دیوبندی وہابی دائیں بازو کے ترجمان عامر ہاشم خاکوانی کے سوالات کے جواب میں – وسیم علی
جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب کا کالم پڑھا جس میں انہوں نے ایک تازہ صف بندی فرمائی ہے اور اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھایا ہے کہ ڈٹے رہو اور ساتھ میں ایک دبی دبی سی یہ بھی نصیحت کی ہے کہ
طوطیا من موطیا، توں اوس گلی نہ جا
اوس گلی دے لوک بُرے تے لیندے پھائیاں لا
سقراط نے کہا تھا ” میں جانتا ہوں کہ میں نہیں جانتا”، لیکن اگر میں ایک منٹ کے لیے اپنے آپ کو ان صفوں میں کھڑا سمجھوں جن کی ترتیب و تشکیل خاکوانی صاحب فرما رہے ہیں تو مجھے یہ کالم اور صاحبِ کالم پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ، ” ہم جانتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں، اور جو ہم سے اختلاف رکھتا ہے وہ بھٹکا ہوا ہے متعصب ہے اور حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کرتا ہے اور مزید یہ کہ اگر کوئی ہماری اپنی فالٹ لائن ہے تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ ” اپنی سائیڈ ویکھ کے جان دیو” (یہ فقرہ اکثر جب ڈرائیور کا شاگرد گاڑی کو پیچھے کروا رہا ہوتا ہے تو وہ جب اپنی طرف کی ٹریفک سے مطمئن ہوتا ہے تو اپنے استاد کو آواز لگاتا ہے کہ اب صرف اپنی سائیڈ ہی دیکھیں میری طرف سے سب کلئیر ہے اور اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایسے گاڑی ٹُھک بھی جاتی ہے) یعنی اگر کوئی فالٹ لائن ہے بھی تو اسے نظر انداز کیا جائے مبادا مکالمہ ہو اس پہ اور حقیقت ہی نہ مزید کھل کے سامنے آجائے، اور ھاں اگر مخالف پارٹی کی (علمی مکالمے میں کوئی مخالف نہیں ہوتا سب سیکھنے کے لیے ہی آتے ہیں، لیکن مخالف پارٹی خاکوانی صاحب کے کالم کے مجموعی لہجے کو دیکھ کر استعمال کیا گیا ہے) کی کوئی ایسی بات ملے تو اس کو ضرور بے نقاب کرکے اپنا اخلاقی اور علمی فریضہ ادا کیا جائے، مطلب ہمارا کتا ٹومی ہی رہے گا اور ان کا کتا نہایت ہی کتا
جون ایلیا یاد آگئے، انہوں نے کہا تھا کہ نیندرتھل سے لے کر آج تک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ اور المیہ ایک ہی ہے،
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی
تو اس کالم میں ہدایات اور باقی سارے احکامات اور سازشوں سے پردہ تو اٹھانے کی کوشش تو کی گئی اور ساتھ ساتھ سیکولرسٹوں کے دل و دماغ کے اندر جا کے ان کا دماغ بھی پڑھ لیا گیا اور ان کے مزموم عزائم بھی نہ صرف جان لیے گئے بلکہ پورے یقین سے آگے اپنے لشکر کو پہنچا بھی دئیے گئے ہیں۔ دیہات میں اکثر جب عورتیں لڑتی ہیں تو جس بات پہ لڑائی ہوئی ہوتی ہے وہ تو بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور اس کی جگہ طعنے مہنے شروع کر دئیے جاتے ہیں کہ تمہاری پھپو کی خالہ کی ماں ایسی تھی اور اگلی بتاتی کہ تمہاری پردادی اور نانی کا فلاں فلاں کے ساتھ یارانے تھے اور تم نے خود اتنے پیچھے لگائے ہوئے ہیں۔ تو حضور والا اتنی لمبی تو کہانی ہی نہ تھی اور نہ ہی ہے، کیوں زیب داستان کے لیے اسے مزید بڑھایا گیا ؟ آپ ایک دو یا تین یا دس کالموں میں سیدھے اور سادہ الفاظ میں جو اسلامی ریاست کا خواب ہے اس کی آسان فہم تعبیر بیان کر دیں، اور بس اپنے اس پیروکار کے چند آسان سوالات کے جوابات عنائیت فرما دیں،
نمبر ایک. مثالی اسلامی ریاست کا سیاسی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ خلافت ہوگی تو خلیفہ بننے کے لیے کیا کوئی تعلیمی معیار ہوگا؟ عبادت و ریاضت دیکھی جائے گی؟ یا کوئی جنگی مہارت درکار ہوگی؟ اور اس خلیفہ کو مقرر کون کرے گا اور اس کی بیعت حاصل کرنے کے لیے خانہ جنگی تو نہیں شروع ہوجائے گی؟ اور ایک خلیفہ کہ انتقال فرما جانے کے بعد اگلے خلیفہ تک انتقال اقتدار کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ اگر خلافت نہیں ہوگی تو پھر کون سا نظام ہوگا، جمہوریت یا آمریت؟ اور اگر جمہوریت ہوگی تو پارلیمانی نظام ہوگا یا صدارتی نظام ہوگا یا ایرانی جمہوریت کی طرح ایک مجلس شوری بٹھا دی جائے گی؟ نیز اسلام کی رو سے یہ بھی واضح فرما دیا جائے کہ جمہوری نظام کیسے اسلامی نظام ہے تاکہ خلافت کے نعرے لگانے والوں کو تسلی بخش جواب دیا جاسکے
نمبر دو. اسلامی ریاست جو قائم ہوگی انشاللہ۔ وہ سعودی مکتبہ فکر کی بنیاد پہ ہوگی یا ایرانی مکتبہ فکر کی بنیاد پہ، نیز یہ بھی رہنمائی فرما دی جائے کہ اگر سعودی مکتبہ فکر ہوگا تو بریلوی، چشتی، قادری، عطاری اور اہل تشیع بےچارے کہاں جائیں گے، اور کیا وہ اسی طرح درباروں پہ چادریں چڑھا سکیں گے؟ دھمالیں ہوسکیں گی؟ اور وہاں لنگر چل سکے گا؟ اور اونچی آواز میں صلواۃ پڑھنے کی کیا سزا ہوگی؟ نعتوں کے لیے کوئی سنسر بورڈ بھی قائم ہوگا؟ اور اہل تشیع ماتم کر سکیں گے؟ علی دا پہلا نمبر والی قوالی پہ پابندی تو نہیں لگ جائے گی، اور وہ اہل بیت کے دشمنوں کو ایسے ہی کوس سکیں گے، جیسے وہ اب کر رہے ہیں؟
نمبر تین. اگر بریلوی مکتبہ فکر والا اسلام آجاتا ہے تو اس میں وہابی منکروں کی کیا جگہ ہوگی کیا وہ پیروں، فقیروں اور درباروں اور مزاروں پہ جانے کے عمل پہ تنقید کر سکیں گے؟ اور تبلیغی جماعتیں کہاں جائیں گی پھر؟ اور اہل تشیع کو تو بریلوی بھی اپنے دائرہ اسلام سے مکمل خارج ہی سمجھتے ہیں ان کے لیے کیا احکامات ہوں گے؟
نمبر چار. اگر ایرانی مکتبہ فکر والا اسلام آتا ہے تو کیا اہل حدیث اور دیوبندی حضرات یومِ عمر فاروق منا سکیں گے؟ اور بریلویوں کے بارے کیا احکامات ہوں گے، نیز معاویہ نام کے لوگ کہاں جائیں گے؟
نمبر پانچ. چاہے ان میں سے کوئی بھی نظام. آجائے، ایسے لوگ جو عیسائی، ہندو، سکھ اور بدھ ہیں ان کے کیا حقوق ہوں گے کیا وہ اپنے مذھب کی تبلیغ کر سکیں گے؟ اور ان کو ملازمتیں بھی بغیر کسی امتیازی سلوک کے ملا کریں گی؟ اور احمدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، اور سب سے آخر میں ایسے لوگ جو سب انسانوں کو رنگ، نسل، اور عقیدے سے بالاتر ہوکر قابل احترام سمجھتے ہیں اور انسانیت کے گیت گاتے پھر رہے ہیں اُن کا گلا فوری گھونٹ دیا جائے گا یا ان کو توبہ کا موقع دیا جائے گا؟
نمبر چھ. اس مثالی ریاست کا نظام معیشت کیا ہوگا؟ سود کو کیسے ختم کیا جائے گا یا اسلامی بینکاری کی طرح بس اصطلاحات بدل کے اللہ کو راضی کر لیا جائے گا؟ اور جو ہمارے ملک نے بین الاقوامی اداروں کے سودی قرضے دینے ہیں ان کا کیا جائے گا نیز جو منصوبے زیرِ تکمیل ہیں ان کو مکمل کیا جائے گا یا اللہ کا نام لے کے جس بھی منصوبے میں سودی پیسہ شامل ہوگا اسے وہیں پہ روک کے سود کے خلاف اعلان جہاد کیا جائے گا؟
نمبر سات. میڈیا کیسا ہوگا اس اسلامی ریاست کا؟ کیسے پروگرام چل سکیں گے، کیسی شاعری کی اجازت ہوگی، کون سی موسیقی کی اجازت ہوگی اور مرتی ہوئی فلم اندسٹری کے بارے میں کیا کیا جائے گا،
نمبر آٹھ. نظام تعلیم کیسا ہوگا؟ امام غزالی کیساتھ ابن رشد کو بھی پڑھایا جائے گا؟ نیز یہ پڑھایا جائے گا کہ قابل فخر مسلمان سائنسدانوں کو کس کس طریقے سے اذیتیں اور کفر کے فتوے دے کے مارا گیا یا ہمیشہ کی طرح کوشش کی جائے گی کہ یہ فالٹ لائن بھی ایکسپوز نہ ہو؟
آزادی افکار اور اظہار کی عیاشیوں کا سوال ابھی ہم نہیں اُٹھاتے، پہلے ان سوالات کے جوابات مل جائیں پھر کچھ مزید گزارشات پیش کی جائیں گی، قوی امید ہے کہ سوالات کے جوابات دے کے بھٹکنے سے بچایا جائے گا تاکہ میں اپنی صف میں ڈٹ کے کھڑا رہوں
Source:
http://www.humsub.com.pk/12864/wasim-ali/