سماجی کارکنان اور صحافیوں کو بطورِ خاص تاکید – سیم خان
سید خرم ذکی کی شہادت کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ حکومت یا اس کی ایجینسیز صحافیوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں کیونکہ فوج تو خود خیبر پختونخواہ میں چینی انجینئرز کے لیے سیکیورٹی مانگ رہی ہے جو خیبر پختونخواہ پولیس دینے سے انکاری ہے اور ریٹائرڈ پولیس افسران بھرتی کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس صورتحال میں صحافتی برادری کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ یا تو حکومت سے مطالبہ کرکے بُلٹ پروف جیکٹس لی جائیں یا پھر اپنے طور پر اس کا بندوبست کرکے حکومت سے اجازت لی جائے اور اپنی سیکیورٹی کے لیے گارڈز رکھ لیے جائیں جن کے چناؤ میں یہ احتیاط برتی جائے کہ وہ کسی قیمت پر بکنے والے نہ ہوں اور آپ کے مخالفین میں سے نہ ہوں، اُنہیں لائسنسڈ اسلحہ فراہم کیا جائے اور جہاں کہیں بھی جائیں تو چار پانچ گارڈز آپ کے ساتھ ہوں۔
پھر ہی آپ صحافت کے میدان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ پھر اگر کوئی آپ پر حملہ کرے گا تو جوابی حملے میں نیست و نابود ہوجائے گا۔ چاہے وہ حملے کے لیے خودکشی یا خودکش دھماکے کا ہی راستہ چُنے۔ سیکیورٹی گارڈز رکھنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بدبخت آپ کی گاڑی میں بم بھی فٹ کردیتا ہے جسے آپ عُجلت میں یا بے خیالی میں نہیں چیک کرسکتے تو آپ کا عملہ اسلحہ کی نشاندھی کرنے والے آلات سے اس کا سراغ لگا سکتا ہے اور آپ کو ممکنہ حملوں سے بچا سکتا ہے۔ یہ تجویز خاص طور پر اُن جرنلسٹس کے لیے، اُن سماجی کارکنوں کے لیے ہے جن کا مقابلہ سماج دُشمن عناصر یا دہشت گردوں سے ہے یا جو مظلوم کے لیے ظالم کا گریبان پکڑ کر آواز بُلند کرتے ہیں اور خوابیدہ قوم کو ایک بامعنی جدوجہد اور قابلِ نتیجہ محاز فراہم کرتے ہیں
یہ تجویز اُن کے لیے ہرگز نہیں نہ ہی اُن کے کام آئے گی جو لفافہ اور چیک لے کر اپنی زُبان کٹوا دیتے ہیں اور دوسرے کی زُبان بولتے ہیں، اُنہیں اس کی ضرورت نہیں۔ البتہ اُنہیں بھی محتاط رہنا چاہیے کیونکہ جو اُن کو سعودی خزانے سے چیک بھیج سکتا ہے، وہ کسی اور کو بھی سعودی خزانے سے چیک بھیج سکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ سعودی عرب کو انگریزی میں امریکہ کہا جاتا ہے جو بہت سے امریکہ مخالف لوگوں کی زُبان پر زدِ عام و ذرِ رام ہے۔