Pakistan, from Jinnah to Maududi – by Zalaan
پاکستان، جناح سے مودودی تک
میں اتنہائی ادب کے ساتھ ایک عرض کرنا چاہتا ہوں مگر ڈر ہے کے مجھ پر ناموس قائد اعظم کا فتویٰ نہ لگ جائے
کہنا یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ،دنیا بہت تبدیل ہو چکی
قائد اعظم کی خدمات اور صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں پر یہ کہنا کے آج کا پاکستان ان کا تصور تھا غلط ہوگا
ساٹھ سال پہلے لوگوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ آج کا پاکستان کتنا مختلف ہوگا .مثال کے طور پر قائد اعظم نے کراچی کو دارلخلافہ منتخب کیا تھا پر اسے بغیر کسی عوامی رضا مندی کے اور بغیر کسی خاص وجہ کے خالص لسانی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر تبدیل کر دیا گیا .اسی طرح جو پاکستان قائد اعظم لینے میں کامیاب ہوئے تھے اس میں سے آدھا اکہتر میں چلا گیا اس کی وجہ بھی لسانی جھگڑا تھا اور آزادی حاصل کرنے والا ملک بھی مسلمانوں کا ہی تھا
قائد اعظم کے کیا افکار تھے اور وہ قوم کو کیا بنانا چاہتے تھے ابھی تک زیر بحث ہے ،نہ ہی آج تک کسی کو پتا چلا اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت اسے لے کر آگے بڑھی
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے مسلمانوں کی پاکستان بناتے وقت صرف یہی سوچ تھی کے انگریزوں اور ہندوں سے آزادی حاصل کر نے کے بعد سارے مسائل حل ہو جائیں گے پر پاکستان بنے کے کچھ ہی عرصے بعد ہندوستان سے دشمنی کی بنیاد پر فوج کی طاقت میں اضافہ ہوا اور فوج کی کمان میں آگیا ،اسی کے ساتھ زمینی حقائق یہ تھے کہ ملک کے اندر صوبائی اور لسانی تفریق بہت واضح تھی جو بڑھتی گئی
دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے ،آج کے پاکستان کو قائد اعظم سے جوڑنا ایسے ہی ہے جیسے کل کے پارسیوں ،انگریزوں اور چھوٹے سے صاف ستھرے شہر کراچی کو آج کے کراچی سے ساتھ دیکھنا ،ایسا ہی ہے جیسے مغلوں کے شہر لاہور کو آج کے لاہور سے ملانا ،یا ہٹلر کے جرمنی کو آج آج کا جرمنی کہنا
قائد اعظم کا وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اتنا زور پکڑے گی کے مولوی بیگناہوں کو قتل کر رہے ہونگے اور اس کی توجیح پیش کر رہے ہونگے
آج کے پاکستان میں بہت برا نظریاتی خلا پیدا ہو چکا ہے اور اصل میں لسانی اور علاقائی طور پر بھی بٹ چکا ہے جس کا قائد اعظم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بنے کے بعد جو قومی سطح کا لیڈر آیا ہے اور جس کی عوام میں پزیرائی ہوئے وہ ذولفقار علی بھٹو تھا
اس کے علاوہ اس نئے پاکستان میں جو نظریاتی خلا تھا اسے پر کرنے کے لیے انیسویں صدی کے جو نئے سیاسی اسلامی فلسفے تھے وہ پوری طرح اس ملک پر آزماے گئے .سید قطب اور مولانا مودودی کو اس نئے پاکستان کا باباۓ قوم بنایا گیا اور ضیاء الحق کے آتے ہی اس پاکستان کو مودودی کے خوابوں کی تعبیر بنانے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ ہم آج دہشتگردی اور مذہبی نفرت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں -اب سوچنا یہ ہے کہ پاکستان کو ضیاء الحق ،بھٹو یا مودودی کا پاکستان بنانا ہے یا کوئی ایک نئی سوچ پیدا کرنی ہے جو اس خلا کو پر کرے
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح سو سال پہلے کا برطانیہ آج والا نہیں ہے اسی طرح ساٹھ سال پہلے والا پاکستان آج والا نہیں ہے
قائد اعظم کو الله پاک جنت نصیب کریں ہماری فوج اسی طرح ان کے مزار پر سلامی دیتی رہے پر اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آج کا پاکستان ہم کیسے بنائیں جس میں ہماری مذہبی ،اخلاقی اقدار بھی ہوں اور انسانی اور سماجی حقوق بھی حاصل ہوں
یہ بلکل صحیح ہے کہ قائد اعظم نے ملک دیا پر قوم نہیں دی ، قوم ،وطن اور ملک کی تشریح کیا ہے اور پاکستان ایک ملک ہے پر کیا یہ ایک قوم ہے یا وطن ہے کوئی بھی بتانے سے قاصر ہے
اگر پاکستانی قوم کی بنیاد مذہب یعنی اسلام ہے تو پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان پاکستانی ہونگے اور پاکستان کے دروازے خصوصی طور پر ہندوستان اور بنگلادیش کے مسلمانوں کے لیے کھلے ہونے چاہیے ہیں کیوں کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیہ بنا تھا
اگر ملک زبان کی بنیاد پر ہونا چا ہیے تو ہمارا ملک کئی زبانوں میں بٹاہوا ہے بلکہ ایک زبان بولنے والے لوگ دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں مَثَلاً پنجابی اور سندھی انڈیا اور پاکستان میں بٹے ہوئے ہیں ،بلوچ ایران ،پاکستان اور اومان میں بٹے ہوئے ہیں ،پختون افغانستان اور پاکستان میں بٹے ہوئے ہیں .پاکستان کے لوگوں کو ایک زبان کی چھتری میں لنے کی اچھی کوشش کی گئی اور اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جو یقینن ایک رابطے کی اور پاکستانی قومی زبان بنی پر اس پوری اور مخلصانہ کوششوں کے باوجود آج بھی پاکستان میں لسانی بنیادوں پر تفریق میں زرہ برابر بھی کمی نہیں ہی ،ساٹھ ستر سال بعد بھی سندھی آج بھی سندھی ہے اور پنجابی بھی پنجابی ہی ہے اور اردو سپیکنگ وہی کہلاتا ہے جس کی زبان پاکستان بنے سے پہلے اردو ہی تھی
یہی خلا تھا جسے مذہبی سیاسی جماتوں نے پر کرنے کی ناکام کوشش کی اور کہا کہ یہ ملک “اسلامی نظام ” قائم کرنے کے لیے بنا ہے اور یہ نظریہ پوری قوت سے پھیلایا گیا
پچھلے ساٹھ سالوں میں سیاسی اسلام پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا اور یہ دائیںاور بائیں بازو کی جنگ بن گئی مگر شاید بہت تھوڑے لوگ ہونگے جنہوں نے اس نیے فلسفے کو مذہب کے حوالے سے چلینج کیا ہو کہ کیا واقعی جس “اسلامی نظام ” کی بات ہو رہی ہے وہ اسلامی ہے بھی یا نہیں
پیغمبر کا مقصد استلمی ریاست تھا یا نہیں ،امت کا تصور روحانی ہے یا ریاستی . اسی کے نتیجے میں ہم آج خودکش دھماکوں اور دہشتگردی کا شکار ہو گئے اور کنفوزن کی انتہا ہو گئی جب سوات کے جاہل اور خوں خار مولویوں فضل الله ،صوفی محمد اور مسلم خان کا لیا ہوا “اسلامی نظام اور شریعت ” پر سب مذہبی جماعتیں متفق ہو گئیں بلکے پارلیمنٹ سے منظور بھی کر لیا گیا
دیکھنا یہ ہے کہ میں آپ اور آج کا انسان ملک ،وطن ،قوم اور مذہب کو کس حوالے سے دیکھتا ہے .وطن اور زبان انسان منتخب نہیں کرتا بلکے وہ الله کی طرف سے منتخب کیا ہوتا ہے جسے انسان کبھی تبدیل بھی نہیں کر سکتا
ملک بڑا ہو یا چھوٹا یا وطن ایک ملک بنے یا ایک وطن کے کئی ملک انسان سے اس کا وطن نہیں کہنا جا سکتا .مذہب کی بنیاد پر وطن نہیں ہوتا کیونکہ ایک وطن میں کئی مذہب بھی ہوتے ہیں
آج کے انسان کو ایک ایسا ملک چاہیے جہاں اسے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں ،مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو ،جہاں وہ اپنی ثقافت اور زبان کے ساتھ بھی رہ سکے اور معاشی طور پر یکساں مواقع ہوں اور اس کی جان مال محفوظ ہوں اور انصاف ہو
یہی وجہ ہے کہ پاکستان یا دوسرے ممالک جہاں پر امن اور آزادی نہیں وہاں کا ہر دوسرا بندہ مغربی ممالک میں ہجرت کرنے کے لیہ تیار بیٹھا ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ پہلے ہی ہجرت کر چکے ،باوجود زبان ،مذہب اور رنگ کے مغربی ملکوں نے کسی حد تک ہر مذہب ،رنگ اور زبان سے تعلق رکھنے والے کو قبول کیا -ان ملکوں میں باوجود مسلمانوں کے شدت پسند گروپس کی جانب سے نفرت اور دشتگردی کے آج بھی یہ ممالک مذہبی لوگوں کے لیے آزاد ہیں
کنیڈا ،امریکا یا برطانیہ میں رہنے والا خالص مذہبی تبلیغی جماعت کا آدمی پوری طرح سے اپنے مذہبی عقیدے کی تبلیغ اور ساتھ ہی اپنی معاشی اور سماجی زندگی کو آزادی سے گزار رہا ہے اور یہ آزادی اور بے خوفی اسے نہ طالبان کے سوات اور باجوڑ میں مل سکتی ہے اور نہ ہی اسلام کے علمبردار ملک سعودی عرب میں ، مغربی ممالک میں ایک ہی محلے میں سکھ ،مسلم ،ہندو سب امن سے رہ رہے ہیں ،سب کے الگ وطن اور مذہب ہیں پر وہ اس ملک میں رہ رہے ہیں جہاں انہیں بنیادی حقوق حاصل ہیں
ملک بنانے کا مقصد ایک گھر کی طرح ہوتا ہے جہاں انسان امن سے رہے آج کا پاکستان ایک ایسا بکھرا ہوا گھروندا ہے جس میں امن عنقا ہے – یہ اقبال کا وہ خواب نہیں جس کو جناح نے تعبیر عطا کی – یہ وہ خواب ہے جو مودودی نے دیکھا تھا اور جس کو تعبیر جنرل ضیاالحق نے عطا کی
true!
یہ اقبال کا وہ خواب نہیں جس کو جناح نے تعبیر عطا کی – یہ وہ خواب ہے جو مودودی نے دیکھا تھا اور جس کو تعبیر جنرل ضیاالحق نے عطا کی
Democracy Mullaism ko hamesha defeat dete aye ha .aur democracy he inko total defeat degy zara democracy ko strong honay do !