مابعد کربلاء مکتب علی شناسی کے چند ادوار : لاتاریخی رجحان و تکفیریت – عامر حسینی
امام باقر کے چںد سٹیٹس کو مخالف آزاد دانشور اصحاب
مکتب علی شناسی میں امام باقر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب کا دور امامت بہت اہمیت کا حامل ہے اور بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مکتب علی شناسی میں جو تصور امامت ہے اس پر باقاعدہ اور منظم طریقے سے اس کی جو
Legal formation
تھی اس پر جناب امام الباقر نے کافی کام کیا اور آپ کی رکھی بنیادوں کو آگے جناب امام جعفر الصادق نے آگے بڑھایا –اور جیسا کہ میں نے بتلایا کہ مکتب علی شناسی کا تاریخی ریکارڈ مرتب کرنے میں کئی ایک کردار تھے جن کو بعد ازاں ترتیب دی جانے والی کتب الرجال و جرح و التعدیل میں غیر ثقہ ، رافضی و غالی الرافضی قرار دے دیا گیا –یہ مسلم تاریخ کے فراموش کردئے گئے کردار ہیں اور ان کو مین سٹریم دھارے سے نکال باہر کیا گیا –بلکہ کالونیل دور میں غیر مسلم متشرقین نے مسلم تاریخ پہ جو کام کیا ان میں بھی مکتب علی شناسی کے انتہائی اہم ترین کرداروں کو حاشیہ پہ رکھا گیا اور ان کی بیان کردہ تاریخ کو ” انحرافی بیانیہ ” سے تعبیر کیا گیا –اس حوالے سے حسین محمد جعفری نے اپنی کتاب
Origin and Early Development of Shia Islam
کے پیش لفظ اور باب نمبر 9 میں جبکہ ڈاکٹر ارزینہ آر لالانی نے اپنی کتاب
Early Sh’i Thought:The Teachings of Imam Muhammad Baqir
کے باب اول ” بنو ہاشم اور ابتدائی شیعی فکر ” میں تفصیل سے زکر کیا ہے کہ کیسے مغربی مستشرقین نے ایک عرصے تک مکتب علی شناسی کو ایک منحرف رجحان کے طور پر لیا اور اس کے تاریخی ماخذ کو نظر انداز کئے رکھا یا اسے محض ایک سیاسی تحریک کے ہی ڈیل کیا اور اس تحریک کی جو مذھبی یا مابعد الطبعیاتی بنیادیں تھیں ان کو زیب داستان کے طور پہ ہی لیا –لیکن
Rudolph Strothmann
جو کہ ایک جرمن ماہر تاریخ و فرق و ادیان تھا جبکہ
Louis Massignon
فرانسیسی عظیم مستشرق
Henry Corbin
اور دیگر کئی ایک نام ہیں جنھوں نے کم از کم مغرب میں مکتب علی شناسی کی ابتدائی تشکیلی حالت کی تاریخ بارے سوچنے سمجھنے کے انداز کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ، میں نے اپنے طور پہ جرمن مستشرق رڈولف شتروطمان ، ہنری کربین اور ہینز ہیلیم کی تحریروں کو پڑھا وہ واقعی مغرب میں مکتب علی شناسی کی طرف لوگوں کے دیکھنے کے رویوں میں تبدیلی لانے والا کام ہے اور مری نظر میں مکتب علی شناسی کے خلاف جو متشدد ، تکفیری انتہا پسند منافرت انگیز ڈسکورس ہے اس کے خلاف عام پبلک کے اندر ایک علمی ، شعوری اور مدلل و منطقی بلاک تعمیر کرنے کے لئے ان تحریروں سے استفادے کی اشد ضرورت ہے اور مکتب علی شناسی کے ابتدائی تشکیلی ادوار بارے زیادہ سے زیادہ شعور و آکاہی پھیلانے کی ضرورت ہے –
میں نے دیکھا ہے کہ مکتب علی شناسی سے وابستہ کئی ایک نوجوان مکتب علی شناسی پہ جذباتیت سے کام لیتے ہوئے متشدد تکفیری انتہا پسند ڈسکورس یا بیانیہ کے مدمقابل ویسا ہی متشدد ، تکفیری اور یہاں تک مبتذل انتہائی سطحی ڈسکورس یا بیانیہ لیکر آجاتے ہیں اور وہ ناموس ، حرمت اور عزت کے خطرے میں پڑجانے والی تکفیری ،خارجی وہابی نام نہاد سازشی مفروضات کو گراؤنڈ فراہم کردیتے ہیں اور سوشل میڈیا نے ایک موقعہ فراہم کیا ہے مکتب علی شناسی سے جڑے لوگوں کو کہ وہ متشدد تکفیری انتہا پسند مکتب علی شناس مخالف ڈسکورس یا بیانیہ کو اب تک دستیاب ہونے والے شواہد اور واقعات کی روشنی میں گمراہ کن ثابت کریں لیکن سوشل میڈیا پہ جذباتیت کا وہ طوفان اٹھا ہے کہ ” استدلال اور منطق ” کی طاقت کو فراموش کردیا گیا ہے –ہمیں مکتب علی شناسی کے فراموش کردہ کرداروں کو مین سٹریم دھارے میں لانے کی کوشش کرنی چاہئیے –
امام باقر کو اپنے زمانے کے اندر مکتب علی شناسی کو ایک مندرج مکتب کے طور پہ سامنے لانے کے چیلنج کا سامنا تھا اور سب سے بڑھ کر تصور امامت کے گرد پھیلے ابہام کو دور کرنے کا چیلنج درپیش تھا اور سید حسین محمد جعفری سمیت کئی ایک مورخین نے لکھا اور زکر کیا ہے کہ امام محمد الباقر کو تصور امامت ، خود اپنی امامت اور اس حوالے سے مکتب علی شناسی کا موقف واضح کرنے کے لئے باہر سے زیادہ اندر سے چیلنج درپیش تھا –
اور عراق خاص طور پر کوفہ کی سرزمین پہ اس زمانے میں حضرت زید بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب کو جس طرح سے قیام اور سیاسی بغاوت پہ مجبور کیا گیا تو اس زمانے میں “حق امامت ” کے معاملے کو لیکر ایک مرتبہ پھر مکتب علی شناسی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی –مابعد کربلاء دور میں مکتب علی شناسی میں جب امام محمد باقر کے پاس منصب امامت آیا اور مکتب علی شناسی کی رہبری ان کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بھی امام سجاد کی طرح سیاسی بغاوت اور سیاسی خروج سے گریز کیا اور مکتب کی جو مذھبی بنیاد تھی ، اس کی جو روحانی و باطنی و فقہی جہات تھیں ان کو مضبوط بنانے پہ زور دیا – امام الباقر کے زمانے میں ہم واضح طور پہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کوفہ سمیت مکتب علی شناسی کے جو مضبوط مراکز تھے وہاں پہ یہ خیال زور پکڑ رہا تھا کہ حالات چاہے جو بھی ہوں منصب امامت پہ فائز شخص خروج ضرور کرتا ہے اور سیاسی انقلاب کے لئے تلوار اٹھاتا ہے –
امام سجاد سے یہ مطالبہ ” تحریک توابین اور اس کے علمدار مختار ثقفی ” نے زور دار طریقے سے کیا جبکہ ہم نے دیکھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ کو مکّہ بلالیا اور اپنے پاس رکھا اور نگرانی بھی کی لیکن امام سجاد نے اپنا سارا فوکس مکتب کی علمی بنیادوں اور ایک خاموش تحریک کی تعمیر میں صرف کیا – یہی کام امام باقر نے بھی کیا اور اس کام کو سرانجام دینے میں چند ایک کردار ایسے ہیں جن کا تذکرہ بہت ضروری ہے جو امام الباقر کے ساتھ جڑے اور انھوں نے مکتب علی شناسی تشکیلی ادوار میں سے اس اہم ترین تشکیلی دور میں علمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دئے –
ان میں ابو حمزہ ثابت بن دینار جن کا تعلق ازد قبیلے سے تھا کا نام بڑا اہم ہے یہ کوفہ کے وہ سرکردہ محدث ، ماہر علم الفقہ و الکلام و لغت ہیں جنھوں نے امام سجاد ، امام الباقر ، امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم کے ساتھ کام کیا –اور ان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام علی رضا سے ان کے بارے میں دو اقوال منقول ہوئے ہیں – ایک قول ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ” ابو حمزہ الثمالی ہمارے لئے ایسے ہیں جیسے لقمان اور دوسرا قول کہ ابوحمزہ ہمارے لئے ایسے ہیں جیسے سلمان فارسی تھے کیونکہ انہوں نے چار آئمہ کے ساتھ وقت گزارا –ثابت بن دینار کے تین بیٹے زید بن علی کے ہمراہ کوفہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے
ابوحمزہ احادیث کے باب میں ایک بہت بڑا سرچشمہ تھے لیکن حیرت انگیز طور پر اتنے بڑے محدث ، فقیہ اور نحوی کو دربار کے ماہرین جرح والتعدیل الرجال نے مسترد کردیا اور یہاں تک کہ کون جانتا ہے کہ عبداللہ بن مبارک سمیت مین سٹریم دھارے کے جو بڑے بڑے محدثین ہیں اور ” اصحاب اہل الحدیث ” کہلاتے ہیں وہ ان سے کہیں نیچے کھڑے نظر آتے ہیں اور مرکزی دھارے میں ان کا نام بھی مسلم تاریخ کے طالب علموں کو معلوم ہے لیکن کوفہ کے اس عظیم محدث ، فقیہ کا نام تک سے اکثر لوگ ناواقف ہیں –ابو حمزہ ثابت بن دینار کی وفات 150ہجری میں کوفہ میں ہوئی تھی اور ابوحمزہ ثمالی ابن صفیہ نے جناب امام سجاد کی ایک مناجات روایت کی ہے جو ان کے مطابق امام سجاد رمضان کے مہینے میں رات بھر کی عبادت کے بعد وقت سحر پڑھا کرتے تھے ، یہ پوری مناجات معانی کا جہان آباد کئے ہوئے ہے لیکن میں اس مناجات کے آخری جملوں کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
اللّهُمَّ إِنِّي أَسأَلُكَ إِيْمانا تُباشِرُ بِهِ قَلْبِي وَيَقِينا حَتَّى أَعْلَمَ أَنَّهُ لَنْ يُصِيبَنِي إِلاّ ماكَتَبْتَ لِي وَرَضِّنِي مِنَ العَيْشِ بِما قَسَمْتَ لِي ياأَرْحَمَ الرَّاحِمِين
اے معبود! میں تجھ سے ایسا ایمان و یقین مانگتا ہوں جو میرے دل میں جما رہے یہاں تک کہ میں سمجھوں کہ مجھے کوئی چیز نہیں پہنچتی سوائے اس کے جو تو نے میرے لیے لکھی ہے، اور مجھے اس زندگی پر شاد رکھ جو تو نے میرے لیے قرار دی، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
تو یہ جو ایسے ایمان کا سوال ہے جو قلب میں جاکر جم جائے اور یقین محکم کی طرح ہو کہ اس سے یہ یقین دل میں بیٹھ جائے کہ جو کچھ پیش آیا وہ مشیت ربانی ہے اور جو زندگی ہے اس کے لئے شکر ہے مولا کریم کا اگر مابعد کربلاء دور کو دیکھا جآئے تو یہ دعا ، مناجات بذات خود ایک بڑی ڈھارس باندھنے والی ہے اور مناجات کی ٹون سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسقدر تکلیف اور مصیب کے دن تھے وہ جن میں ابو حمزہ ثمالی جیسے لوگ تعمیر مکتب علی شناسی کا کام سرانجام دے رہے تھے لیکن مصائب و مشکلات کی طرف یہ رویہ جانب الی اللہ ہے اور یہ مابعدالطبعیاتی ، روحانی اور باطنی پہلو ہے مکتب علی شناسی کے رہبر اور اس کے پیرو کا لیکن جو چیلنج درپیش ہے اس سے فرار کا راستہ سماج کے اندر اختیار نہیں کیا گیا خود ابو حمزہ ثمالی کی زندگی اس بات کی گواہ ہے انہوں نے اور ان کے خاندان نے اموی اور عباسی خلفاء اور ان کے دور جبر کے خلاف مزاحمت کی اور اس راہ میں ان کے تین بیٹے بھی شہید ہوگئے، یہ جو درباری ماہرین حدیث و تاریخ تھے جنھوں نے اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے میں سٹیٹس کو کو چیلنج نہیں کیا تھا نہ ہی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور نہ ہی اموی و عباسیوں کے مظالم و سماجی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی بڑے آرام کے ساتھ ابو حمزہ ، ابن صفیہ کے بارے میں ” لیس بثقۃ ” کا فتوی دے گئے اور ” غالی رافضی ” لکھ گئے لیکن ان کے تذکرے میں یہ بات گول کرگئے کہ ابو حمزہ کے بارے میں امام سجاد ، امام باقر ، امام جعفر اور امام موسی کاظم و امام علی رضا کا کیا کہنا تھا اور کوفہ میں ان کے معاصر غیر درباری فقیہ و محدث کیا کہا کرتے تھے ؟
کیسے ان کے بیٹوں نے ظلم و ناانصافی کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا – یہ ثقہ اس لئے نہ ٹھہرے کہ انہوں نے ” کتمان حق ” نہ کیا اور مکتب علی شناسی کی روایت کو محفوظ بناڈالا – ایک اور شخصیت بھی اس زمانے کی ہے جس کا نام فرات بن احنف العبدی ہے اور ان کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ درباریوں نے تو ان کو مسترد کیا ہی خود ایک بڑے عرصے تک ان کو اپنے بھی رد کرتے رہے اور اب آکے کہیں ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہونا شروع ہوا ہے
پھر زہرہ بن ایان ، حمزہ ابن تیار محمد بن مسلم ریاح الطائفی ، الفضیل بن یسار نھدی کے نام بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں یہ کوفہ کے اندر زیادہ تر رہے اگرچہ یسار بصرہ کے تھے اور ان کے بیٹے محمد قاسم بن فضیل یسار امام جعفر صادق کے ثقہ روات سے ہیں –جتنے نام میں نے یہآن درج کئے یہ سب کے سب امام باقر کے اصحاب ہیں اور ان کو ہم جدید اصطلاح میں
Radical intellectuals or Intellectual cum activist of Shiite school
کہہ سکتے ہیں کہ جنھوں نے ایک طرف تو مکتب علی شناسی کی علمی و فکری تشکیل کے کام میں جناب امام الباقر کا ہاتھ بٹایا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عراق کے دل کوفہ میں بیٹھ کر پورے عراق میں چل رہی سیاسی تحریک کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کیا – مسلم بن ریاح کا کردار اس حوالے سے مکتب اہل الرائے یعنی فقہ العراق یا عراق کی پوری جو انٹلیکچوئل لائف ہے اس میں بہت اہم بنتا ہے – مسلم بن ریاح ایک عملی قانون دان بھی تھے اور ان کے معاصریں میں ابو حنیفہ ، ابی لیلی اور قاضی شریک جیسے لوگ تھے اور مسلم بن ریاح ان کے پائے کے آدمی تھے اور سیاسی اعتبار سے بھی انتہائی متحرک آدمی تھے –
ان کے بارے میں امام الباقر اور امام جعفر الصادق کے اقوال پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں تو کوفہ کے مرکز میں بیٹھ کر انہوں نے سٹیٹس کو محالف مکتب علی شناس کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا اور یہ وہ سب لوگ تھے جو اگرچہ زید بن علی کو ” امام ” نہیں مانتے تھے لیکن جب ہشام نے ان کو خروج پہ مجبور کردیا اور کوفہ کی گلیوں میں ایک لڑائی شروع ہوگئی تھے تو جتنے میں نے نام درج کئے یہ سب ان کے ساتھ شریک ہوگئے اور انہوں نے زید بن علی کی تحریک کا ساتھ دیا – عام طور پہ مین سٹریم جو عمومی بیانیہ ہے امویوں یا عباسیوں کے خلاف
Political Revolts
کے بارے میں ایک بڑا فکری مغالطہ اہل عراق یا اہل کوفہ کے کردار بارے یہ ہے کہ جیسے وہ سارے عہد شکن ، موقعہ پرست اور بزدل وغیرہ تھے تاریخ کی گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس مفروضہ کی نفی ہوجائے گی – جناب امام علی سے مداہنت اہل عراق بارے اقوال ملتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تاریخ ہمیں مالک اشتر جیسے کرداروں سے بھی ملواتی ہے جن کی وجہ سے کوفہ کے عرب قبائل کی حمایت میسر آئی اور جمل و صفین کی جنگ میں جناب امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا پلڑا بھاری رہا اور خوارج کے خلاف بھی جنگ نھروان سمیت دیگر جنگیں بھی اہل عراق و کوفہ کے مکتب علی شناس کے پیروکاروں کی قربانیوں سے ہی ممکن ہوئی تھی ، مجھے یہاں امام جعفر کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ
أرتد الناس بعد قتل الحسين بن علي عليه السلام إلا ثلاثة: أبو خالد الكابلي ويحيى ابن أم الطويل وجبير بن مطعم ثم إن الناس لحقوا وكثروا
امام حسین کی شہادت کے بعد اکثر لوگ پلٹ گئے تھے مگر تین لوگ ابو خالد الکابلی ، یحیی ام الطویل و جیبر بن مطعم نہیں پھر بعد میں لوگ ان سے جڑے اور کثرت میں ہوگئے
تو یہاں ارتد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے ترک کردیا تھا بلکہ جبر اور ظلم اتنا شدید تھا اور واقعہ کربلاء کی شدت اتنی تھی کہ اس جبر و ستم کی لہر کے سامنے ٹکے رہنا اور جمے رہنا کافی مشکل کام تھا – اس زمانے میں لوگوں کے دل تو ساتھ تھے لیکن ان کو اسقدر خوف اور جبر کے اندر رکھا گیا کہ وہ کربلاء جیسی ٹریجڈی روکنے میں ناکام رہے اور اہل عراق کو واقعہ کربلاء کی ٹریجڈی ہوجانے کے بعد اپنی بے عملی کا شدت سے احساس بھی ہوا اور توابین جیسی تحریک سامنے آئی لیکن سیاسی بغاوت اور انتقام کا فیصلہ ازخود کرلیا گیا تھا اس کے لئے حالات باقی علاقوں میں سازگار نہ تھے اس لئے ہم نے دیکھا کہ بہت جلد پھر عراق اور حجاز امویوں کے قبضے میں چلے گئے تھے لیکن اہل عراق اور خاص طور پہ اہل کوفہ کے اندر مکتب علی شناس کی جڑیں قائم و دائم تھیں –
اس زمانے کا ایک اور بھی کردار ہے جو شاعر بھی تھا اور ادیب بھی تھا – اور آج کی اصطلاح میں ہم اسے باغی شاعر کہہ سکتے ہیں – ہم جو رتبہ اور مقام اپنے ہاں فیض احمد فیض یا حبیب جالب کو دیتے ہیں یا ترکی کے ناظم حکمت کو ، فلسطین کے محمود درویش کو یا چلی کے پابلو نرودا کو یا پنجابی نکسل باڑی شاعر پاش کو دیتے ہیں وہی مقام اور مرتبہ ہم اس شاعر کو بھی دے سکتے ہیں جسے ساری دنیا کمیت بن زید الاسدی کے نام سے جانتی ہے اور جسے شاعر الاولین والآخرین کا خطاب بھی دیا گیا –کمیت کوفہ میں اسی حثیت اور مقام کا حامل ٹھہر گیا تھا جو مقام نزار قبانی کو دمشق میں حاصل تھا اور کمیت وہ شاعر تھا جس نے امویوں کی ہجو لکھی اور کمال کرڈالا
اور اس شاعر کے اشعار نے بنوامیہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا – امام باقر کے پاس کمیت جب آیا تو اس نے اشعار سنائے تو آپ نے کہا کہ
اے کمیت اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو تمہیں ضرور دیتے لیکن اب تمہارے لئے ہم وہی کہتے ہیں جو مرے نانا نے حسان بن ثابت کے حق میں کہے تھے
لا یزال معک روح القدس ما ذببت انا
جب تک تو ہمارا دفاع کرتا رہے گا روح القدس تجھ پہ سایہ فگن رہے گا
اور امام صادق نے کہا تھا کہ
کمیت پہ روح القدس ہمیشہ سایہ فگن رہا تھا
یہ بات امام صادق نے اس وقت کہی جب یوسف بن عمر گورنر کوفہ نے ان کو گرفتار کرکے امووی بادشاہ عبدالمالک کے پاس بھیجا تھا اور انہوں نے دفع ضرر کے تحت چند اشعار مالک کے لئے لکھ ڈالے تھے اور اس واقعے کی جانب اشارہ کرکے جب چند لوگوں نے کمیت اسدی پہ طعن کیا تو جعفر صادق نے یہ کہا تھا – کمیت اور فرزدق کی باہمی ملاقات کا قصّہ بھی بہت اہم ہے فرزدق کو کمیت نے جب
طربت وما شوقاً الی البیض اطرب
ولا لعبا ً منّی وذو الشیب یلعب
میں خوشی و مسرت سے بھر گیا اور یہ خوشی و مسرت کھیل تماشے کے سبب یا حسین چہروں کی طرف دیکھنے کے سبب نہیں تھی اور کوئی بوڑھا ( دانا ) کھیل تماشے میں نہیں پڑتا
تو فرذدق نے کمیت کو زیادہ اہمیت ںہ دی اور اسے کہا کہ میاں کھیلو ، کودو ، ہنسو یہ عمر اس طرح کے شعر کہنے کی نہیں ہے تو اس پہ کمیت نے کہا آگے تو سنیں
ولکن الی اھل الفضائل والتقی
وخیر بنی حوّا والخیر یطلب
لیکن مری خوشی اور مسرت اہل فضلیت و تقوی کے لئے ہے
جوکہ بنی خوا کے بہترین لوگ ہیں اور ایسے بہترین لوگوں کی طلب ہی کرنی چاہئيے
یہ شعر سنکر فرذدق چونک گیا اور اس نے پوچھا کہ جوان ! یہ تو بتا وہ کون سے اہل فضیلت و تقوی و بہترین لوگ ہیں جن کی وجہ سے ترے اندر خوشی ہے اور تو مسرت سے لبریز ہے تو کمیت نے پھر شعر پڑھے
بنی ہاشم رحط التی فاننی
بھم ولھم ارضی ٰ مرارً ا واغضب
بنی ہاشم جو نبی اکرم کے گروہ سے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کے لئے مری خوشی ہے اور ان کی خاطر مرا غضب ہے
فرزدق یہ سنا تو کہا کہ
انت اشعر الاولین والاخرین
کہ تم شاعر الاولین و آخرین ہو
کمیت کے اشعار آگ کی طرح پورے عراق میں پھیلے ، مصر میں ، ایران میں حجاز میں اور شام میں ان کی بازگشت سنائی دی اور اس کا ایک قصیدہ تو بہت ہی شہرہ آفاق ہوا جس کے چند اشعار یہاں درج کرتا ہوں
نفی عن عینک الارق الھجوعا وھم یمتری منہا الدموعا
دخیل فی الفئواد یہیج سقماً وحزناً کان من جذل ٍ منوعا
وتو کاف الدموع علی اکتئاب ٍ احلّ الدّھر موجعہ الضلوعا
تر قرق اسمحاً درئًاوسکباً یشہ سحماغرباّ ھموعاً
لفقدان الخضار م من قریش وخیرا الشافعین معاً شفیعا
نفی عینک الارق الھجوعا تری آنکھیں سونے سے انکاری ہیں راتوں کو کیونکہ وھم یمتری منھا الدموعا غم اشک آور ہے اور ان آنکھوں سے آنسو چھم چھم برستے ہیں الخ
کمیت آخر کار شہید راہ حق ٹھہرا لیکن اس کے اشعار نے ایک فضا امویوں کے خلاف قائم کردی تھی اور اس نے اپنی آنکھوں نے انقلاب دیکھا کہ بنو امیہ کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اور اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ
غریب شہر کے بچے جوان ہونے دو
امیر شہر سے سارے حساب لے لیں گے
ایک نام اور بھی اصحاب امام باقر میں اور وہ ہے ابو بصیر لیث المرادی کا –کہا جاتا ہے کہ مکتب علی شناس میں سب سے بڑے فقیہ چھے ہیں جن میں زرارہ ، معروف بن خربوذ ،وبُريد، وأبو بصير الأسدي، والفضيل بن يسار، ومحمّد بن مسلم الطائفي وغیرہ شامل ہیں جبکہ ابوبصیر اسدی کو ان سب میں سے بڑا فقیہ کہا گیا اور امام الصادق سے ایک روایت ہے آپ نے فرمایا کہ بروز قیامت اصحاب علی کے نام منادی ہوگی جس میں سلمان و عمار الخ کو نام لیکر بلایا جائے گا اور جب اصحاب محمد بن علی الباقر کی منادی ہوگی تو ان میں ابو بصیر لیث اسدی کا نام بھی پکارا جآئے گا – مابعد کربلاء ادوار میں ابو بصیر اسدی بھی وہ مظلوم دانشور ہے جس کا نام مین سٹریم دھارے سے خارج ہو اور وہ لاتاریخی رجحان کی ستم ظریفی کا نشانہ بنا – اسے کوفہ کی پررونق ، انتہائی متنوع دانشورانہ ثقافتی زندگی سے نکال باہر کیا گیا اور ستم ظریفی یہ بھی ہے مسلم تاریخ کے پرآشوب دور کے جو ولن تھے اور
Anti-intellectual and Enemies of cultural richness of Muslim society
تھے ان کے فضائل و مناقب پہ ایک انبار تیار ہوگیا بلکہ
Deep tendency of over glorification
دیکھنے کو ملی اور آج یہ سب ایک معمول کی بات لگتی ہے