ ہم نے دیکھا کہ خرم بھآئ کی سانسیں بند ہوگئ ہیں۔ عباسی میں گۓ تو ڈاکٹرز نے چیک کیا اور پھر پیچھے ہٹ گۓ اور غائب ہو گۓ۔ اس وقت بہت سارے لوگ تھے اور کافی جذباتی ہوگۓ تھے۔ تو وہاں کی انتظامیہ پر چھیکنے لگے۔ اور وہاں سے خرم بھائ، خالد راؤ اور سلطان صاحب کو آغا خان ہسپتال لے جانے لگے۔ خرم بھائ والی ایمبولینس میں، میں جاذب، ظفر عباس اور ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم صورتحال سے واقف ہوگۓ تھے اور سب غم میں نڈھال ہوگۓ تھے۔ آغا خان پہنچنے کے کچھ آدھے گھنٹے بعد یہ اعلان کردیا گیا کہ خرم بھائ اس دنیا سے رحلت فرما گۓ ہیں، جب کے خالد راؤ کی حالت نازک ہے

خرم بھائ عظیم ترین شخصیت تھے۔ شجاعت، عقل، سمجھداری و تدبیر و وسیع علم ان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات میں سے تھی۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی نماز جنازہ سی ایم ہاؤس پر پڑھائ جاۓ اور تکفیری دیوبندی دہشتگرد اورنگزیب فاروقی کے خلاف ایم آئ آر کٹوائی جاۓ، اور اس کو پھانسی لگے۔ الحمدللہ پہلی دو وصیتیں تو مکمل ہوچکی ہیں تیسری بھی انشاءاللہ جلد ہوگی

Comments

comments