خرم زکی کے لئے ایک نوحہ – عامر حسینی
جب فلسطین میں ‘عرب شناخت ‘ موت کے یا جلاوطنی کے مترادف بنادی گئی اور صہیونیت نے ‘عرب ‘ ہونے کو باعث عار بناڈالا تھا اور لوگ اپنی عرب شناخت کو ظاہر نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھنے لگے تھے تو ایسے میں یہ محمود درویش تھے جو آگے بڑے اور انہوں نے بڑے فخر سے کہا
سجل
انا عربی
لکھ ڈالو
میں عرب ہوں
اور آخر میں کہا تھا
احذار ، احذار ، من جوعي ، من غضبي
ڈرو ، ڈرو مری بھوک سے ، مرے غضب سے
آج جب خرم زکی کا جنازہ سی ایم ہاؤس کی جانب بڑھا تو مجھے محمود درویش یاد آگئے اور میں نے سوچا کہ آج وہ زندہ ہوتے اور پاکستان کے اندر ہوتے اور یہ دیکھتے کہ یہاں ‘شیعہ ‘ ہونے کا مطلب ‘ یا مارے جاؤ یا جلاوطن ہوجانا ہے یا اپنی اس شناخت سے دست بردار ہونا ہے تو یقینی سی بات ہے کہ شعر کی دیوی ان پہ مہربان ہوتی اور کہتے
لکھ ڈالو
میں شیعہ ہوں
مرے شناختی کارڈ کا نمبر پانچ ہے
مرا گھر کا نمبر 12 ہے
مرے شناختی کارڈ اور گھر کا نمبر
تمہیں لائسنس ٹو کل دیتا ہے
تمہیں غضبناک کرتا ہے
اور تم مرے قتل کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہو
لکھ ڈالو
میں ایک شیعہ ہوں