سنی شیعہ تنازعہ، اختلافِ امت اور اعتدال کی راہ – قاری حنیف ڈار
اس امید پے یہ شئیر کر رہا ہوں کہ آپ میرے نکتہ نظر کو وسعتِ فکر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں گے اور اگر میری رائے میں غلطی ہو تو اصلاح فرمائیں گے
سب سے پہلے اُصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم شیعیت کے بارے میں جب گفتگو کرتے ہیں تو اُن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کی روایات کی کتابیں ہیں نہ کہ اصول کی
روایات کی کتابوں میں ہمارے ہاں بھی بہت کچھ نکالا جاسکتا ہے اور نکالا بھی جاتا رہا ہےمثلاً میں بخاری کی ایک روایت نقل کروں جس میں آیت کے الفاظ کچھ دوسرے ھی بیان کیئے گئے ہیں۔ میں یہ نقل کرنے کے بعد بولوں کہ اہل سنّت والجماعت قرآن میں تحریف کے قائل ہیں، تو کیا یہ انصاف ہو گا؟
السید مصطفیٰ خمینی اس ہی قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں: القرآن الكريم هو الفرقان المستقيم والذكر الحكيم والكتاب العظيم ، فهو كتاب من عند الله يحتوي على الحقائق الاعتقادية والأخلاقية والأفعال التي يجب الأخذ بها، وهو يشتمل على جميع أسباب الهداية، وهو رسالة الله تعالى إلى عباده أوحاها إلى خير خلقه وخاتم النبيين محمد (صلى الله عليه وآله وسلم) وهو معجزة الإسلام الخالدة وهو أحسن الخزائن الإلهية
لفظا ومعنى وأسلوبا والمكتوب في المصاحف والمنقول عنه بالتواتر
السید محمد باقر الحکیم اس ہی قرآن کے بارے میں کہتے ہیں
القرآن الكريم هو الوحي الإلهي المنزل على خاتم الأنبياء محمد بن عبد الله (صلى الله عليه وآله) لفظا ومعنى وأسلوبا والمكتوب في المصاحف والمنقول عنه بالتواتر.
محمد مشہدی اپنی تفسیر کے آغآز میں لکہتے ہیں
لا شک ولا ريب في أن القرآن هو كتاب الله المنزل على رسوله لهداية الناس وإرشادهم وتزكيتهم وإخراجهم من الظلمات إلى النور، وهو كتاب دستور لجميع البشرية من زمن نزوله إلى الأبدية، وهو الفرقان الذي يفرق بين الحق والباطل، والتبيان لكل شئ، والهادي لسبل الخير والصلاح، والمحذر عن كل شر وضلال، وهو كتاب الله القويم الذي لا يعتريه أي خطأ واشتباه
اس باب میں علی شریعتی کا نقطِہ نظر بھی پڑھنا چاہئے۔ شعیہ حضرات کے چند بڑے علماء کہتے ہیں کہ وہ اسی قرآن کے قایل ہیں جو پوری اُمّت میں رائج ہے اور جو حضورﷺ پر نازل ہوا اور عمر میں تواتر سے ہم تک پہنچا۔ اپ ہم ان کی یہ بات کیوں نا تسلیم کریں؟
آج کے دور میں جو ایران کے پیشواء ہیں آیت اللہ خامنہ ای، وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ شعیت اپسی قرآن کی قائل ہے جس کی باقی اُمّت قائل ہے
ویسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؒ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ فرماتے ہیں
میں معوذتین کا قرآن میں ہونے کا قائل نہیں۔ ان کے پاس جو مصحف ہے اس میں یہ دونوں سورۃ نہیں تھیں لیکن ہم ان کی بھی تاویل کرتے ہیں
جہاں تک بات ہے کہ شیعہ صحابہؓ کو کافر کہتے ہیں تو اس باب میں عرض ہے کہ وہ اپنی اس بات کی تاویل کرتے ہیں اصولِ کافی سے ماخوذ حدیث جو خمینی صاحب کی جو کتاب کشف الاسرار میں ہیں جن کو عام طور پر پیش کیا جاتا ہے (مدیر: نوٹ کیا جانا چاہیے کہ شیعہ حضرات تو یزید اور معاویہ کی بھی تکفیرنہیں کرتے، ان کو غاصب، منافق اور ظالم قرار دیتے ہیں)
کشف الاسرار میں حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں لکھا ہے “کان الحد” اور اصولِ کافی کی تین بڑی شروط میں ‘الحد” کا معنیٰ بیان کیا ہے “عہد سے ہٹ جانے والا” نا کہ دین اسلام سے ہی پھر جانے والا جسے ہم کافر کہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ان کےایمان ہی کو تسلیم نہیں کرتے
شیعہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت اہل بیت کا حق تھی لیکن انہیں انکا حق نہیں دیا گیا۔ ہمیں شیعہ حضرات کو تاویل کی گنجائیش دینا پڑے گی اور ان کی بات میں ان کی تشریح کو ہی مانا پڑے گا
یہی معاملہ بریلوی حضرات نے علماء دیوبند کے اکابرین کی کتابوں کی عبارت کے ساتھ کیا تو ہم نے المناد میں بتانے کی کوشش کی کہ صاحب ہمارے نظریات یہ ہیں ، ہماری ان باتوں سے مراد یہ ہے۔ جب یہ حق ہمیں حاصل ہے تو شعیہ کو کیوں نہیں؟
اور ہم یہ تاویل کی گنجائیش بریلوی حضرات کو بھی دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں وہ شرک کرتے ہیں ۔ قبروں پہ سجدہ کرنا شرک نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن ہم کیا انہیں کافر کہتے ہیں ۔ نہیں تو اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور دین سمجھ کر یہ غلطی کر رہے ہوتے ہیں
تکفیری ناقدین کہتے ہیں کہ شیعہ کا کلمہ الگ ہے۔ یہ جو کلمہ ہم پڑہتے ہیں ” لا إله إلا الله محمد رسول الله ” یہ کس کتاب میں نقل ہوا ہے؟ قرآن میں؟ حدیث میں؟
اس میں آپ اضافہ کرنا چاہیں تو “خالد بن ولید سیف اللہ” ، ” موسیٰ کلیم اللہ ” ، ” عیسیٰ روح اللہ ” اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اصل کلمہ جو نقل ہوا ہے وہ شعیہ اور سنّی سب حضرات کا ایک ہے۔ “اشهد أنّ لا إلـﮧ إلاَّ اللـَّـﮧ و أشهد أنّ محمد عبدہ و رَسُــولُ “
شیعہ جمع بین الصلاتین کرتے ہیں۔ ہماری روایتوں میں ہے کہ حضورﷺ نے مدینہ میں رہتے ہوئے بغیر کسی سفر کہ جمع بین الصلاتین کیا – آپ موقع دیں تو عرض کروں کہ میری رائے میں شعیت نے اسے مستقل روش بنا لیا ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن کیا وہ اس نماز کے ہی قائل نہیں جو ہم پڑہتے ہیں؟ ۔ یہ کہنا تو بہت غلط بات ہے
تاویل کی گنجائیش کیا ہم اپنے پورے تصوف کی روایات کو نہیں دیتے ہیں۔ آپ کا ابن عربی، شبلی، بایزید بسطامی، غزالی، حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ابن عربی فتوحات مکّیہ کے بارے میں فرماتے ہیں “فتوحات میں مجھے جب معلوم پڑتا ہے کہ نبوت ختم ہو گئی ہے تو کسریٰ زہری ” میری کمر ٹوٹ جاتی ہے”۔
شاہ ولی الله صاحب فیض الحرمین میں لکھتے ہیں ” توحید ایک عام آدمی کی ہے، ایک اخص الخواص کی” جب اخص الخواص کی توحید پر آدمی پہنچ جاتا ہے تو اسے نبی کی بھی حاجت نہین رہتی۔
الجیلی انسان الکامل میں لکھتے ہیں ” میرے شیخ اس عہد کے محمد مصطفی ﷺ ہیں”
اس طرح کی درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں۔ ہم ان سب کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کافر ؟ ۔ یہ ساری باتیں کیا ختمِ نبوت کا انکار نہیں۔ لیکن ہم تو انھیں تاویل کی گنجائیش دیتے ہیں
ہمارے دیوبندی اکابر میں حضرت رشید احمد گنگوھی لکھتے ہیں کہ دین کی روح کا حصول کا علم جنید بغدادی سے شروع ہوا جو انھوں نے براہ راست حضورﷺ سے لیا اور یہی طریقت ہے۔ آپ کے علم میں ہے پوری دیو بندیت ان روایات اور اس تصوف پہ ایمان رکھتی ھے ، اور ہمارے بڑے ان تمام صوفیوں کو امام سے پڑھ کر حیثیت دیتے ہیں ۔ پر ہم اپنے اکابر کی تکفیر نہیں کرتے تو آخر کیوں؟ ھم تاویل کرتے ھیں ، ہمیں تاویل کی یہ گنجائیش شعیہ حضرات کو بھی دینی چاہیے
بعض ناقدین تقیہ کی بات کرتے ہیں
بخاری کی روایت ہے حضرت حسن بصری سے۔ التقیت الله یوم القیامه۔ تقیہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اب کیا کہیں گے آپ اس روایت کے بارے میں؟ کیا آپ اور میں تقیہ نہیں کرتے اپنی زندگی میں۔ جب مجھ سے میرا بیٹا پوچھتا ہے کہ ابو میں کیسے پیدا ہوا؟ کیا میں پیدائیش کے عمل کے بارے میں اس کو بتانے بیٹھ جاتا ہوں؟ نہیں ۔ یہی کہتا ہوں کہ پری چھوڑ کر چلی گئی تمہں۔
شیعہ حضرات پر جب ظلم و ستم کا آغاز ہوا (بنو امیہ اور بنو عباس اور دیگر ادوار میں) تو وہ اپنی حیثیت کو چھپاتے تھے۔ اب تو وہ حالات نہیں؟ وہ کھل کر کہتے ہیں ہم شیعہ ہیں، مساجد میں علی ولی الله اور خلیفتہ بلا فصل کی اذانیں دیتے ہیں، اس میں تقیہ کہاں کھڑا ہے۔ دل میں کسی کے کیا ہے ہم یہ جاننے کے نا مکلف ہیں اور نہ ہی یہ ہمارا کام ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے دلوں کے حال۔ لہٰذا ہم تو لکھے، بولے پر ہی گفتگو کر سکتے ہیں
بریلوی حضرات اگر ہمارے بارے میں لکھیں کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اور دل سے گستاخ ہیں تو اس کا کیا جواب ھے؟ ہم انھیں کیسے مطمئن کریں گے۔،وہ بولیں ان کی بخاری میں لکھا ہے، تقیہ تو ان کا مذہب ہے۔
بات یہ ہے کہ میری رائے کے مطابق شیعہ مسلک اپنے آغاز میں شاید سیاسی تحریک تھی، انھوں نے مذہب سے بہت ساری چیزوں کے ثبوت تراشے یا فراہم کیے، جیسے سلسلہ امامت کو ہی لے لیں۔
میں آپ سے عرض کروں بلکل اسی طرح سے ہمارے قدیم صوفی بھی اپنے شیخ کے بارے میں خیالات رکھتے ہیں۔ دور مت جائیں حضرت مجدد الف ثانی کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے تھے۔ خواجہ خضر اپنے دور کے قطب تھے۔ قطب کے اختیارات یہ ہیں کہ جو جسے چاہیں رزق دیں، جسے چاہیں مار دیں، جسے چاہیں حیات دیں۔ ہم یہ بات پڑھ کے کیا کرتے ہیں؟ تاویل۔
یہی تاویل کے گنجائیش شعیہ کو بھی دینی چاہیے۔
صحابہ کے باب میں عرض ہے۔ تاریخ لکھنے والوں نے سب رطب و یابس لکھ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ کھولا تو حضرت فاطمہؓ کو لگ گیا اور حمل ضائع ہو گیا۔ پہلی خلافت اہل بیت کو نہیں دی گئی پھر نواسہ رسولﷺ کو بھی تڑپا تڑپا کر شہید کر ڈالا۔ پانی بھی بند تھا آپ ذرا درد دل کے ساتھ بتائیں جو بچہ شیعہ گھر میں پیدا ہو اور شروع سے یہی باتیں سنے تو وہ کیا نقطہ نطر رکھے گا بعض صحابہ کے بارے میں۔ ہمیں اس سے ہمدردی ہونی چاہیے نہ کہ نفرت
جہاں تک بات ہے کافر کی تو کافر کہنے کا حق ریاست کو ہے۔ کافر ہم بریلویوں کو نہیں کہتے جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں یہ تو پھربعض صحابہ کے باب میں متعرض ہیں
قادیانیوں کے بارے میں تمام علماء نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے
ہمار ے بہت سارے علماء جیسے شیخ الہند مفتی شفیع، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کے فتاوی ہیں شعیہ کی عدم تکفیر پہ اور شیعہ سے شادی کے جواز پر۔ وہ نہ صرف ان سے نکاح جائز قرار دیتے ہیں بلکہ سماجی تعلقات بھی جائز قرار دیتے ہیں
اس طرح اصول حدیث کا بنیادی قاعدہ ہے کہ کسی کافر سے حدیث نقل نہیں کی جا سکتی۔ بخاری کے کتنے راوی مذہبی روافض یا شیعہ سے تعلق رکھتے ہیں، تو تکفیرِ روافض پہ بخاری کہاں کھڑی ہے؟ پھر کیا خیال ہو گا آپکا؟ بخاری کے بارے میں یہ مسئلہ امت میں ہمیشہ سے مختلف فیہ رہا
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ شعیہ مذہب کو ہم تاویل کی گنجائیش دیتے ہوئے ان کی بدعات کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم انھیں بجائے کافر کہنے کے اپنے بھائیوں کر طرح سمجھایں اور اچھی باتوں کی حوصلہ افزئی کریں
ابھی کچھ عرصہ پہلے خامنہ ای صاحب کا فتوہ آیا تھا ” جو شخص حضرت عائیشہؓ یا دیگر صحابہ کے بارے میں دشنام طرازی کرے وہ اثناء عشری شعیہ نہیں، ایسا کرنا حرام ہے” – ایسی چیزوں کی تشہیر کرنی چاہیے تا کہ لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ انہیں اچھے کی طرف لایا جائے۔ ہمیں دنیا میں لوگوں کو جنت کا مستحق بنانے کے لیئے بھیجا گیا ہے ۔ دعوت ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے شیعہ حضرات اور کسی بھی دوسرے مسلک میں موجود بدعات اور دین کی بعض غلط تعبیروں کی اصلاح ممکن ہے
وما علينا إلا البلاغ المبین