دہشت گردی کے خلاف بننے والی ڈاکومنٹریز پر پابندی قابل مذمت ہے
سنسر بورڈ کی جانب سے ان دونوں فلموں (امنگ دی بیلورز اور بسیجڈ ان کویٹہ) پر پابندی جو اصل میں پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی، دہشتگردی اور ملک میں جاری شیعہ نسل کشی کے حوالے سے تیار کی گئی ہیں اس بات کا اعلان ہے کہ ریاست میں موجود سعودی نمک خوار ان عناصر کی ابھی تک حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی میں ملوث ہیں۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس ملک میں سیاست دنوں کے خلاف فلم بنانا تو آسان ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف فلم بنانے کی اجازت نہیں – کیا اچھے اور برے دہشت گردوں میں ابھی بھی فرق رکھا جا رہا ہے ؟
میں سمجھتا ہوں کہ کرپٹ اور غیر قانونی کاموں میں جو بھی ملوث ہو، چاہے سیاستدان ہو سرکاری نوکر، جج ہو یا صحافی، کوئی سول بیوروکریٹ ہو یا فوجی افسر، سب کے غلط کاموں پر تنقید کی جا سکتی ہے اور آئین و قانون میں اس کی آزادی ہونی چاہیئے۔ لیکن صرف سیاستدان ہی کو اکیلا ملک دشمن یا کرپٹ ثابت کرنا حقائق کے منافی ہے اور صرف سیاستدان پر تنقید کی اجازت دینا آزادی نہیں بلکہ غلامی ہے۔ کیا جنرل ضیا، جنرل یحیی، جنرل عبید اللہ خٹک اور سجاد غنی جیسے نا اہل اور کرپٹ جرنیلوں کے خلاف بھی فلم بنانے کی اجازت ہے ؟